Physics Wallah
فزکس والا
کچھ دن قبل ایک ویب سیریز دیکھنے کا اتفاق ہوا جس کا نام تھا "فزکس والا"۔ میرے ایک سٹوڈنٹ نے مجھے اس سیریز کا بتایا تو میں ہنسنے لگا کہ جیسا نام ہے یہ ہوگی بھی ویسی، فزکس کی طرح بورنگ اور خشک۔ پھر ایک دن میں نے یہ دیکھنے کی غلطی کردی۔ اس کی کہانی بظاہر عام سی دیگر عام لوگوں کی کہانیوں کی طرح ہی ہے کہ ایک کالج کا نوجوان ہے جو تھوڑا ہٹ کے سوچتا ہے اور نوکری جیسا روٹین اور مشینی کام نہیں کرنا چاہتا۔ اسے کالج کے اساتذہ کا پڑھانے کا انداز بھی پسند نہیں اور وہ کالج کی تعلیم بھی ادھوری چھوڑ دیتا ہے۔
وہ ایجوکیشن سسٹم کے سائیکل سے بھی عاجز ہے کہ پہلے جی جان سے رٹا لگاؤ، جو کتاب میں ہے اسے اپنے دماغ میں انڈیل دو، پھر وہ "دم" کیا ہوا مواد امتحانی کاپی پر ہلکی آنچ دے کر منتقل کر دو اور بس۔ گرما گرم ڈگری تیار۔ اب مختلف کمپنیوں میں انٹرویو دے کر لگی بندھی نوکری کھری کرلو اور نائن ٹو فاؤ کے دائرے میں گھومتے رہو۔ اس نوجوان کی فزکس بہت اچھی ہے اور وہ پانچ، دس بچے پکڑ پکڑ کے انہیں سائنس پڑھانے کا شوقین ہے۔
ہر کہانی کی طرح اس کے گھر کے بھی حالات اچھے نہیں۔ بوڑھا باپ جو اسے بات بات پر سنانے کو تیار بیٹھا ہے، اسکی غلطیوں پر پردہ پوشی کرتی ماں اور ملازمت کرتی اکلوتی بہن۔ یہ نوجوان ایک کوچنگ اکیڈمی میں بڑی تگ و دو کے بعد فزکس پڑھانے کی جاب حاصل کرلیتا ہے۔ یہاں سے اصل کہانی کا آغاز ہوتا ہے اور یہ نوجوان اپنی فزکس پڑھانے کی منفرد صلاحیت کی وجہ سے آگے چل کر پورے ملک میں مشھور ہو جاتا ہے۔
یہاں تک تو سب ٹھیک تھا، ایسی سکسیس اسٹوریز بہت بنتی ہیں اور پسند بھی کی جاتی ہیں۔ عام انسان ان میں اپنی محرومیاں تلاش کرتا ہے۔ دیکھنے والا خود کو بھی اس کہانی کا مرکزی کردار خیال کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ چلو اس کے قبیلے کا ہی کوئی فرد کامیاب ہوا۔ مگر جب مجھے پتا چلا یہ کہانی تو سچے واقعات پر مبنی ہے اور اس ویب سیریز کا مرکزی کردار ایک جیتا جاگتا انسان ہے تو آنکھوں سے آنسو نکلنا تو بنتا تھا۔
یہ نوجوان ہے الکھ پانڈے المعروف فزکس والا۔ الکھ پانڈے کی کامیابی کے پیچھے محض اس کا پڑھانے کا منفرد انداز ہی نہیں بلکہ یوٹیوب چینل اور آن لائن کلاسسس کا بھی جادو ہے جس نے اسے پورے بھارت میں نہ صرف سیلیبریٹی بنا دیا بلکہ اس پر ایک ویب سیریز بھی بنائی گئی ہے۔
2016 میں شروع کیے گئے الکھ پانڈے کے یوٹیوب چینل پر 90 لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز ہیں۔ آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ الکھ پانڈے نے اپنی گریجویشن بھی مکمل نہیں کی مگر اس کہ باوجود وہ ایک کامیاب ایجوکیشن سسٹم "فزکس والا" کے نام سے چلا رہا ہے۔ فزکس والا اس وقت بھارت کا بہت بڑا برانڈ بن چکا ہے جس کے 19 ہزار ملازمین اور 20 آف لائن کیمپس پورے بھارت میں پھیلے ہوئے ہیں اور علم کے متلاشی ہونہاروں کی پیاس بجھا رہے ہیں۔
پانچ ہزار روپے میں ایک ٹیوشن پڑھانے والے الکھ پانڈے کی نیٹ ورتھ اس وقت دو ہزار کروڑ بھارتی روپے ہے اور اس کی کمپنی فزکس والا بھارت کی تیزی سے ابھرتی ہوئی کمپنیوں میں شامل ہو چکی ہے جس کی مالیت کا تخمینہ 1 ارب ڈالر ہے۔ ویسے آج کے دور میں مشھور ہونا تو چٹکی بجانے جیسا آسان کام ہے، اس شہرت میں منفی اور مثبت کے تکلفات کے تکلف میں پڑنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ راتوں رات مشھور ہونا اب محض چند سیکنڈز کی وائرل ویڈیو سے ممکن ہے۔ مگر اس طرح کی شارٹ کٹ شہرت بلبلے کی طرح ہے جو تادیر قائم نہیں رہتی۔
فزکس والا کی شہرت ہے تو راتوں رات مگر اس کے پیچھے برسوں کی محنت اور عزم ہے۔ پھر فزکس والا ایک تحریک ہے جس کا مقصد ایسے بچوں کی تعلیم کے اس معیار تک آسان رسائی ہے جو اسکی سکت نہیں رکھتے۔ بھارت میں پڑھنے والا طبقہ الکھ پانڈے سے جذباتی لگاؤ رکھتا ہے۔ فزکس والا صرف ایک کوچنگ اکیڈمی نہیں بلکہ یہ اموشن ہے۔ یہ ایک قوم کی مجموعی سوچ ہے۔
بھارت کا حال ہی میں چاند تک اپنا مشن بھیجنا، غربت میں بہت حد تک کمی لانا، آئی ٹی سیکٹر کا ملٹی بلین ڈالر انڈسٹری بننا، اپنا بنیادی انفرا اسٹرکچر بہتر بنانا، بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بڑی پوسٹ پر ہونا اور تعلیمی میدان میں کامیابیاں سمیٹنا یہ سب راتوں رات ممکن نہیں بنا۔ بھارت نے "مجموئی ذہانت" کا راز پالیا ہے جو انکی ہر شعبے میں ترقی کا جوہر ہے۔
تصویر کا دوسرا خوفناک رخ بھی ہے۔ لکیر کے اس پار بھی سب اچھا نہیں ہے مگر آگے بڑھنے کا سفر جاری ہے۔ الکھ پانڈے جیسے بیشمار نوجوان ہمارے پاس بھی ہیں۔ یہ جملہ ہم روز دہراتے ہیں کہ "پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں" یہ بات بالکل درست ہے مگر اصل زوال ٹیلنٹ کی انفرادیت کا ہے ہم ٹیلنٹ کو اجتماعی شکل نہیں دے پا رہے۔ ہم ٹیلنٹ سکھانے اور اسے منتقل کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ یہاں ارفع کریم اور علی معین نوازش جسے ہیرے پیدا ہوئے ہیں مگر ہم کامیاب ہو کر کسی اور کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتے۔ فکر معاش میں الجھی یہ قوم (ہجوم) دائرے کے عذاب میں مبتلا ہے۔ اپنا قیمتی وقت اور توانائی فضول سوشل میڈیا اور لا حاصل سیاسی تجزیوں میں صرف کیا جا رہا ہے۔
ہر فرد کا اپنا ایک شعبہ ہے وہ اس میں رہ کر ایک الکھ پانڈے بن سکتا ہے، فزکس والا سے تحریک لے سکتا ہے اور پاکستان اور پاکستانیوں کی لاٹھی بن سکتا ہے۔ آج دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ غزہ میں جو درندگی اور بربریت ہے اور جس طرح معصوم پھولوں کو روندہ جا رہا ہے اس سے ہر آنکھ اشک بار ہے اور دل مضطرب۔ اہل فلسطین مسلم امّہ کی طرف دیکھ رہے ہیں مگر مسلم امّہ۔ ہائے تف ہے اس بے حسی پر۔
مسلم امّہ اپنے مفادات، مشکلات اور مصائب میں اس قدر جکڑی ہوئی ہے کہ ان سے "مذمت" سے بڑھ کر کچھ سوچنا بھی محال۔ گزشتہ تین سال میں دنیا بھر میں حادثات میں اتنے بچوں کی اموات نہیں ہوئیں جتنی پچھلے بیس روز میں غزہ میں ہو چکی ہیں۔ آج کے جیتے جاگتے، سانس لیتے، کھاتے پیتے بظاہر زندہ حکمران ننھے پھولوں کی اس نسل کشی پر بھی سیاست سیاست کھل رہے ہیں۔ الوداع اے انسانیت۔
جاگ اے جوان جاگ۔ فزکس والا جوان سے ہی تحریک لے اور اپنی اکلوتی زندگی میں اپنے ملک کی اپنے لوگوں کی زندگی میں تو کچھ مثبت کر جا۔ یہی مجموئی سوچ اور ذہانت مسلم امّہ کا گمشدہ ہتھیار ہے۔ اسی سے غزہ کے لاچار اور دکھیارے قیدیوں کو آزادی جیسی دولت مل سکتی ہے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب تجھے بھی قیدی بننا پڑے گا اور بھوکے بھیڑیے دسترخوان سجائے تجھ پر ٹوٹ پڑینگے۔