Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Target

Target

ٹارگٹ

یہ ایک فرضی شخص کی سچی داستان حیات ہے۔ یہ میری اور آپ کی کہانی ہے۔ کہانی کیا ہے ہم سب کی آپ بیتی ہے، ہر روز بیت رہی ہے بلکہ بھگتائی جا رہی ہے۔ اس فرضی شخص کا نام رکھ دیتے ہیں کاشف۔ کاشف شادی شدہ ہے اور اس کے دو بچے ہیں۔ ایک بیٹی سات سال کی اور ایک بیٹا چار سال کا۔ بیوی گھریلو خاتون ہے اور بچوں کی تربیت اور پرورش اچھے سے کرنا چاہتی ہے تاکہ بچے اچھی زندگی جی سکیں۔

کاشف ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرتا ہے اور آج کل کی مہنگائی میں گزارا کر لیتا ہے۔ گھر میں آج کل کی ضروریات کا سامان موجود ہے۔ دونوں بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں، پرائیویٹ اسکول کی فیس، وین کا خرچہ، کتابیں کاپیاں اور جیب خرچ بھی پورا ہورہا ہے۔ گھر کے بل اور کچن چل رہا ہے اور بیماری آنے کی صورت میں بھی مناسب ہسپتال میں علاج اور دواؤں کا بندوبست ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات چھوٹا موٹا قرض بھی لینا پڑتا ہے۔ رشتہ داروں سے میل ملاقات، مہمان داری اور دوست احباب کے ساتھ وقت گزاری بھی زندگی میں رنگ بھرتے ہیں۔

شادی بیاہ خوشی غمی کے مواقع بھی آتے رہتے ہیں اور ان میں بھی شرکت کرنی پڑتی ہے۔ کبھی بچوں کی معصوم خواہشات اور کبھی سالگرہ یا کامیاب ہونے کی پارٹی کا جشن، ایک کیک، چند غبارے اور کھانا پینا سب کچھ آج کی زندگی سے جڑ چکا ہے۔ زندگی کی گاڑی جیسے تیسے رواں دواں ہے اور ہاں گھر میں ایک طوطا بھی ہے جس سے رونق لگی رہتی ہے اور وہ بھی گھر کا ایک فرد سمجھا جاتا ہے۔ کاشف کے بچے جب اسکول سے تھک کر آتے ہیں تو یہ طوطا ان کی تھکان دور کردیتا ہے۔

کاشف چھوٹی موٹی انویسٹمنٹ کے مواقع بھی تلاش کرتا رہتا ہے اور دوست احباب میں سے جو کوئی بھی اس سے بہتر مالی حالت میں ہے ان جیسا یا ان سے بہتر بھی بننا چاہتا ہے اور اس کی یہ خواھش سو فیصد جائز ہے۔ ملک سے ہجرت کا آپشن بھی اکثر زیر غور رہتا ہے مگر اس کے لئے تگڑی رقم درکار ہے اور ابھی کاشف کی مالی حالت ایسی نہیں کے اس پر عمل کر سکے اور یہ "ابھی" زندگی بھر ساتھ رہتا ہے۔ یہ تمام معاملات اور ان سے جڑی مصروفیات پیسے سے منسلک ہیں۔ کاشف جیسے عام انسان کے 90 فیصد مسائل کا حل پیسہ ہے۔

ہماری کہانی کا دوسرا کردار سلمان ہے۔ سلمان کے پاس سرکاری ملازمت ہے جس کی وجہ سے اس کی شادی اونچے گھرانے میں ایک خوبصورت لڑکی سے ہوئی مگر اولاد کی نعمت سے محروم ہے۔ سلمان کی زندگی کی زیادہ تر ضروریات اس کی ملازمت سے پوری ہو جاتی ہیں۔ لگزری کار، آئی فون، سمارٹ گیجٹس، دبئی سے شاپنگ سب سلمان کی دسترس میں ہے۔ چونکہ سلمان ہماری کہانی کا ایک کردار ہے اس لیے یہ مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ اوپر نیچے کی کمائی سے نہیں بلکہ اس کی تنخواہ اور مراعات سے ممکن ہے۔ سلمان بھی کاشف کی طرح ملک سے باہر سیٹل ہونے کی تگ و دو میں ہے۔ ویسے یہ آپشن تو کم از کم ہر پاکستانی کی خواہش بن چکا ہے۔ یہ جو آئے دن کشتی ڈوبنے کے واقعات اور اموات کی خبریں سامنے آتی ہیں یہ انہی خواہشات کی بھینٹ چڑھے پجاری لوگوں کا ماتم ہوتی ہیں۔

اس کہانی کا ایک تیسرا کردار بھی ہے، ایک دیہاڑی دار شخص شکیل۔ یہ روز کے اتنے پیسے کماتا ہے جس سے اس کی زندگی کی گاڑی رینگتے ہوئے آگے بڑھتی رہے۔ اب ظاہر ہے چونکہ یہ شخص غریب ہے تو اولاد زیادہ ہوگی۔ یہ بیچارہ بچوں کی پڑھائی گھر کی دال سبزی اور بیماری سے لڑنے کے لیے ادھار پر انحصار کرتا ہے۔ بڑے بچے تعلیم سے فارغ ہیں اور ساتھ ہاتھ بٹاتے ہیں۔ اس کی بیوی بھی لوگوں کے گھروں میں کام کرکے خرچے پورے کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یعنی گھر کے تمام افراد کا روزانہ کام کاج کرنا ضروری ہے۔ اس گھرانے کے لیے عید پر نئے کپڑے لینا چپل لینا اور کہیں باہر کھانا کھا لینا بہت بڑی اچیومنٹ ہے۔

دولت کے بارے میں ہمارا تصور کہ یہ صرف کرنسی کی شکل میں ہوتی ہے، ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا اولاد کی نعمت دولت نہیں۔ کیا اولاد کا تندرست ہونا دولت نہیں؟ اگر کاشف کے بچے خدا نہ خواستہ اسپیشل پیدا ہوتے، ان کے منہ سے ہر وقت رال ٹپکتی رہتی، وہ لیٹے لیٹے صرف چھت دیکھتے رہتے یا ان کے ہاتھ پاؤں کام نہ کرتے تو کاشف اپنی زندگی بیچ کر بھی اپنی اولاد کا علاج کراتے کراتے دنیا سے رخصت ہو جاتا۔ انسان کا تندرست ہونا کیا اس کی دولت نہیں؟ شکیل جیسے دیہاڑی لگانے والے شخص کے لیے سب سے بڑی دولت اس کا ہنر اور تندرستی ہے۔

تندرستی کی نعمت کی بدولت ہی تو زندگی کی گاڑی رواں دواں ہے اور ہم اکثر کہانیاں سنتے ہیں جس میں غریب بچے انتہائی دگرگوں حالات میں مشکلات کا سامنا کرکے کسی اچھی پوسٹ پر پہنچ جاتے ہیں۔ تو کیا وہ یہ سب دولت سے ممکن کر پاتے ہیں؟ یا اس کے پیچھے، کام کرنے کی لگن، ہنر مندی اور ذہن کی اعلی صلاحیتوں کی دولت کار فرما ہوتی ہے؟ اسی طرح دوست احباب رشتے ناطے یہ بھی ہماری دولت ہیں۔ مسائل اور مشکلات میں گھرے شخص کو پہلے ہمیشہ اپنے ہی یاد آتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اپنے مسائل بھی پیدا کرتے ہیں مگر ساتھ ہی مسائل سے نکالنے میں بھی اپنے ہی ساتھ دیتے ہیں۔

دماغ کا کام کرنا ہماری سب سے بڑی نعمت اور دولت ہے۔ اسی سے ہنر پیدا ہوتا ہے اسی سے ہم اپنے اعضا سے وہ کام لیتے ہیں جو ہم لینا چاہتے ہیں۔ دو نمبری کرکے پیسہ کمانے والے لوگ بھی تو دماغ کا ہی استعمال کرتے ہیں۔ دماغ اور جسم کے دیگر اعضاء کا صحیح تال میل کرنسی والی دولت کا ڈھیر لگا سکتا ہے۔ یہ سب نعمتیں اور دولتیں قدرت کی طرف سے انسان کو مفت میں عطا کر دی گئی ہیں تو سب سے بڑی دولت انسان کا رب سے رشتہ ہے جس کی رحمت ہماری ہر سانس میں برس رہی ہے۔

اس نے نارمل پیدا کرکے اپنی لاکھوں کروڑوں مخلوقات میں اشرف بنا کر دنیا میں بھیج دیا اب اور کس دولت کی طلب ہے مگر انسان ناشکرا ہے جلد باز ہے اور ہمیشہ سامنے نظر آنے والے فائدے پر نظر رکھتا ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ ٹارگٹ سیٹ نہ کرنا ہے ہمیں کتنی دولت چاہیے، کتنی آسائشیں پاس ہوں لائف کتنی لگزری میں ہو، کتنا بڑا گھر ہو کونسی گاڑی چاہیے۔ بچے کتنے ہوں، کس اسکول میں پڑھیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ہر معاملے میں اطمینان قلب کی خاطر ٹارگٹ سیٹ کرنا ضروری ہے ورنہ قناعت اور صبر نامی درس کتابوں میں ہی دفن رہ جائیں گے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali