Aakhir Kab Tak Fan Ho
آخر کب تک فین ہو
فین تب تک ہی فین ہے جب تک قلم کا رخ اس کے سیاسی لیڈر، پیر، مولوی، مسلک پر نہیں مڑ جاتا۔ جیسے ہی آپ لکھتے ہیں توں ہی فین ننگا ناچنے آ جاتا ہے۔ عدم برداشت، تعصب اور پیٹ میں داڑھی نے یہ معاشرہ تشکیل دیا ہے۔ جب تک قلم فین کے رجحان و جذبات سے میل کھا رہا ہے وہ حق سچ ہے۔ جونہی اس کے رجحان و خیال کو زک پہنچائے وہی حق سچ بکواس بن جاتی ہے اور قلم زر خرید، وہی فین آپ کو بکاؤ، لفافہ اور نجانے کیا کیا کہہ جائے گا۔ جس کو کچھ نہ سوجھے وہ دو الفاظ کا استعمال جانتا ہے "لبرل بغیرت" اور "لنڈے کا دانشور"۔
یہ سوسائٹی ایک ہی ہنر سیکھی ہے اور وہ ہے اپنے مسلکی مولوی، پیر، سیاسی لیڈر کے پاخانے سے خوشبو برآمد کرنے کا فن۔ ادھر سب کا اپنا حق سچ ہے اور وہی اسی حق سچ کے دائرے میں تمام عمر گزار کے آکسیجن کو کاربن ڈائی آکسائیڈ بناتے اگلے جہاں پدھار جاتا ہے۔ پھر اس کی نسل اس کی جگہ لے لیتی ہے۔
اب تو زندگی کی اس نہج پر ہوں کہ کوئی کہے کہ آپ کا فین ہوں تو اندر سے ہنسی پھوٹنے لگتی ہے اور ذہن میں جملہ گردش کرنے لگتا ہے "آخر کب تک فین ہو؟"۔ اب ہر فین کی ایک ایکسپائری ڈیٹ ہے جو اپنی مدت پوری کرکے فین کو چلتا کرتی ہے۔
یہ پرستاروں کا ہجوم، یہ ملنے پر بچھے چلے جانا اور پیٹھ پیچھے بدخوائی کرنے لگنا، منہ پر سلام اور بعد از نقطہ چینی، سامنے کا منظر حسین اور آنکھ اوجھل ہوتے ہی اندھیرا۔ اس معاشرے کو میں چالیس سال کی عمر میں سمجھ گیا البتہ کئی احباب ساری عمر گزار کر بھی فین فالؤنگ کے نشے سے باہر نہیں آ پاتے۔ کچھ بھی نہیں ہے۔ صرف آپ کے کام، نام، ہنر، لائف سٹائل سے متاثر لوگوں کا انبوہ ہے۔ آج آپ مر جائیں، گمنام ہو جائیں، سوشل میڈیا چھوڑ جائیں دو چار چھ عزیز کچھ دن پوچھیں گے اور پھر کچھ دنوں میں ہی آپ ایکسپائر ہیں۔ دنیا نامی گلوبل ویلج میں ارب ہا انسان ایک دوسرے سے کنیکٹ ہیں۔ تو نہیں اور سہی، اور نہیں تو اور سہی۔ آپ تب تلک ہی متعلقہ یا Relevant ہیں جب تلک آپ دن رات اپنی موجودگی کا احساس دلانے کو موجود ہیں اور لوگ آپ سے انٹرٹین ہو رہے ہیں۔
یہ کلاؤڈ نما دنیا ایک سٹیج ہے اور ہم سب جوکر۔ ہر جوکر اپنا اپنا کردار نبھا رہا ہے۔ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ کچھ داد سمیٹتے ہیں کچھ تالیوں کی گونج میں مظاہرہ کرتے جاتے ہیں۔ جیسے ہی پردہ گرتا ہے آپ تمام شد۔ آج مرے کل دوسرا دن۔ کاہے کی فین فالؤنگ اور کونسے آپ بے بدل شخص۔ ہر ایک کا متبادل انسانی مارکیٹ میں موجود ہے۔ خود کو غیر متبادل اور انمول سمجھنے والوں سے قبرستان بھرے ہوئے ہیں۔ میں تو اس خیال کا ہوں کہ جو آپ کو عزت دے اور جب تک دیتا رہے لے لو اور اس کا شکریہ ادا کرو۔ اس سے آگے کی توقعات پالنا نرا وہم ہے، بھوت ہے، پرچھائی ہے۔
انسان کے فوکس کرنے اور سنجیدہ لینے والے معاملات میں سرفہرست اس کی فیملی، روزگار اور اس سے جڑے افراد ہوتے ہیں۔ پھر انسان اپنے آل اطراف بستے لوگوں کے مسائل کو دیکھے۔ اگر مہلت عمر ملے تو تب جا کر باقی دنیا کی سوچے بھی۔ اسی میں تو عمر تمام ہو جاتی ہے۔ انسان کی اوسط عمر ساٹھ سال ہے تو آدھی سو کر گزر جاتی ہے۔ باقی تیس سالوں میں اس نے خاندان بڑھانے، پالنے اور چکی کی مشقت میں بسر کر دینا ہیں۔ اگر تھوڑا وقت اسے سیٹل ہو کر مل جائے تو پھر وہ اپنے ہنر پر توجہ دیتا ہے۔ خوش قسمتی سے کسی کو ہنر مل جائے تو وہ اپنی Legacy چھوڑ جاتا ہے۔ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ لوگ کس بنا پر فالؤنگ یا آپ کے اشتہاری پیج یا چینل یا پرؤفائل نما نمونے پر لوگوں کی تعداد کا حساب لگا کر اتراتے اور اسے اپنا تعارف بنا لیتے ہیں۔ بھئی آپ کے کروڑ یا کروڑ دیکھنے سننے والے بھی ہوں تو وہ آپ کی میت کے ساتھ چلنے والے نہیں ہیں۔ وہ آپ سے ایک ہی تعلق سے وابستہ ہے اور ہے انٹرٹینمنٹ یا انفوٹینمنٹ۔ جنازے پر چار دوست اور سو دو سو وہی فالورز آتے جو آپ کو آئیڈیل سمجھ کر اپنی زندگی میں آپ کو اہمیت دیتے ہیں۔ میں نے بہت بڑے بڑے نامور لوگوں کے جنازے دیکھے ہیں۔
تو بھیا یہ دنیا ایسی ہی ہے۔ اس سے اپنے دکھ سکھ، اپنے خوشی و غم منسلک نہ کرو۔ یہاں تو بس اپنا فن پیش کیا۔ داد سمیٹی۔ شکرئیے ادا کئیے اور موبائل سائیڈ پر رکھ کر پردہ گرا دیا۔ لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں کیوں دلچسپی پالنی اور کیوں ہوائی تعلقات کا دائرہ دن رات بڑھاتے جانا؟ ارے بھائی اس وہم سے نکلو کہ آپ سے کوئی کچھ سیکھ رہا ہے۔ کوئی نہیں سیکھتا۔ سب خود کو درپیش حادثے سے سیکھتے ہیں۔ کسی کا کیا خوبصورت شعر یاد آیا ہے۔
کون سیکھا ہے صرف باتوں سے
سب کو اک حادثہ ضروری ہے
میں دیکھتا ہوں کہ سماج سدھار کی خاطر، اخلاقیات سکھانے اور جذباتی داستانیں لکھنے کی مشق میرے دوست مسلسل کرتے رہتے ہیں۔ نیچے کمنٹس میں ماشااللہ جزاک اللہ کی لائن لگی ہوتی ہے۔ خاص طور پر اگر تحریر میں مذہب کا حوالہ یا ٹچ ہے تو وہ ویسے ہی وائرل ہے۔ اگر سب سدھر رہے تو معاشرہ ایسا کیوں ہے؟ چل چلاؤ کا میلا ہے بس۔ یہ بھی سمجھ سے بالا ہے کہ پبلک کی اس قدر توجہ حاصل کرکے کیا لینا ہے۔ کوئی مقصد بھی تو ہو۔ ناموری نرا عذاب ہے بھائیو۔ یہ میں تجربے سے کہہ رہا۔ لوگ آپ کی نجی لائف، سوشل لائف اور پروفیشنل لائف میں گھستے جاتے ہیں۔ کسی ریسٹورنٹ میں فیملی لے جاؤ تو آپ کو دیکھتے رہتے یا ملنے آ جاتے۔ دن رات واٹس ایپ اور انباکس میں بلامقصد ٹن ٹن جاری رہتی۔