Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. Shaoor Ka Karb

Shaoor Ka Karb

شعور کا کرب

باہر خزاں کا موسم ہے میرے کمرے میں کسی موسم کی کوئی زرا سی جنبش نہیں ہے۔ سوالات کا جائزہ لیا ہے کوئی بھی جواب ڈھونڈنے لائق نہیں ہے۔ ہر چیز پر کسی دوسری چیز کا اثر ہے کوئی چیز جو اثر کے اس آسیب سے پاک ہو؟

تخیل میں ملاوٹ ہے اور سوچ کے گراف کے ایکس-ایکسز پر ریلز چلتی ہے اور وائے-ایکسیز پر بے معنویت رینگتی ہے۔ جسے نیند نہیں آتی اسے تیرہویں منزل پر کمرا کتنا ہی سستا ملتا ہو، نہیں لینا چاہیے۔

بےخودی میں ایک دن کہا کہ اگر خدا کے ہونے پر یقین کامل ہو جائے تو اپنی جبیں پر سجدیں سجا لیں کہ کسی ایک جانب سے تو یکسوئی میسر ہو۔ آٹھ یورو کی ایک بوتل آدمی کس قدر دلچسپ بنا دیتی ہے۔ چار گھنٹوں میں اس لڑکی نے صدیوں کی بوریت محسوس کروائی یعنی اس نے نہ کوئی سیزن دیکھا نہ گانا سنا نہ ورلڈ وار کے کسی ایک ایونٹ کی جانکاری رکھی اور بتانے پر اپنا میجر انٹرنیشل ریلیشنز بتایا۔ اس پورے میجر پر لعنت۔

لکھنے والے جھوٹے ہیں سنانے والے جھوٹے ہیں پلیز کسی کا اعتبار نہیں کریں پلیز کسی سے متاثر نہیں ہوں۔ ایک انا، جو اٹھارہ سال کی عمر میں آئی تھی اسکا احترام رکھیں کسی کو کچھ نہ سمجھیں۔ خدا سے یاد آیا ایک لڑکی نے دعا کی کہ اللہ میاں! میری گال کا پمپل میری چھاتی پہ اگا دے۔ بس اتنا ہی اور کچھ نہیں چاہیے۔ خدا بننا اتنا مضحکہ خیز ہے، سوچیے۔

شعور کا سب سے بڑا کرب انتظار کا احساس ہے۔ ہر کوئی کسی چیز کے ہونے کے انتظار میں ہے۔ انتظار سے خالی کوئی ایک شخص مجھ سے نہیں ملا، میں بھی نہیں۔

ہمیں فلموں نے پالا ہے۔ ٹرین سے باہر کا منظر دیکھنے کا احساس اور محسوسات ہماری اپنی ہیں؟ نہیں وہ کسی فلم کی دین ہے۔ ہم بھیڑ میں چلتے ہیں تو یہ احساس ذہن میں لے کر چلتے ہیں کہ ہم فلمی کریکٹر ہیں اور اردگرد ایکسٹرا میں چل رہے اور کچھ ہونے والا ہے۔ ائیر پورٹ پر دو لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ہمارے ذہن میں درجنوں فلموں کے مناظر ڈائیلاگ سمیت تیرنے لگتے ہیں کہ یہ اب جدا ہورہے یا بہت عرصے بعد مل رہے اب یہ کیا کہہ رہے ہوں گے کیا سوچ رہے ہوں گے یقیناً وہی کہہ رہے ہوں گے جو ہمارے فلمی کریکٹر نے اپنے محبوب کو الوداع کرتے ہوئے کہا۔ رات سڑک پر اکیلے چلنے سے چائے کا کپ اٹھانے تک کا انداز اور خریداری کرتے ہوئے بریڈ اٹھانے سے محبت کا اظہار کرنے کے ہر مراحل ہر جنبش ہر ایکٹ کسی فلم کا دیا ہوا ہے۔ ایلومناتی کا عالمِ انسانیت کی سوچ پر اثرانداز ہونے کا ذریعہ شاید فلم ہی ہو۔

خیر، پچھلے دنوں اٹالین ڈکٹیٹر موسولینی کو پھرولا۔ ایسے برے ایکسپریشن دینے والے کو لوگ چن لیتے ہیں پھر گِلا کرتے ہیں ٹک ٹاکرز کی فین فالونگ کا۔ موسولینی کے بیڈ روم کی چادر اور عورت روز بدلتی پھر بھی پانچ بچوں کے ساتھ فیملی مین مشہور تھا۔ اسکی الٹی لٹکی لاش دیکھ کر آسٹریا کے اس پینٹر کی دور اندیشی بھلی لگی جو اپنے بنکر میں اپنی موت خود مرا کسی کو ہاتھ نہیں اٹھانے دیا۔ ڈکٹیٹر ڈیموکریسی پر تنقید ہیں۔

ہر تحریر کا اختتام چونکا دینے والے نوٹ پر کرنے کی چاہ رائٹر ہلکان کردیتی ہے اور نیٹ فلکس پر شاہ رخ خان کے بیٹے کی بنائی وہ سیریز شاہ رخ خان کا بیٹا نہ بنا سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam