Ghar Baithe
گھر بیٹھے
آپ نے اکثر اشتہار دیکھے ہوں گے جس میں یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ گھر بیٹھے شاپنگ کریں، دنیا کے کسی بھی ملک سے کوئی بھی پروڈکٹ منگوانی ہو، ٹرین، جہاز کا ٹکٹ یا ٹیکسی بک کروانی ہو، پکا پکایا کھانا منگوانا ہو، چھٹیوں کی منصوبہ بندی کرنی ہو، کسی ڈاکٹر کا اپوائنٹمنٹ لینا ہے، زمین اور جائیداد کی خریدوفروخت کرنی ہے، دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے کوئی بھی کورس کرنا ہے، یا کوئی نئی اسکل سیکھنی ہے، کوئی بل ادا کرنا ہو، بچوں کے اسکول کی فیس گھر بیٹھے ادا کریں، یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا ہو یا امتحان دینے ہوں، گھر بیٹھے یہ کام بھی کیا جا سکتا ہے۔
سینما جیسی تفریح بھی گھر بیٹھے پوری ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ زکوۃ خیرات بھی اب "گھر بیٹھے" ادا کرنے کی سہولت میسر ہے۔ اس وقت ہم نوکری اور کاروبار سے لے کر قبر کی بکنگ تک روز مرہ زندگی کے تمام کام گھر بیٹھے کرنے کے قابل ہیں۔ یہ تمام مذکورہ سرگرمیاں تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ گھر بیٹھے انہیں بآسانی انجام دیا جا سکتا ہے، کچھ ایسی انوکھی خدمات کا بھی ذکر ہو جائے جو گھر بیٹھے کرنے کے بارے میں آپ نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا ہو۔
مثلا اگر آپ کے گھر کا لان گھاس سے بھر چکا ہے تو بکریوں کی خدمات بھی کرائے پر حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ان "کرائے دار بکریوں" کو لان میں چھوڑ دیں اور یہ اپنا کام پوری ایمانداری سے سر انجام دیں گی۔ اسی طرح کراچی کے ایک قبرستان میں"آن لائن جنازے" میں شرکت اور تدفین کی لائیو سٹریمنگ دیکھی جا سکتی ہے۔ بھارت میں ایک ایسی نایاب آن لائن سروس کا آغاز کیا گیا ہے کہ جس میں شادی بیاہ کی تقریبات میں"کرائے کے مہمان" حاصل کرکے شادی کو چار چاند لگائے جا سکتے ہیں۔
یہ مہمان انتہائی پروفیشنل ہوتے ہیں اور انہیں دیکھ کر یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ دولہے یا دلہن والوں کے تعلقات انتہائی "اعلی نسل" کے ہیں۔ "گھر بیٹھے" محاورہ ہماری روزمرہ زندگی کا ایک لازمی جز بن کر رہ گیا ہے، اس محاورے میں سہولت کے ساتھ ساتھ سہل پسندی کا بہترین استعمال ہے۔
یہ صرف پچھلے دس بیس سال میں ہونے والی ترقی کا نتیجہ ہے کہ انسان کی زندگی مکمل طور پر ڈیجیٹل ہوچکی ہے ورنہ اس سے قبل سارا دن صرف ایک بل جمع کرانے میں صرف ہو جاتا تھا اور ہوٹل سے کھانا منگوا کر کھانا باقاعدہ عیاشی سمجھی جاتی تھی۔ آج سے کچھ سال پہلے تک والدین اپنے بچوں کے اسکول جانے کے لیے باقاعدہ چھٹی یا ہاف ڈے لیا کرتے تھے۔ اب یہ کام باآسانی واٹس اپ گروپ کے ذریعے ہو جاتا ہے اور گھر بیٹھے بچوں کی پروگریس بھی موصول ہو جاتی ہے۔
یہ "گھر بیٹھے" والا ماحول باقاعدہ بنایا گیا ہے اور اسے کہتے ہیں"مارکیٹنگ یا برانڈنگ"۔ یہ تو طے ہے کہ آسائش کے آنے کے ساتھ ساتھ آرام طلبی میں اضافہ ہو جاتا ہے تو کمپنیاں انسان کی اسی آرام طلبی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے اشتہار بناتی ہیں جس میں"برکت" زیادہ اور "حرکت" کم ہو۔ جب پانی جیسی قدرتی چیز جو پہلے ہی دنیا کے 70 فیصد لوگوں کو حاصل ہے، اگر اسے بیچا جا سکتا ہے تو کچھ بھی بیچا جا سکتا ہے۔ پانی کی انڈسٹری اس وقت 340 بلین ڈالر کی مالیت رکھتی ہے۔
پانی کی اسی برانڈنگ سے جنم لیا ایسی مارکیٹنگ نے جس نے صارف کو گھر بٹھا کے گھر کی دہلیز پہ سہولیات پہنچانے کا بندوبست کیا۔ انٹرنیٹ آف تھنگز نے کاروباری دنیا کے لئے آسانیاں پیدا کر دی ہیں کہ وہ اپنے گاہکوں کے لیے گھر بیٹھے تمام سہولیات فراہم کر سکیں۔ یہ انٹرنیٹ آف تھنگز کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ ہمارے روزمرہ کے بہت سارے کام محض ایک بٹن دبا کر گھر بیٹھے اور بعض اوقات "گھر لیٹے" ہو جاتے ہیں۔
یہ انڈسٹری اتنی بڑی ہو چکی ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں کا بجٹ بھی اس کے سامنے حقیر محسوس ہونے لگتا ہے۔ انٹرنیٹ آف تھنگز کی انڈسٹری اس وقت 1.69 ٹریلین ڈالر کی آسمانی حد کو چھو رہی ہے۔ آپ اس انڈسٹری کی مالیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ پاکستان کا 2022 کا جی ڈی پی 0.3 ٹریلین ڈالر تھا۔ انٹرنیٹ نے جہاں اتنی چیزوں کو تبدیل کر دیا ہے جس میں ہمارا رہن سہن، خریدو فروخت، سفر، تعلیم، صحت اور ملازمت وغیرہ شامل ہیں وہیں اب چیٹ جی پی ٹی یا مصنوعی ذہانت کے آنے سے انٹرنیٹ آف تھنگز مستقبل میں بہت سے پیشوں کو ایسے نگل لے گا جیسے بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے۔ انسان کو بہت سارے کاموں کے لئے دوسرے انسان پر انحصار کم اور مصنوعی ذہانت پر زیادہ بھروسہ کرنا پڑے گا۔ سمجھ داری بھی اسی میں ہے کہ آج کے دور کی صلاحیتوں کو سیکھا اور اپنایا جائے۔
یہ کہنا کہ پرانا وقت یا دور اچھا تھا، انسان کے پاس انسان کے لئے وقت تھا اور زندگی آج کی نسبت بہت پرسکون اور خوشگوار تھی۔ زندگی میں ایک روایتی ٹھہراؤ تھا اور زندگی آج کی طرح اتنی تیز رفتار نہ تھی۔ یہ کسی حد تک تو ٹھیک ہو سکتا ہے کیونکہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں تاہم پرانے وقتوں میں بھی اس دور کے لحاظ سے جدّت ضرور پائی جاتی تھی جس سے اس دور کے انسانوں کی زندگی "پرآسائش" کہلاتی تھی۔
اہرام مصر ہی کو دیکھ لیجئے، تقریبا چار ہزار 500 سال قدیم دنیا کا یہ حیرت انگیز انسان کا بنایا ہوا عجوبا آج کے انسان کو بھی ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے کہ اس دور کا انسان کتنا جدید تھا کہ اس نے اپنے شاندار علم کی بدولت ایسی تعمیر کی۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس دور میں واٹس ایپ، یوٹیوب اور گوگل جیسی "گھر بیٹھے" والی سہولت ہوتی تو وہ بھی سارا دن غاروں میں پڑے رہتے، فوڈ پانڈا کرتے اور غار میں ہی من و سلویٰ منگواتے، پب جی کھیلتے، اور بڑی اسکرین پر پی ایس ایل سے لطف اندوز ہوتے۔ گھر سے نکلنے کی نوبت بھی جب آتی جب کوئی ٹک ٹاک بنانی ہوتی۔
برطانیہ میں جب نئے نئے کارخانے لگنے کا آغاز ہوا تو اس دور میں بھی ان کے خلاف بہت توانا آوازیں اٹھیں کہ یہ ہماری قدرتی خوبصورتی کو برباد اور ہماری زندگیوں کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیں گے اور ایسا ہوا بھی کہ جب لوگوں نے کارخانوں کی ملازمتوں سے اچھا کمانا شروع کیا تو لوگ حد سے زیادہ دکھاوا کرنے لگے۔ مگر یہ تمام احتجاج بیکار ثابت ہوئے کیونکہ ایجادات اور جدت کو روکنا ممکن نہیں۔ یہ ٹھیک اور غلط کی بحث سے ماوراء ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ "گھر بیٹھے" کا اگلا پڑاؤ کیا ہوگا اور انٹرنیٹ آف تھنگز کیا کیا نئے رنگ دکھائے گا۔