Hamare School
ہمارے اسکول

اسکولوں کی تاریخ بہت قدیم تو نہیں مگر جب سے ان کا آغاز ہوا ہے تب سے ایک ریس شروع ہے۔ آگے نکلنے کی ریس۔ پوزیشن لینے کی ریس گولڈ میڈل جیتنے کی ریس، غیر نصابی سرگرمیوں میں نمایاں رہنے کی ریس۔ یہ اسکول ہیں یا ریسنگ ٹریکس؟ بچوں کو اچھے اسکول میں داخل کرانا تعلیم دلانا اور وہاں کی فیسیں افورڈ کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ گھر کے بجٹ میں باقاعدہ تعلیمی اخراجات کا حصہ رکھا جاتا ہے۔
نئے تعلیمی سال کے موقع پہ تو جیسے یہ ریس شدید تر ہو جاتی ہے۔ یونیفارم کی دکانوں اور بک ڈیپوز پر پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں ملتی جیسے فری میں کچھ بٹ رہا ہو، نیا تعلیمی سال کیا شروع ہوتا ہے بجٹ کو الٹ پلٹ کرکے رکھ دیتا ہے۔ ہمارے بڑے اکثر اپنے زمانے کے اسکول کے قصے سنایا کرتے تھے، ایک بات جو کامن تھی اس زمانے کے سکولز اور طلبہ میں کہ سب ایک ہی علاقے اور محلے کے رہائشی ہوتے تھے۔ شاز و نادر ہی کوئی بچہ دور دراز علاقے سے آتا ہو۔
اس قرب و جوار کا بہت بڑا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اسکول کے تمام بچے چاہے وہ کسی بھی جماعت میں پڑھتے ہوں شام کے اوقات میں مل جل کر کھیلتے تھے، ٹولیوں کی شکل میں "وارداتیں" کرتے تھے، گروپ کی شکل میں اسکول آنا جانا ہوتا تھا۔ سب دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔ وہی اس زمانے کی غیر نصابی سرگرمیاں تھیں اور بہت خوب تھیں۔ اب اسکول دور بھی ہے تو چلے گا کیونکہ اس کا تعلیمی ریکارڈ اچھا ہے اس بات سے قطع نظر کہ بچہ اپنی کلاس کے بچوں کے ساتھ دیگر مشاغل کر سکتا ہے یا نہیں، اسکول برانڈڈ ہی ہونا چاہیے۔
تعلیم ضروری ہے اب یہ ایک انویسٹمنٹ بن چکی ہے۔ جتنا اچھا اور بڑا تعلیمی ادارہ ہوگا بچے کے کریئر میں آگے بڑھنے کے لیے اتنا ہی بہتر ثابت ہوگا۔ کیا آج کا تعلیمی نظام یا اسکول بچوں کو مستقبل میں جاب کرنے یا ورک فورس کا حصہ بننے کے قابل بنا رہے ہیں؟ اب تو اسکولوں کا باقاعدہ سلوگن اور ویژن یہ بن گیا ہے کہ دوسروں سے نمایاں رہو یعنی stand out in the crowd اور Be exceptional. ہر بڑا تعلیمی ادارہ اب کمرشل بنیادوں پر چل رہا ہے اور بچے ان کے کسٹمر اور بزنس کی دنیا میں کسٹمر ہمیشہ صحیح ہوتا ہے۔
ہر ادارہ اپنے طلبہ کی یہی ذہن سازی کر رہا ہے کہ نمایاں بنو، دوسروں سے آگے نکل جاؤ، بھیڑ میں سے نکلو اور یہی سلوگنز تعلیمی اداروں کے مشن، ویژن اور مارکیٹنگ میں استعمال ہونے لگے ہیں۔ پوزیشن ہولڈرز تو جیسے کوئی نئی مخلوق ہے، جن کے دیگر طلبہ سے مزاج ہی نہیں ملتے حتی کہ اپنے ہم جماعت بچوں سے بھی فاصلے پر رہتے ہیں۔ شہر کی بڑی بڑی شاہراہوں پر ان بچوں کے پوسٹر اور بینر نام اور پرسنٹیج کے ساتھ آویزاں کیے جاتے ہیں، اسکول ان بچوں کے نام پر نئی ایڈمیشن کیمپین چلاتے ہیں۔
جب کہ دوسری طرف کسی بھی کمپنی کا حصہ بننے کے بعد ایک ملازم یا ورکر کو ٹیم میں کام کرنا پڑتا ہے، کسی بھی جاب کی بنیاد باہمی تعاون اور اشتراک میں پائی جاتی ہے۔ کمپنی میں ایک ڈیپارٹمنٹ دوسرے ڈیپارٹمنٹ سے جڑا ہوتا ہے اسی طرح دیگر کمپنیوں سے بھی معاملات طے کرنے ہوتے ہیں گفت و شنید کرنی ہوتی ہے تو دیکھا جائے تو ملازمت ہو یا اپنا کاروبار ٹیم ورک اور مل جل کر کام کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن ہے ہی نہیں۔
ہمارے سکول اگر بچوں کو الگ تھلگ رہ کر پوزیشن ہولڈر بنانے کہ کارخانے چلاتے رہے تو وہ اپنے کریئر میں کیسے آگے بڑھ پائیں گے؟ کیا تعلیمی اداروں کا مقصد صرف نمبر دلوانا اور اچھے گریڈز حاصل کرنا ہے؟ اسکولوں اور کالجز میں طالب علموں کو ہجوم سے الگ رہنے اور اپنا ایک منفرد پورٹ فولیو بنانے پر زور دیا جاتا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سارے کام انہیں ہجوم میں رہ کر ہی کرنے ہیں۔ تعاون کو ایک ثانوی مہارت کے طور پر سمجھا جاتا ہے، جسے اکثر خوفناک گروپ پروجیکٹ تک کم کر دیا جاتا ہے اور گروپ پروجیکٹ تقریباً مایوسی کی ضمانت دیتے ہیں کیونکہ بنیادی مسئلہ پر کبھی توجہ نہیں دی جاتی۔
ایک یا دو طالب علم کام کرتے ہیں جبکہ دوسرے کم سے کم حصہ ڈالتے ہیں مگر اپنا نام درج کروا لیتے ہیں اور طلباء کو بات چیت کرنے، کردار تفویض کرنے، تنازعات کو حل کرنے، یا ذمہ داری کا اشتراک کرنے کے اوزار نہیں دیئے جاتے۔ سب سے زیادہ ضرورت ہے برداشت پیدا کرنے کی اور وہ ٹیم میں رہ کر ہی آتی ہے۔ حالت یہ ہے کہ کھیلوں کے مقابلے بھی انفرادی کھیل کے طور پر شامل ہوتے ہیں مقابلے کا مقصد فقط جیتنا ہے ہار برداشت سے باہر ہے اور دوسروں سے آگے بڑھنا ہے، الگ تھلگ رہنا ہے، اسی کو کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ ساتھ رہنا ساتھ چلنا مل کر کام کرنا، ٹیم بننا، پروجیکٹ بنانا اور کلاس کو ٹیم میں بدلنا ضروری ہے۔
تمام ہی اسکولز میں سائنسی پروجیکٹ بھی بنائے جاتے ہیں، طلبہ کی ٹیمیں بھی بنتی ہیں مگر نتیجہ وہی صفر، پروجیکٹ ایک طالب علم ہی بناتا ہے دیگر قوال پارٹی کے ہمنوا کی طرح بس تالیاں پیٹتے ہیں۔ِ اساتذہ بھی ٹیم بناتے وقت، ورک کم اور جان چھڑاؤ اپروچ زیادہ اختیار کرتے ہیں۔ اس میں اساتذہ کا بھی اہم رول ہے جب وہ خود صرف اپنی کلاس اپنے سبجیکٹ اور اپنے بچوں کے رزلٹ کی فکر کریں گے تو سٹوڈنٹ کیسے بڑوں سے ٹیم ورک سیکھیں گے۔
اساتذہ کو دیگر شعبوں میں کلاسز لینی چاہیے دیگر فیکلٹی کے اساتذہ اور طلبہ کو دوسرے شعبوں کے اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ کلاسز لینی چاہئے، گروپ بنائیں، غیر نصابی سرگرمیاں کریں اور اشتراک کرنا سیکھیں۔ غیر نصابی پروگرام بھی اسی طرز پر چلتے ہیں۔ کھیل تھیٹر کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ تھیٹر کا مقابلہ بحث و مباحثہ سے ہوتا ہے۔ کلب میٹنگ محض طلبہ کی شمولیت کے لیے بنائے جاتے ہیں۔
بچے کی اچھی خاصی عمر اور وقت اسکول لائف میں گزرتا ہے اور اس سے زیادہ زندگی کا حصہ ملازمت کرتے اور معیشت کی گاڑی کو دھکیلنے میں۔ اسکول کے دوسری طرف کی زندگی بہت ہی بے رحم اور مسابقتی ہے اس میں بہت سے چیلنجز ہیں اس میں چڑھتے سورج کے پجاری ہیں۔ اس میں صرف کرسی کی عزت اور اہمیت ہے۔ اس میں آپ پر پاؤں رکھ کر پھلانگنے والے بہت ہیں اور رستہ دینے والا کوئی نہیں۔ یہ زندگی یہ دنیا بہت کراؤڈڈ ہے اسی لیے وسائل تقسیم ہو جاتے ہیں اور مواقع بھی۔ اس کراؤڈ میں سروائیو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسکول لائف سے ہی ٹیم ورک، اشتراک، باہمی تعاون اور کردار سازی پر توجہ دیں۔ جیتنے کا مزہ تب ہی آتا ہے جب اپنے ساتھ ہوں۔ اکیلے مریخ پر بھی پہنچ گئے اور سیلیبریٹ کرنے والا کوئی نہ ہوا تو کیا فائدہ ایسی اچیومنٹ کا۔

