Wadi e Nimbal Mein Maa Ka Noor
وادی نمبل میں ماں کا نور
گرمی کا آغاز ہوتے ہی ایک تعداد ہے جو سیاحت کے لیے شمالی علاقاجات کا رخ کرتی ہے اور کراچی کے جو باسی استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی پکنک منانے کینجھر جھیل اور ہوکس بے کے ساحلوں پر ضرور جاتے ہیں کہ کچھ وقت فطرت کی آغوش میں گزار کر پھر سے شہری زندگی کا ایندھن بن سکیں۔
مری پچھلے ایک سو سال سے سب سے زیادہ فعال ہل اسٹیشن ہے اور تقریبا دس لاکھ لوگ سالانہ اس جنت نظیر وادی میں آوارہ گردی کرنے جاتے ہیں۔ مری کے بعد سب سے زیادہ سیاح ناران کا رخ کرتے ہیں، بل کھاتا دریائے کنہار، فلک کے بوسے لیتے کوہسار اورحدہ نگاہ تک سبزہ زار، وادی کاغان کی پہچان ہیں۔
مگر یہ دونوں ہل اسٹیشن ہوٹلوں کا جنگل بن چکے ہیں، اتنے آباد اور لوگوں سے پر ہو چکے ہیں کہ یہاں جا کر بھی شہر کا احساس ہوتا ہے اور جس فرار کی تلاش میں شہروں کے باسی شہر سے فرار اختیار کرتے ہیں وہ فرار اب یہاں ممکن نہیں۔ میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایسی غیر معروف وادیوں کا رخ کیا جائے جہاں ہم جیسی اشرف المخلوقات کم ہوں اور سکون کے دو پل بتائے جا سکیں۔ اسی طرح کی ایک حسین ان چھوئی وادی اوگی مانسہرہ کے مضافات میں واقع ہے۔
اب کی بار مانسہرہ اور گردو نواح کی حسین ان دیکھی وادیاں دیکھنے کا منصوبہ تھا۔ میرے دیرینہ دوست شیخ یاسر جو تیزی سے ابھرتے ہوئے نوجوان انٹرپرینیور ہیں اور ایمیزون پر کام کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں، کی وساطت سے ابرار اور عثمان ہمارے میزبان ٹھہرے اور خوب ٹھہرے۔ جانا یاسر کی گاڑی میں تھا لہذا دو اور "سواریوں" کا بندوبست بھی کرنا پڑا تاکہ سفر یادگار اور خوشگوار بن جائے۔ ولی خان اور فہیم کی رفاقت میں ہم جمعہ کی شب رات بارہ بجے عازم سفر ہوئے۔
ولی خان ایک پرائیویٹ کمپنی میں پلاننگ مینیجر کی خدمات سرانجام دینے کے علاوہ دنیا بھر میں گھومنے کا شوق رکھتے ہیں۔ جب کے فہیم صاحب جو کہ انتہائی ملنسار ہیں، چونکہ آرائیں ہیں تو کسی کام کی ضرورت نہیں۔ ہمیشہ کی طرح ڈاکٹر فراز نے تو ہمارے ساتھ ہونا ہی تھا۔ ڈاکٹر فراز کو دو ہی کام پسند ہیں ایک گاڑی ڈرائیو کرنا اور دوسرا اس ڈرائیونگ کی ویڈیو بنا کر اسٹیٹس لگانا اور "ماں کا نور" سمیٹنا۔
ڈاکٹر فراز کی ڈرائیونگ بہت ہی احتیاط اور مہارت بھری ہے۔ بس یوں کہہ لیں کہ "کہیں" بھی پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر فراز کا ایک تکیہ کلام بھی ہے۔۔ ماں کا نور۔ وہ دن بھر ماں کا نور کا ورد کرکے کانوں میں رس گھولتے تھے۔ وہ اور بات ہے کہ ماں کا نور، دلوں کا سرور، ہم سے بہت دور تھا۔
دوسرے دن رات آٹھ بجے ہم مانسہرہ پہنچے اور ہلکی خنکی نے ہمارا استقبال کیا۔ مانسہرہ سمیت گلگت بلتستان کے علاقے گزرے وقتوں میں کشمیر کا حصہ تھے اور ان پر رنجیت سنگھ کی حکومت تھی، تبھی یہاں کے ایک گورنر مان سنگھ نے یہ گاؤں مسلمانوں سے آزاد کروا کر رنجیت سنگھ کے حوالے کیا۔ اسی گورنر کے نام پر اس علاقے کا نام مانسہرہ پڑ گیا۔ مانسہرہ میں ہماری میزبانی کے فرائض عثمان نے سرتا پیر انجام دیے۔
عثمان "گھر بیٹھے" کام کرتے ہیں اور ایک اچھے سافٹ ویئر ڈویلپر ہیں اور ٹیم ورک کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ شہروں سے دور قصبوں اور دیہات کے نوجوان بھی آن لائن کام کی طرف متوجہ ہیں۔ بہت عرصے بعد مانسہرہ شہر میں ٹھہرنا ہوا، ذہن کے کسی گوشے میں مانسہرہ کی جو جھلک تھی اسے شدید دھچکا لگا کیونکہ اب کا مانسہرہ بہت پھیل چکا تھا، ہر سمت دوکانیں، ریسٹورنٹس اور گھروں کا پھیلتا جال۔ تاہم مانسہرہ کی آب و ہوا اب بھی قدرے تروتازہ اور اطمینان کا باعث بنتی ہے۔
دوسرے دن ہم اپنی اصل منزل یعنی اوگی کی طرف روانہ ہوئے، بل کھاتی سڑک دریائے سرن عبور کرتے ہوئے پہاڑوں کی بلندیوں تک لے جاتی ہے جہاں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے، پائن اور چیڑ کے قد آور درخت، خنکی، شفاف اور یخ بستہ پانی کے چشمے اور فضا میں ہر سو پھیلی پھولوں کی خوشبو ذہن میں موجود آلودگی اور فکریں دھو دیتے ہیں۔ راستے میں ہم نے ایک جھرنے میں سے پانی پیا اور وہاں کا کوئی تازہ فروٹ کھایا جس نے منہ میں دیر تک رس گھولے رکھا۔
اوگی 1100 میٹر کی بلندی پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس کے اطراف گھنے جنگل، سبزہ زار اور حسین گاؤں ہیں۔ ہماری منزل نمبل گاؤں تھا جو بلندیوں پر واقع ہے اور یہاں کے میزبان ایک نفیس انسان ابرار صاحب تھے۔ ابرار صاحب کا گھر خوبصورتی کا شاہکار تھا، وہ گھر ایسی جگہ پر تھا کہ کیمرے کا رخ کسی بھی طرف کرکے بہترین تصویر کھینچی جا سکتی تھی۔ بلند و بالا اور ہرے بھرے درختوں اور بادلوں میں گھرا چھوٹا سا گاؤں نمبل خوبصورتی کے تمام استعاروں پر پورا اترتا تھا۔
نمبل گاؤں کی پہلی صبح نے ہی ہمارا بھرپور استقبال باران رحمت برسا کر کیا۔ سورج کی پہلی کرن کو دیکھنے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے اور نمبل جیسے گاؤں میں یہ مزہ دوبالا ہو جاتا ہے جب سورج بلند و بالا پہاڑوں سے آنکھ مچولی کھیلتا ہوا اپنی سنہری کرنوں کی تجلی پہاڑوں پر ڈالتا ہے تو جیسے پہاڑ پر رنگ و نور کی برسات ہو رہی ہوتی ہے۔ یہ بلند و بالا پہاڑ سورج کو زیادہ خاطر میں نہیں لاتے اور بادلوں سے اٹھکیلیاں کرتے سورج کی کرنوں کو پرے دھکیل دیتے ہیں۔
نمبل گاؤں کی ایک اور خوبصورتی وہاں موبائل نیٹ ورک کا نہ ہونا ہے کہ انھیں مشینوں کی ہر وقت کی نہ ختم ہونے والی آوازوں سے تو ہم فرار چاہتے ہیں۔ فطرت سے جڑنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پوری طرح خود کو فطرت کے حوالے کردیں۔ ان لمحات میں چند سانس زیست کی کتاب کی تکمیل کر دیتے ہیں۔ نمبل جیسے گاؤں میں سناٹا گونجتا ہے اور دور بہتے کہیں پانی کے جھرنے ایسے سر بکھیرتے ہیں کہ دل و دماغ سکون کی اس کیفیت کی لذت پا لیتے ہیں جو شہروں میں ممکن نہیں۔ ایسی غیر معروف وادیوں میں ہوٹلوں کا نہ ہونا بھی "نعمت" سے کم نہیں کے سیاحوں کی پہنچ سے دور ہیں اور اسی لیے قدرے محفوظ ہیں۔ ابرار صاحب کے ساتھ ہم نے مقامی قبرستان کا بھی دورہ کیا جس کا اونچا نیچا راستہ انتہائی خوبصورت پگڈنڈیوں پر مشتمل تھا۔ وہاں 500 سال قدیم قبریں بھی تھیں جس سے اندازہ ہوا کہ یہ گاؤں کتنا قدیم ہے۔
اگلے دن ہم نے خواجگان اور شنکیاری کے علاقے "فتح" کیے، شنکیاری میں دریائے سرن کا خوبصورت ترین نظارہ دیکھنے کے قابل ہے اور یہاں سے آگے عظیم قراقرم کی بلندیاں واقع ہیں۔ شنکیاری میں ہم نے لذیذ چپلی کباب کھائے اور ہزارہ یونیورسٹی کا دورہ بھی کیا۔ پہاڑوں اور درختوں میں گھری اس حسین یونیورسٹی میں حسن باقاعدہ "چلتا پھرتا" دکھائی دیتا ہے۔ یاسر اور میرا تو دل کر رہا تھا پھر سے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا جائے اور اس حسن سے آنکھوں کو تا ابد ٹھنڈا کیا جائے مگر مصروفیت بیڑیاں ڈالے پیروں سے ایسی لپٹی ہوئی تھی کہ واپسی کی راہ لینی ہی پڑی۔
ڈاکٹر فراز کو ہم مانسہرہ میں ہی چھوڑ آئے تھے اور ان کی آنکھیں ہزارہ کی نظارہ یونیورسٹی کی حسن کی تجلیاں دیکھنے سے قاصر ہی رہیں تاہم "ماں کا نور" برابر ہم پر برستا رہا۔ چونکہ ڈرائیونگ کے تمام فرائض و واجبات جملہ حقوق کے ساتھ ڈاکٹر فراز کے پاس تھے لہذا واپسی کے سفر میں بھی انہوں نے "ماں کا نور" برقرار رکھا۔ ہزارہ ایکسپریس وے پر سفر کرتے ہوئے دو سرنگیں"شرف سفر" بخشتی ہیں اور ڈاکٹر فراز یہ بات جانتے تھے لہذا انہوں نے واپسی کے سفر میں تھوڑی دیر کے لئے اپنے جملہ حقوق سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ بمع اسٹیرنگ فہیم آرائیں کے حوالے کر دیے۔
ایک سرنگ جو تقریبا ایک کلو میٹر طویل ہے میں ڈاکٹر فراز نے جوش میں آ کر گاڑی کی سن روف ہٹائی اور انتہائی واحیات حالت میں ویڈیو بنانے لگے کہ اچانک تیز ہوا کے جھونکے نے ان کی کیپ اڑا دی جس کا ماتم رستے بھر جاری رہا۔ اسی طرح ایک مقام پر ڈاکٹر فراز کے اپنے علاقے کے ایک پولیس کانسٹیبل نے اوور اسپیڈنگ پر چالان بھی کیا۔ کافی منتیں اور ترلے کرنے کے باوجود وہ صاحب چالان کرنے میں کافی مذہبی ثابت ہوئے۔
اس یادگار سفر کا حاصل وصول کچھ اچھے دوست اور وہ ان گنت لمحات تھے جو ہم نے جنت نظیر وادی میں گزارے اور ان لمحوں کو انمول کر دیا۔ مشہور موٹیویشنل اسپیکر زگ زگلر نے کیا خوب بات کہی ہے کہ مشکل راستے حسین منزل کی طرف لے جاتے ہیں، مگر سفر شرط ہے۔