CEO
سی ای او

چیٹ جی پی ٹی پر پچھلے دنوں ایک دلچسپ سوال لکھا کہ دنیا کا مشکل ترین عہدہ کون سا ہے؟ اب چونکہ چیٹ جی پی ٹی ایک روبوٹ یا اے آئی سسٹم ہے تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ایک عہدہ بتا دیتا مگر دنیا اس بےبی اے آئی نے جب سے دنیا میں آنکھ کھولی ہے یہ بھی ہم انسانوں کی طرح گھما پھرا کر گول مٹول جواب دینے کا عادی ہوتا جا رہا ہے۔ ہم انسان بھی اسے گھما پھرا کر کام کی بات پوچھ ہی لیتے ہیں تو چیٹ جی پی ٹی نے بھی روایتی انداز اپناتے ہوئے سیاسی اور ڈپلومیٹ ترجمان بن کر سیدھا اور آسان جواب نہیں دیا مگر آخر کار CEO پر مہر لگا ہی دی۔ حقیقت بھی یہی ہے دنیا بھر میں تمام ایمپلائیز کا صرف0.00001 فیصد ملازمین ہی سی ای او بن پاتے ہیں۔ فورچون 500 میگزین کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچنا سی ای او بننے سے آسان ہے۔
سی ای او یعنی چیف ایگزیکٹو افسر ایک عھدہ ہی نہیں ایک بڑی بھاری بھرکم ذمہ داری ہے یہ جہاز کے اس کپتان کی طرح ہے جس نے سمندر کی تیز اور تند موجوں سے بھی لڑنا ہے تمام مسافروں کا بھی خیال رکھنا ہے جہاز کی بھی حفاظت کرنی ہے، بحری قذاقوں کا بھی مقابلہ کرنا ہے اور منزل مقصود تک ہر حال میں پہنچنا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے سی ای او بننا اتنا مشکل کیوں ہے؟
یہ اس لیے مشکل ہے کہ اس میں غیر معمولی ذمہ داریاں، مسلسل دباؤ، سخت مقابلہ، تجربہ اور ویژن، سوچ میں پختگی، مسائل حل کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت، لیڈرشپ کا صحیح انداز اور کئی سالوں کا تجربہ شامل ہے۔ کہا جاتا ہے سی ای او کبھی بھی چھٹی نہیں کرتا بلکہ وہ گھر پر بھی دفتر کی ذمہ داریاں نبھا رہا ہوتا ہے۔ یہ 24 گھنٹے کی نوکری ہے۔ فائنانس، مارکیٹ، کلائنٹس، ایچ آر، پروڈکشن، ڈسٹریبیوشن، میڈیا، بورڈ آف ڈائریکٹرز، ملازمین، نفع، نقصان، سرمایہ غرض سی ای او کمپنی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہر چیز کو ناپ تول کر چلتا ہے، اس کی نظر ہر جگہ ہونی چاہیے اس کے کان ہر وقت سننے میں مصروف ہوں اور ذہن چاک و چوبند۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عہدہ دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والا عہدہ کہلاتا ہے۔
پاکستان میں بڑی کمپنی کے سی ای او ایک سے تین کروڑ روپے تک تنخواہ لیتے ہیں۔ چھوٹی کمپنی کو بھی سی ای او پانچ سے 30 لاکھ کے درمیان پڑتا ہے۔ ایلون مسک دنیا کا سب سے زیادہ تنخواہ لینے والا سی ای او ہے اگرچہ وہ کمپنی کا شیئر ہولڈر بھی جس کی وجہ سے اس کی دولت بہت زیادہ ہے۔ اسی طرح مائکروسافٹ کا سی ای او ستیا نڈالا سالانہ تقریباََ 96 ملین ڈالر معاوضہ لیتا ہے یہ رقم پاکستانی روپوں میں 27 ارب روپے بنتی ہے۔ ایپل کمپنی کا ٹم کک تقریباََ 74 ملین ڈالر سالانہ معاوضہ اپنے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کرتا ہے یہ رقم پاکستانی کرنسی میں 21 ارب روپے بنتی ہے۔
پریشان نہ ہوں پاکستانی بھی کم نہیں۔ میزان بینک کے سی ای او عرفان صدیقی کی 2023 کی آمدنی 42 کروڑ روپے، موجودہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سابق صدر اور سی ای او حبیب بینک لمیٹڈ کی 2023 کی سالانہ آمدنی 35 کروڑ روپے۔ یہ طویل عرصے تک پاکستان کے سب سے مہنگے بینک سی ای او ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ صرف تنخواہ کی مد میں ملنے والی "لکشمی" نہیں بلکہ اس میں سٹاک کے علاوہ کارکردگی کی بنیاد پر دیا جانے والا بونس بھی اور دیگر الاؤنسز بھی شامل ہیں اور کان سے دھواں نکالنے کے لیے کافی ہیں۔
دنیا میں کچھ انتہائی غریب قسم کے سی ای او بھی پائے جاتے ہیں حیران ہونے کی ضرورت نہیں یہ افریقہ کے کسی ملک میں نہیں رہتے بلکہ دنیا کی مشہور و معروف کمپنیوں کے سی ای او ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ یہ تنخواہ کی مد میں صرف ایک ڈالر لیتے ہیں وہ بھی سالانہ۔ یہ ایک ڈالر کلب سی ای او کہلاتا ہے۔ ان میں ٹیسلا کا ایلون مسک، فیس بک یعنی میٹا کا مارک زکربرگ، گوگل کے لیری پیج اور سرگئی برن وغیرہ شامل ہیں۔ اگرچہ یہ ایک علامتی رجحان سمجھا جاتا ہے مگر ایسا نہیں ہے اس میں ایک طرف جذبات بھی شامل ہیں تو دوسری طرف قربانی اور کمپنی پر اعتماد بھی شامل ہے، ساتھ ہی اس میں رسک اور خود اعتمادی کا ایک عملی اعلان بھی ہے۔
اس رجحان کا آغاز سب سے پہلے 1970 کے اخر میں Corporaton Chryslere کے لی لا کوکا نے اس وقت کیا جب کمپنی شدید مالی مشکلات سے دوچار تھی تو لی نے اپنی تنخواہ ایک ڈالر مقرر کر دی اس وقت یہ ایک علامتی اقدام تھا کہ سی ای او کی تنخواہ سے زیادہ اہم کمپنی کی حالت ہے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمپنی کو ڈوبنے سے بچائے۔ لی کی یہ ذمہ داری اور قربانی کی مثال ایک طاقتور رجحان اور ماڈل بن گئی۔ آج دنیا کے بہت سے طاقتور سی ای اوز جو دنیا بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اس ایک ڈالر سی ای او کلب کا حصہ ہیں مطلب وہ کام کرنے کا معاوضہ نہیں لیتے مگر کمپنی میں ان کے شیئرز موجود ہیں۔ اگر کمپنی ڈوبے گی تو انہیں بھی نقصان ہوگا اور اگر کمپنی فائدے میں رہے گی تو وہ بھی فائدے میں رہیں گے۔
سی ای او چونکہ کارپوریٹ کلچر میں ایک جناتی قسم کی مخلوق بن چکی ہے لہذا ان پر آئے دن سروے اور ریسرچ جاری رہتی ہے۔ یہ کیا کھاتے ہیں کب اٹھتے ہیں دن کیسے گزارتے ہیں یہ شیڈیول کیسے بناتے ہیں میٹنگز کیسے اٹینڈ کرتے ہیں دفتر کب پہنچتے ہیں کون سی ورزشیں کرتے ہیں یہ کون سی کتابیں پڑھتے ہیں ان کی ذاتی زندگی کیسی ہے، فیملی کو کتنا وقت دیتے ہیں، یہ سوتے کب ہیں ان کی تمام سرگرمیوں پر باقاعدہ ریسرچ ہوتی ہے مثلاََ ایپل کے سی ای او ٹم کک صبح تین بج کر 45 منٹ پر اٹھتے ہیں
یہ روزانہ جم بھی جاتے ہیں واک بھی کرتے ہیں اسی طرح 480 ارب ڈالر کی مالیت رکھنے والا دنیا کا امیر ترین شخص ایلون مسک چھ یا سات بجے اٹھتا ہے ہفتے میں 80 سے 100 گھنٹے کام کرتا ہے (ہم 40 گھنٹے زیادہ سمجھتے ہیں) لنچ زیادہ تر ڈیسک پر یا کام کے دوران ہی کرتا ہے غیر ضروری ملاقاتیں نہیں کرتا اور رات کو فیملی کو بھی وقت دیتا ہے اس کی سب سے اہم بات روزانہ وقت کی منصوبہ بندی تقریباََ ہر پانچ منٹ کے بلاکس میں کرتا ہے۔ 95 سالہ وارن بوفے جس کی نیٹ ورتھ 160 بلین ڈالر ہے اپنی صبح اخبار اور فائننشل رپورٹس پڑھنے میں گزارتا ہے سادہ لنچ کھاتا ہے کتابیں پڑھتا ہے عام طور پر ٹیکنالوجی سے دور رہتا ہے اور سادگی پر توجہ دیتے ہیں۔
یہ ہوش ربا داستانیں پڑھنے اور جاننے کے بعد آخر میں جو نتیجہ نکلا وہ یہ تھا کہ سامان پیک کیا جائے کمر کس لی جائے دن رات ان تھک محنت کرکے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ سی ای او بننا تو تقریباََ ناممکن ہے اور پاکستان میں تو ملازمین کم ہیں اور سی ای او زیادہ۔ لہذا ایک اچھے اور اسمارٹ پاکستانی کی طرح میں نے آخر میں چیٹ جی پی ٹی سے وہ ملٹی بلین ڈالر سوال پوچھ ہی لیا جو سی ای او بننے کا حتمی نسخہ ہے کہ مجھے ایک لفظ میں بتاؤ سی ای او کیسے بنا جا سکتا ہے تو اس کمبخت کا جواب تھا ڈسپلن!

