Eat That Frog
ایٹ دیٹ فراگ
نہ صرف سروے کا موضوع انتہائی مضحکہ خیز تھا بلکہ یہ خیال بھی واحیات حد تک برا تھا۔ جس نے بھی یہ سوال سنا اس نے اسے فورا مسترد کر دیا مگر سروے کرنے والی ٹیم کا کہنا تھا کہ فرض کرنے کی حد تک ہی اس سوال کا جواب دے کر ایک اہم مسئلے کا حل دینے میں اپنا حصہ ملایا جائے۔ سروے میں فقط ایک ہی سوال تھا اور وہ اتنا کڑوا اور زہریلا تھا کہ کوئی سننے والا اس سوال کو ہضم کرنے کی سکت نہیں کر پا رہا تھا۔ بالاخر مجبورا سروے ٹیم کے اصرار پر جواب دینا ہی پڑا۔ وہ زہریلا سوال آخر تھا کیا؟
سروے کرنے والی ٹیم یہ جاننا چاہتی تھی کہ اگر آپ کو ایک مینڈک کھانا پڑے تو آپ دن کے کس حصے کا انتخاب کریں گے؟ مطلب اپ 24 گھنٹے میں سے کون سے وقت مینڈک سے لطف اندوز ہونا چاہیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ سوال سن کر ہی لوگ قے کرنے لگتے تھے۔ تقریبا 95 فیصد لوگوں کا یہ جواب تھا کہ ہم یہ مینڈک 24 ویں گھنٹے میں کھائیں گے تاکہ پورا دن آرام اور سکون سے گزار کر سکیں۔ اگر مینڈک کھانا ہی ہے تو کم از کم اپنا دن تو برباد نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ 23 گھنٹے 58 منٹ میں ہم اپنی پوری زندگی جی لینا چاہتے ہیں۔
ہم صبح سے شام تک زندگی کا ایک ایک پل وقت کی قدر کرتے ہوئے گزارنا چاہتے ہیں۔ صرف پانچ فیصد افراد نے عجیب و غریب فیصلہ کیا کہ یہ مینڈک پہلے گھنٹے میں کھا لیں گے۔ اپنے فیصلے کی وضاحت میں انہوں نے یہ دلائل دیے کہ مینڈک تو بہرحال کھانا ہے تو کیوں نہ اسے پہلے وقت میں کھا لیا جائے تاکہ باقی وقت آرام سے گزرے۔ آخری وقت میں مینڈک کھانے کا فیصلہ نہ صرف پورا دن برباد کر دے گا بلکہ ہم کسی کام کے قابل نہیں رہیں گے یہ سوچ کر کہ مینڈک تو اب بھی ہماری پلیٹ میں باقی ہے۔
سروے والی ٹیم نے ان پانچ فیصد لوگوں کے جواب سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہمیں روزانہ ہی کسی مشکل کام کا کم از کم ایک مینڈک تو کھانا پڑتا ہے، یہ وہ بھاری پتھر ہے جو روز ہم سر پر اٹھا کر نیند سے بیدار ہوتے ہیں اور یہ ہماری سوچ میں دن بھر مینڈک بن کر ٹراتا رہتا ہے اور اسے ہم دن کے آخری پہرتک اٹھانے کے بعد ٹھکانے لگانے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں، اس کام کو ٹالتے رہتے ہیں کہ شاید ہماری کسی طرح اس مینڈک سے جان چھوٹ جائے جبکہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کل ایک اور مینڈک کھانا ہے۔
یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ دلچسپ مگر واحیات فلاسفی مشہور امریکی ناول نگار اور مزاح نگار مارک ٹوائن نے فقط ایک جملے میں پیش کی تھی کہ اگر آپ کو زندہ مینڈک کھانا ہے تو یہ کام صبح کریں اور باقی دن آپ کے ساتھ کچھ بھی برا نہیں ہوگا۔ مینڈک کھانے کی حکمت عملی ایک ترجیح اور productive طریقہ ہے جو لوگوں کو مشکل کاموں کی نشاندہی کرنے میں مدد کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مارک ٹوائن کے اسی زہریلے جملے کو مشہور امریکی موٹیویشنل اسپیکر اور 70 سے زائد کتابوں کے مصنف برائن ٹریسی نے ایک کتاب کی شکل دی۔ برائن نے 1,000 سے زیادہ کمپنیوں کی مشاورت کی ہے اور امریکہ، کینیڈا اور دنیا بھر کے 70 دیگر ممالک میں 5,000 مذاکروں اور سیمیناروں میں 5,000,000 سے زیادہ لوگوں سے خطاب کیا ہے۔ کلیدی مقرر اور سیمینار لیڈر کے طور پر، وہ ہر سال 250,000 سے زیادہ لوگوں سے خطاب کرتے ہیں۔
انہوں نے معاشیات، تاریخ، کاروبار، فلسفہ اور نفسیات کے شعبوں میں 30 سال تک مطالعہ، تحقیق اور لیکچر دیے ہیں۔ وہ 70 سے زیادہ بیسٹ سیلر کتابوں کے مصنف ہیں جن کا درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ برائن ٹریسی نے 21 ایسے طریقے دریافت کیے جو مینڈک کھانے (مشکل ترین کام انجام دینے) میں کارگر ثابت ہوئے ہیں۔ اس نے یہ جانا کہ سب سے زیادہ کامیاب لوگ کون سی ایسی عادات اپناتے ہیں جو انہیں زیادہ کامیاب اور مثبت بننے میں مدد کرتی ہیں۔ یہ عادات انہیں زندگی میں آگے بڑھتے رہنے میں معاون ثابت ہوتی ہی اور ایک سب سے اہم عادت جو سب سے منفرد ہے، مینڈک کھانے کے بارے میں ہے۔
شروع میں یہ تھوڑا سا عجیب لگتا ہے، مجھے یہ بتانے دیں کہ میرا اصل مطلب کیا ہے اور بالکل کیسے "اس مینڈک کو کھایا جائے" تاکہ آپ بھی اپنے مقاصد حاصل کر سکیں اور اپنی بہترین زندگی گزار سکیں۔
یہ زندگی ہے اور اس میں آپ کو ہر روز مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ اور آپ کی زندگی کتنی مکمل اور شاندار ہے، مسائل پھر بھی موجود ہیں اور وہ کہیں نہیں جا رہے جب تک کہ آپ ان کا سامنا نہیں کرتے اور انہیں حل نہیں کرتے۔ مسائل زندگی کی ایک حقیقت ہیں اور ان سے روز نمٹنا ہی زندگی ہے۔ ہم میں سے ہر انسان ہر روز کم و بیش 10 ایسے مسائل کا سامنا کرتا ہے جو اسے توڑ سکتے ہیں، جن سے ہماری نفسیات اور رویے پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ یہ مسائل کے وہ مینڈک ہیں جو ہمیں روز کھانے ہیں اور یہ روز انڈے بچے دیتے ہیں۔
ان دس مسائل میں صحت، تنگدستی یا معاشی حالت، ناکامی، رشتوں میں دراڑیں، کام کی جگہ کے مسائل، ذہنی صحت اور اندر سے خالی پن محسوس کرنا، مستقبل کو لے کر فکر مند رہنا، دوسروں کا رویہ اور یاد ماضی شامل ہیں۔ اب یہ آپ نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ ان میں سے سب سے بڑا مینڈک کون سا ہے جسے صبح سویرے کھا لیا جائے تاکہ دیگر چھوٹے مسائل پر توجہ دی جا سکے۔
یاد رکھیں کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے، آج کل کے یوٹیوبرز ریٹنگ اور ریویو کمانے کی دوڑ میں ایسی ویڈیوز بنا رہے ہیں جس میں راتوں رات شہرت اور دولت بغیر محنت کہ حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ حالت یہ ہے کہ ہر ویڈیو کے آغاز میں سبسکرپشن کی بھیک مانگی جاتی ہے۔ کامیاب ہونے کے لیے محنت کا مینڈک تو کھانا پڑے گا کیونکہ کوئی بھی اسکل بغیر کام کیے آپ کی جھولی میں نہیں گرے گی۔
آپ اپنی زندگی پر صرف اپنے سوچنے، کام کرنے اور ذمہ داریوں کے نہ ختم ہونے والے دریا سے نمٹنے کے انداز کو بدل کر ہی کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں جو ہر روز بہتا ہے۔ آپ اپنے کاموں اور سرگرمیوں پر صرف اس حد تک کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں کہ آپ کچھ کام کرنا چھوڑ سکتے ہیں اور ان چند سرگرمیوں پر زیادہ وقت گزارنا شروع کر سکتے ہیں جو واقعی آپ کی زندگی میں تبدیلی لا سکتی ہیں۔
ہمارے زندگی میں سرگرمیوں اور کام کی بہتات کے پیچھے ترقی کا بھی عمل دخل ہے۔ ای میل چیک کرنا، سوشل میڈیا پر وقت گزاری، گھنٹوں یوٹیوب سے چمٹے رہنا اور فیس بک نامی نان بک کا مطالعہ وہ سرگرمیاں ہیں جو ٹیکنالوجی کہ رحم سے پیدا ہوئی ہیں۔ سچ پوچھیں تو ان سرگرمیوں نے ہمارے تالاب کے مینڈکوں میں اضافہ ہی کیا ہے۔ ہم خود کو جتنا کم مگر ضروری سرگرمیوں تک محدود رکھیں گے، ہماری پلیٹ میں اتنے ہی کم مینڈک جمع ہوں گے ورنہ ایک دن مسائل کے مینڈک ہم انسانوں کو نگل جائیں گے۔