Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Abid Boxer, Malangi Aur Anu Chabil

Abid Boxer, Malangi Aur Anu Chabil

عابد باکسر، ملنگی اور انو چھبیل

لاہور کنارے دریائے راوی جو اب خشک ہو چکا ہے، 1980 کی دہائی میں یہاں سیر کے لیے آنے والے لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر بارہ دری دیکھنے جایا کرتے تھے۔ دریائے راوی میں تیرتی ایک کشتی پر سوار کچھ نوجوان طلبہ نے سیر و تفریح کے دوران کشتی ران سے اس کا نام دریافت کیا تو جواب ملا عابد حسین۔ ایک طالب علم نے پوچھا کیا تم پڑھتے ہو؟ کشتی ران نے جواب دیا جی میں نے میٹرک کیا ہے۔ اس نے پھر سوال کیا کہ کیا آگے پڑھنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ نوجوان ملاح عابد حسین نے معصومیت بھرے لہجے میں پوچھاکیا اس سے آگے بھی پڑھتے ہیں؟

طالب علم نے کہا ہاں اصل پڑھائی تو میٹرک کے بعد شروع ہوتی ہے۔ کالج جانا پڑتا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لو۔ ویسے تو میرٹ بہت ہائی ہوتا ہے مگر تم اچھی کشتی چلا لیتے ہو۔ تمہارا تو روئنگ کی بنیاد پر سپورٹس کوٹے میں بھی داخلہ ہو سکتا ہے اور پھر وہ کشتی ران کچھ روز بعد اپنے کاغذات لے کر جی سی لاہور پہنچ گیا۔ شہر کی سب سے مشہور تعلیمی درسگاہ میں داخلہ کیا ملا اس کی زندگی ہی بدل گئی۔ کشتی رانی کے بعد باکسنگ میں جھنڈے گاڑنے والا عابد حسین تعلیم مکمل کرنے کے بعد پولس میں بھرتی ہوگیا اور آج ہم اسے عابد باکسر کے نام سے جانتے ہیں۔

عابد باکسر پولیس میں باکسنگ کا کھلاڑی رہا اور محکمہ پولیس کی جانب سے کھیلتا رہا۔ پھر ایک دن ایس پی زبیر محمود کی نظر اس کی چست جسامت پر پڑ گئی۔ ایس پی صاحب نے پولیس لائن سے نکلوا کر اس کا تبادلہ اپنے سٹاف میں کروا لیا۔ پولیس میں ایس آئی بھرتی ہونے والا عابد باکسر بہت جلد انکاؤنٹر سپیشلسٹ بن کر ترقی پاتا انسپکٹر ہوگیا۔

عابد باکسر نے ملنگی نامی اس درندے کو مارا جس نے کمسن بچی سے لے کر بڑی خواتین اور حاملہ خواتین تک کم از کم پچاس عورتوں کی عزت لوٹی تھی۔ پولیس کے مطابق یہ تعداد دو سو سے زائد ہے لیکن وارثین ریپ کے معاملات میں عزت بچانے کی خاطر رپورٹ درج نہیں کرانا چاہتے تھے۔ عبدالکریم جو سپاہ صحابہ کے شوٹر ریاض بسرا کا ساتھی اور دہشت کی علامت تھا اسے پار لگایا تھا۔ مشہور زمانہ قاتل انور چھبیل کو پولس مقابلے میں ختم کیا جس نے 150 افراد کا قتل کیا تھا۔ لاہور انڈر ورلڈ میں تین لوگوں کو پرنس کا ٹائٹل دیا گیا اور ان میں سے دو یعنی اسد پرنس اور طاہر پرنس کو عابد باکسر نے مارا تھا۔ اجرتی قاتل کاشی چیمہ، تارہ فوجی اور اکبر میو سمیت پولیس مقابلوں میں ایک سو بائیس جرائم پیشہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے والے عابد باکسر کی کہانی سنسنی خیز اور ڈرامائی ہے۔ اس پر گینگسٹرز نے تو کئی بار حملے کئے مگر اس کے پیٹی بھائیوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

ٹرکاں والا اور گوگی طیفی بٹ کے مابین لاہور گینگ وار کا ایک کردار عابد باکسر بھی رہا۔ اس کا ابتداء میں تعلق بلا ٹیپو ٹرکاں والا سے تھا۔ عابد باکسر کی شادی پر ٹیپو نے اپنے گارڈز کے ہمراہ اپنے چار سالہ بیٹے امیر بالاج کو سلامی دے کر بھیجا تھا۔ بعد ازاں عابد نے گوگی بٹ سے راہ رسم بڑھا لی تھی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایوان عدل لاہور میں ٹیپو ٹرکاں والا پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں پانچ لوگ مارے گئے۔ ٹیپو نے اس کا پرچہ گوگی طیفی بٹ کے ساتھ عابد باکسر پر بھی کرا دیا تھا۔ بٹ گروپ عدم شہادت پر اس مقدمے سے بری ہوا مگر عابد باکسر کو سروس سے معطلی کے ساتھ اس مقدمے میں ڈیڑھ سال جیل کاٹنا پڑی۔ میں یہاں عابد باکسر کا اس گینگ وار میں کردار لکھنے کی بجائے ذکر کروں گا جاوید عرف ملنگی اور انو چھبیل کے انکاؤنٹر کا۔

عابد باکسر کا ایک بڑا کارنامہ خواتین کی عصمت دری کرنے والے ملنگی کا خاتمہ ہے۔ ملنگی ایسا ہوس پرست قاتل اور سفاک شخص تھا کہ اس نے کم سن بچیوں سے ضعیف عورتوں تک کسی کو نہ چھوڑا۔ یہاں تک کہ اس نے کئی حاملہ خواتین کی عزت لوٹی۔ ایک بار اس نے ساڑھے آٹھ ماہ کی حاملہ خاتون کے ساتھ جبری زیادتی کی۔ وہ مر گئی تو بھی اپنی جنسی ہوس بجھاتا رہا۔ شاہدرہ سے لے کر چوہنگ تک کے وسیع علاقے میں ملنگی کی دہشت اس قدر پھیل چکی تھی کہ لوگوں نے اپنی بچیوں کو دوسرے شہر بھجوانا شروع کر رکھا تھا۔ سکول کالجز میں حاضری نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ پولیس بے بس نظر آتی تھی۔

ملنگی راہ چلتی کسی بھی عورت پر حملہ آور ہو جاتا تھا۔ اسے اسلحے کے زور پر سڑک کنارے لے جا کر کسی درخت یا دکان کی اوٹ میں اپنی ہوس پوری کرتا اور پھر کچھ کو چھوڑ جاتا کچھ کو مار دیتا۔ رات کو گھروں میں ڈکیتی کرتا۔ اس کا طریقہ واردات بھیانک تھا۔ ایک رات میں دو سے تین گھروں میں واردات کرتا۔ مردوں کو باندھ دیتا۔ ہر گھر میں خواتین کو نشانہ بناتا۔ سونا اور نقدی لوٹتا۔ سکون سے کھانا کھاتا۔ کبھی کبھی خاتون خانہ سے ہی تازہ کھانا پکواتا اور تین چار گھنٹے ایک ہی گھر میں گزارتا۔ اس نے ایک فلمی ڈائیلاگ سُن رکھا تھا جو اس کی زبان پر رہتا۔ وہ اکثر اپنے متاثرین کے سامنے کہا کرتا۔۔

دن نوں راج فرنگی دا

رات نوں راج ملنگی دا

سنہ 1987 سے 1995 تک ملنگی پولیس اور اہلیان لاہور کے لیے دہشت کی علامت بنا رہا۔ سنہ 1995 میں یہ درندہ شخص بلآخر پکڑا گیا کیونکہ اس کے جرائم کی فہرست بہت طویل تھی اس لئے سارے لاہور کی پولیس نے اس کو پکڑنے میں ساری توانیاں لگا دیں۔ افسروں نے فیصلہ کیا کہ اسے پولیس مقابلے میں مار دیا جائے۔ انکاؤنٹر کرنے کے لئے ملنگی کو دریائے راوی کنارے لے جایا گیا۔ روایتی حکمت عملی کے تحت پولیس افسروں نے اسے بھاگ جانے کا کہا تاکہ پیچھے سے فائرنگ کرکے مار دیا جائے مگر وہ برستی گولیوں کے دوران سچ مچ بھاگ گیا اور پولیس والے حیران پریشان منہ دیکھتے رہ گئے۔ یہ واقعہ پولیس کے لئے بہت شرمندگی اور خجالت کا باعث بن گیا۔

ایس ایس پی لاہور ملک آصف نے عابد باکسر کو کال کی اور پوچھا کہ آج کل کیا کر رہے ہو؟ عابد باکسر نے بتایا کہ میری والدہ حمید لطیف ہسپتال میں بستر مرگ پر ہے۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا اور میں ان کی تیمارداری میں مصروف ہوں۔ سروس سے چھٹیوں پر ہوں۔ ملک آصف نے کہا اگر تم ملنگی کو ڈھونڈ نکالو تو تمہیں حج کے برابر ثواب ملے گا شاید اسی نیکی کے باعث تمہاری والدہ ٹھیک ہو جائے۔ عابد باکسر کے بقول وہ ماں سے بہت زیادہ اٹیچ تھا۔ یہ بات سن کر اس نے فیصلہ کیا شاید اس نیک کام سے ماں ٹھیک ہو جائے۔

صفیہ نامی ایک خاتون تھی جس کے ملنگی کے ساتھ تعلقات تھے۔ عابد باکسر اس سے جا کر ملا اور ملنگی کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ وہ خاتون ہنس پڑی اور کہنے لگی تم ملنگی کو مارو گے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ انسپیکٹر عابد باکسر پچیس برس کا سلم سمارٹ نوجوان تھا ابھی اس کے نام کی دہشت بھی اتنی زیادہ نہیں تھی اور ملنگی ساڑھے چھ فٹ قد کے ساتھ ٹھوس مضبوط جسامت کا مالک تھا۔ صفیہ نامی خاتون نے کہا کہ ملنگی کی دو کلاشنکوف اسی گھر میں پڑی ہیں وہ ضرور آئے گا۔ لیکن وعدہ کرو تم اسے جان سے مار دو گے زندہ نہیں چھوڑو گے۔

عابد باکسر کے بقول کہ میں نے اس سے پوچھا تم اسے کیوں مروانا چاہتی ہو اور پولس کی مدد کیوں کر رہی ہو؟ صفیہ نے کہا کہ میری ذات تک تو بات قابل قبول تھی مگر اب ملنگی کی گندی نظر میری کمسن بیٹی پر ہے۔ میں نہیں چاہتی وہ اس کے ساتھ ایسا ویسا کچھ کر گزرے۔ جب تسلی ہوگئی تو عابد باکسر نے اپنے تین اہلکاروں سمیت وہاں ڈیرہ ڈال لیا۔ ملنگی کے انتظار میں سولہ دن گزر گئے۔

سترہویں دن ملنگی صفیہ کو ملنے وہاں پر آ گیا۔ جب اندر داخل ہوکر اس نے عابد باکسر کو دیکھا تو اس نے صفیہ کی دو کم سن بچیوں کو یرغمال بنا کر فائرنگ شروع کر دی۔ مگر عابد باکسر نشانے کا پکا تھا اور اسی سبب مشہور تھا۔ ملنگی کے ماتھے پر گولی لگی۔

ملنگی کی موت اہلیان لاہور کے لیے جشن جیسی تھی۔ قومی اخبارات میں سرخیاں لگیں۔ سپیشل فیچرز چھپے۔ یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے۔ ملنگی کے سر پر دس لاکھ سرکاری انعام تھا اور علاوہ ازیں تاجران نے عابد باکسر کو اس کارنامے کی داد میں انعام کی صورت نقدی اور سونا گفٹ کیا۔ عابد باکسر نے ہیڈ منی اور جمع شدہ تحائف کو لینے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا یہ ساری رقم ان مجبور یا مستحق خواتین میں بانٹ دی جائے جو ملنگی کا شکار ہوئیں۔ پولیس نے وہ رقم کچھ مستحق متاثرین میں بانٹ دی۔

عابد باکسر ایک روز طلبا تنظیم ایم ایس ایف کے رہنما اور ڈان ارشد امین چوہدری کے ڈیرے پر سول کپڑوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں ایک دیہاتی خاتون جس نے لاچا پہنا ہوا تھا ارشد امین چوہدری سے ملنے آئی۔ خاتون صوفے پر مردوں کی مانند ٹانگ اٹھا کر بیٹھ گئی اور سگریٹ نوش کرتی رہی۔ ارشد امین نے اسے دس لاکھ روپے لا کر دیے تو اس خاتون نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے کہا "چوہدری پہلے کبھی ایسا ہوا تو نہیں ہے کہ انو نے سپاری لی ہو اور بندہ نہ مارا ہو مگر میں انو سے بات کروں گی"۔

عابد باکسر کے لیے یہ بات بہت حیران کر دینے والی تھی کہ اتنا بڑا بدمعاش ایک خاتون کو پیسے دینے پر مجبور ہے۔ پتہ چلا کہ ارشد امین کے مخالف عابد چوہدری کے بھائی اعظم چوہدری نے اجرتی قاتل انو چھبیل کو پانچ لاکھ روپے میں ارشد امین چوہدری کی سپاری دی تھی۔ ارشد امین چوہدری کو یقین تھا کہ انو چھبیل نے پیسے پکڑ لیے ہیں تو اب اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس نے انو چھبیل کی والدہ کو بلا کر دس لاکھ روپے دیئے تاکہ پانچ لاکھ سپاری واپس کرکے وہ پانچ لاکھ اپنا وصول کرے اور ارشد امین چوہدری کی جان بخشی ہو جائے۔

یہاں سے عابد باکسر کو اندازہ ہوا کہ انو چھبیل کس قدر خطرناک اجرتی قاتل ہے۔ انور عرف انو چھبیل جس نے ڈیڑھ سو افراد کو قتل کیا تھا اس پر تیس کے قریب پولیس مقابلوں کے مقدمات بھی درج تھے۔ عام افراد تا گینگسٹرز تو کیا پولیس والے بھی اس کے نام سے خوف کھاتے تھے۔

انو چھبیل ایک بے رحم اُجرتی قاتل تھا۔ اس کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ اس کا بیک گراؤنڈ غربت زدہ تھا۔ یہ کام اس نے غربت مٹانے کے لیے شروع کیا تھا۔ اس کا خواب تھا ٹویوٹا مارک ون اس کے پاس ہو اور وہ اس پر گھومتا رہے۔ یہ اکیلا کام کرتا تھا۔ انو نے گینگ نہیں بنایا تھا۔ بہادر اس قدر تھا کہ جس کی سپاری لیتا اس کے گھر جا کے اس کو اطلاع دیتا کہ انو نے سپاری لے لی ہے اپنا بندوبست کر سکو تو کر لو۔ دراصل یہ پرفیکٹ نفسیاتی کیس تھا۔ پنجاب کے سترہ اضلاع میں اس کی دھوم تھی۔ پنجاب پولیس کی ریڈ لسٹ میں ٹاپ پر اس کا نام تھا۔ ایک بار اس کی تلاش میں سرگودھا چھاپہ مارا گیا۔ یہ وہاں سے بھاگ نکلا۔ سرگودھا سے لاہور آتے راہ میں پولیس نے آٹھ ناکے لگا دیے تھے۔ یہ آٹھوں ناکوں کو کلاشنکوف سے فائر کرتے توڑ کر نکلا۔ لاہور پہنچنے تک اس نے چار پولیس والے فائرنگ سے مار دیے۔ پنجاب میں دہشت کی علامت بن چکا تھا۔

ایس پی رانا مسعود الحسن نے عابد باکسر سمیت تین افسران پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم تشکیل دے دی تھی۔ ایک دن خبر ملی کہ انو چھبیل ملتان میں ایک ایس ایچ او کے گھر رہائش پذیر ہے۔ وہاں چھاپہ مارا گیا لیکن کامیابی نہ ملی۔ ایک ماہ بعد ملتان ہی کے کسی اور علاقے میں انو کی موجودگی کی اطلاع ملنے پر ریڈ کیا گیا لیکن اس بار بھی انو چھبیل بھاگ گیا۔ مگر پھر کسی مخبر نے رپورٹ دی کہ انو چھبیل نے سپاری لی ہے اور لاہور کے علاقے چوہنگ میں اس نے کسی کو قتل کرنے آنا ہے۔

پولیس نے ملتان روڈ پر تین مختلف مقامات پر ناکے لگا کر استقبال کی تیاریاں کیں مگر مہمان نوازی عابد باکسر کے حصے میں آئی۔ انو چھبیل نے ناکے پر جارحانہ انداز میں فائرنگ کر دی تو پولیس کا ناکا ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ مگر پولیس کی جوابی فائرنگ سے اس کی گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا تھا۔ انو نے گاڑی ملتان روڈ پر کھڑی کرکے ایک زیر تعمیر گھر میں پناہ لے لی۔

پولیس اہلکاروں نے سامنے زیر تعمیر گھر میں پوزیشنیں سنبھالیں۔ عابد باکسر کے ساتھی ایس آئی ملک اعجاز نے گالی دی تو انو چھبیل نے کہا "جب بندوق ہاتھ میں ہو تو زبان نہیں چلاتے"۔ اس کے بعد فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا۔ مقابلہ جاری رہا۔ انو چھبیل زخمی ہوگیا تو اسے سرنڈر کرنے کی پیشکش کی گئی مگر اس نے کہا اگر مجھ پر کوئی احسان کرنا چاہتے ہو تو ایک سگریٹ اندر پھینکو۔ میں مرنے سے پہلے سگریٹ پینا چاہتا ہوں۔ عابد باکسر نے سگریٹ پھینکا۔

اس کے بعد کافی دیر تک انو کی جانب سے خاموشی رہی۔ جب پولیس ٹیم گھر کے اندر داخل ہوئی تو انو چھبیل مرا پڑا تھا۔ بجھا ہوا سگریٹ کا فلٹر اس کے منہ میں تھا۔ یوں جرائم کی دنیا کا ایک باب جسے "راوی کا بیتاج بادشاہ" کہا جاتا تھا اپنے انجام کو پہنچا۔

لاہور میں بڑے جرائم پیشہ گروپ سرگرم تھے جن میں شفیق عرف بابا، حنیف عرف حنیفہ، ارشد امین چوہدری، ہمایوں گجر عاطف چوہدری، بلا ٹرکاں والا، طیفی گوگی بٹ اور بھولا سنیارا جیسے نام شامل تھے۔ جب آپ انکاؤنٹر سپیشلسٹ بنتے ہیں تو انڈر ورلڈ سے تعلقات رکھنا پڑتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد سے ملنا جلنا ضروری ہو جاتا ہے۔ سسٹم جب اپنا کام نکلوا لیتا ہے تو پھر سسٹم ہی ایک سٹیج پر آ کر ڈس اون کر دیتا ہے۔

عابد باکسر کو پولیس نے ہی ڈس اون کر دیا۔ وہ جسے کبھی پنجاب پولیس لیجنڈ آف پولیس کا خطاب دیتی رہی اس پر مقدمات بھی بننے لگے۔ انکوائریاں بیٹھیں۔ عابد کو ملک سے بھاگنا پڑا۔ کافی عرصہ جلا وطن رہا۔ اس کی وجہ شہرت اداکارہ نرگس کیس میں کافی ہوئی۔ نرگس کے ساتھ اس کے تعلقات تھے اور پھر نرگس کے بال اس نے مونڈ ڈالے تھے۔ جلاوطنی کے دوران وہ اس وقت کے چیف منسٹر شہباز شریف پر الزام عائد کرتا رہا کہ آپ کے کہنے پر میں نے پنجاب کے ٹاپ ٹین اشتہاریوں کا صفایا کیا تھا اور اب مجھ پر ہی ماورائے عدالت قتل کے مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ آجکل وہ پاکستان ہے اور کافی کیسز سے نکل چکا ہے۔ کچھ ابھی بھی زیر تفتیش ہیں۔

آخر میں ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں۔ کورونا سے قبل سنہ 2018 میں سردار آصف احمد علی مرحوم کے ہاں ایک تقریب پر میری عابد باکسر سے پہلی اور آخری ملاقات ہوئی تھی۔ سردار آصف احمد علی مرحوم پاکستان کے سابقہ وزیر خارجہ تھے۔ پیپلزپارٹی کے پرانے نظریاتی اور بزرگ لوگوں میں سے تھے مگر پھر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔ زیرک سیاستدان تو تھے ہی مگر کمال کے آرٹسٹ بھی تھے۔ وہ بہت اچھے پینٹر تھے۔ پینٹنگ ان کا شوق تھا۔ خیر، میں نے عابد باکسر سے پوچھا کہ کبھی اپنی زندگی اور انکاؤنٹر لائف پر کتاب لکھنے کا نہیں سوچا؟ جواب ملا "دل تو کرتا ہے لیکن لکھ نہیں سکتا۔ جھوٹ مجھ سے لکھا نہیں جائے گا اور سچ لکھنے کا خمیازہ جان سے جانا ہے"۔ پھر بات ہنسی میں ٹل گئی۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari