Ab Iss Qadar Bhi Na Chaho Ke Dam Nikal Jaye
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
پتہ نہیں آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے یا نہیں مگر مجھے ہو جاتا ہے۔ وہ یہ کہ کچھ لوگوں سے ملاقات کرتے، گفتگو کرتے یا کمنٹس پڑھ کر ان سے نیگیٹو وائبز محسوس ہوتیں ہیں اور کچھ عرصے بعد میرا گمان یقین میں بدل جاتا ہے۔ نوے فیصد کیسز میں ایسے لوگ ایسے ہی نکلے ہیں۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ ہو سکتا ہے سب کے ساتھ ایسا نہ ہوتا ہو۔ شاید میرے مشاہدے کی حِس اوور سینسیٹو ہے کہ دوران گفتگو جملوں اور الفاظ پر بہت غور کرتا ہوں اور اگلے کی باڈی لینگوئج پر بھی یا کسی کے لکھے میسج یا کمنٹ کے الفاظ پر between the lines پڑھ سکنے کی اہلیت ہے۔
بہرحال، میرا مشاہدہ تو ایسا ہی ہے جو بعد ازاں بیشمار مواقعوں پر سچ ثابت ہوا ہے۔ لوگ ویسے ہی نکل آتے ہیں۔ فطرت زیادہ دیر چھُپ نہیں سکتی۔ یہ بھی خدا کے بیشمار کرموں میں سے ایک کرم بلکہ نعمت ہے کہ وہ آپ کو خود ہی منفی سوچ کے حامل لوگوں سے دور لے جاتا ہے۔ مجھے محسوس ہو جاتا ہے کہ کوئی مزاق میں کتنا سنجیدہ ہے اور سنجیدگی میں کتنا مزاق کر رہا ہے۔ کوئی آپ کو کیسے برداشت کر رہا ہے یا کوئی سچ میں آپ سے خوش ہے۔
دنیا میں لوگ ملتے ہیں جدا ہوتے ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا نے ویسے ہی انسان کو دنیا کے سامنے ایکسپوز کر دیا یا کنیکٹ کر دیا ہے۔ اب ہر نامور انسان کا لائف سٹائل، اس کا روزمرہ، اس کی سوچ، اس کی نوکری یا بزنس، اس کے لڑائی جھگڑے، اس کی دوستیاں، اس کے بچے اس کی فیملی وغیرہ وغیرہ سب کے سامنے ہے۔ وہ ہر لمحہ لوگوں کی نظروں سے سکین ہو رہا ہے۔ وہ کیا کھا رہا ہے، کیا اوڑھ رہا ہے، کہاں جا رہا ہے۔ سب کی نظروں کا محور بن چکا ہے۔ اس کلاؤڈ نیٹ ورکنگ نے ایک بڑا ظلم تو یہ کیا کہ انسان کے اس کو بنا جانے، بنا ملے، بنا پرکھے حاسد بھی بن گئے اور ایسے ہی کچھ خیرخواہ یا دوست بھی۔ اور انسان نے بھی خود کو بھگوان سمجھنا شروع کر دیا۔
میں اتنا پاپولر ہوں، میں اتنا سراہا جاتا ہوں، میں اتنا عظیم ہوں، میں اتنے لوگوں کی نظروں میں ہوں، مجھے اتنے لوگ پیار کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ جیسی سوچ نے انسان کو اس کے معیار سے گرا دیا ہے۔ اب ہر انسان امیج بلڈنگ کی میراتھن کا کھلاڑی بنا ہوا ہے۔ وہ مزید مشہور ہونے کا خواہاں ہے۔ میں قسم اٹھا کر کہہ سکتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر مجھے نوے فیصد فرشتہ صفت لوگ ہی ملتے ہیں انسان تو دس فیصد بھی بمشکل نظر آتے ہیں۔ یہاں ہر شخص نیک، خوددار، رزق حلال کمانے کا دعویٰ دار، پارسا، پاکیزہ، دینی اور راست گو ہے۔ انسان البتہ یوں نہیں ہوتے۔ وہ خوبیوں کے ساتھ خامیوں کا بھی مجموعہ ہوتے ہیں۔ انسان میں سنجیدگی بھی ہے اور کھلنڈرا پن بھی، شوخی بھی ہے اور مہذب پن بھی، وہ اداس بھی ہے اور خوش بھی ہوتا ہے۔ فرشتہ تو نرا فرشتہ ہے۔ اور یہاں فرشتے ہی ملتے۔ کوئی انسان ملے تو اسے دیکھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔
بہت کم لوگ ادراک رکھ پاتے ہیں کہ سوشل میڈیا لائف یا کلاؤڈ لائف ایک مایا سا جال ہے اور کچھ نہیں۔ یہ سب کچھ ہوائی ہے۔ لوگ آپ کو لمحہ بہ لمحہ جج کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ سے پیچھے رہ جانے والے آپ کو دیکھ کر کڑھ رہے ہوتے ہیں۔ زندگی میں ناکام رہنے والے، پروفیشنل گروتھ نہ کر سکنے والے، فنانشلی کمزور رہ جانے والے، آپ جیسا لائف سٹائل پانے کی چاہ رکھنے والے سب آپ کو جج کر رہے ہوتے ہیں۔ کوئی آپ کی پراگرس، اچیومنٹ، ترقی پر خوش نہیں ہوتا۔ ماسوائے ذاتی تعلقات و ذاتی شناسائی یا میل ملاپ والوں کے۔
وہیں ایک پازیٹیو پہلو سوشل میڈیا کا یہ بھی دیکھا کہ کچھ انمول لوگ، کچھ ہیرے، کچھ ہر حال میں مثبت سوچ رکھنے والے، کچھ وسیع المطالعہ، وسیع سوچ کے مالک، ہنس مکھ، دھیمے مزاج لوگ بھی ملے اور ملتے ہیں اور فوراً آپ کا ان سے دلی رشتہ بن جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی بدولت ہی مجھے انرجی ملتی ہے۔ کچھ بے لوث لوگ ملے ہیں جو اب دوستی کے ناطے سے منسلک ہیں۔ اور دوست وہی جو آپ کے دکھ سکھ میں دل سے شریک ہوتا ہے۔ صرف ان چند لوگوں کی بدولت ہی سوشل میڈیا پر لکھتا بولتا ہوں۔ باقی اس ہوائی دنیا کی حقیقت خوب جانتا ہوں۔
یہاں میں نے کسی کی پرواہ نہیں کی اور میں یہ چاہتا بھی نہیں کہ کوئی میری پرواہ کرے۔ یہ تو اظہارِ خیال کا ایک میڈیم ہے میرے لیے کسی کو بھلا لگے تو شکریہ نہ لگے تو نہ سہی۔ یہاں کونسا رشتے داریاں نبھاہنی ہیں۔ ایک باہمی عزت و احترام کا تعلق ہوتا ہے اور بس۔ چند سالوں سے میں اس سبب بہت بوجھل ہوا ہوں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے سبب کالز اور میسجز اور کانٹیکٹس اور ملاقاتوں کی خواہش کا اظہار بہت بڑھتا گیا ہے اور یہ سب میری نیچر کے موافق نہیں ہے۔ ٹھیک ہے لوگ کسی ہنر کے سبب مجھے چاہنے لگتے ہیں یا کچھ اپنا آئیڈیل ماننے لگتے ہیں مگر میں کیا کروں کہ جب میری نیچر میں ہی آئسولیشن ہو۔ شوگر کوٹڈ باتوں سے مجھے بیزاری ہونے لگتی ہے۔ ملنا ملانا مجھے پسند نہیں ہے۔ میں انتہا درجے کا introvert انسان ہوں extrovert نہیں ہوں۔ میں اپنی ذات میں مگن ہوں اور مجھے کسی میں کوئی دلچسپی نہیں۔
چھوٹی سی زندگی ملی ہے اور اسے مجھے یوں گزارنے کی کوشش کرنا ہے کہ جتنی ہے اپنے اور آل اطراف کے لوگوں یا مجھ سے وابستہ لوگوں کے کام آنے میں گزر سکے۔ میں نے اپنی سماجی دنیا کو وسیع کرکے ڈی فوکس نہیں ہونا۔ اور مجھے اس سے کیا لینا ہے۔ تعلقات کا دائرہ اتنا ہی محدود رکھا جتنا میں ان سے ہر خوشی غمی، اونچ نیچ، میں نبھا سکوں۔ ماسوائے چند ذاتی دوستوں کے کسی سے بات نہیں کر پاتا۔ آپ سب کے محبت ناموں اور دعوتوں کا دل سے مشکور ہوں۔ اس کا شکریہ ادا کرنا ممکن ہی نہیں۔ سب خوش باش رہیں۔ عبیداللہ علیم کا ایک شعر ہے
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے