Parkhe Jaane Ka Bojh
پرکھے جانے کا بوجھ
لوگوں سے ملنا اداس کر دیتا ہے اپنی ذات کے اندر سوال کھڑے کر دیتا ہے۔ یہ بات کہی جاسکتی تھی یہ بات کہنے سے باز آیا جاسکتا تھا۔ یوں بیٹھا جاسکتا تھا یوں بیٹھنا تو ناشائستگی تھی۔۔ یہ پوچھ کر کیا کرلیا! عزت ہی گھٹائی نا۔
وہ کیا سوچ لے کر اٹھے ہوں گے۔ وہ جاتے ہوئے ساتھ والے سے کیا کہتے ہوں گے۔ انجان لوگوں سے جاننے کی غرض سے پہلی ملاقات سٹپٹائی اور گھبرائی ہی ملی۔ اپنا سچ پہلی ملاقات میں نہیں اگلنا مگر اتنا چھپا لیا کہ اگلی ملاقات میں باہر آ جائے تو کیا ہوگا؟
شکل سے تو جج ہو رہے ہیں باتیں کیا ہی سنائیں۔ شکل نہیں بدلی جاسکتی کمرا صاف رکھا جاسکتا ہے، بیٹھنے کی جگہ خوبصورت بنا دی جائے۔ پرفیوم پرسنلٹی کا پتہ دیتے ہیں سو لگا لیا جائے مگر اگلا بھی تو شاید اسی مخمصے کا شکار ہو کہ اس کے سامنے والا کیا سوچ رہا ہے کیا پرکھ رہا ہے متاثر ہو رہا ہے یا بدگمان!
پرکھے جانے کا بوجھ اس قدر بھاری ہے کہ مجبوراً تنی ہوئی پلکیں، خاموشی ٹوڑنے کے لیے پوچھے بےمعنی سوالات اور چال بدلا کر اپنا سچ اور کریکٹر چھپا دیتا ہے۔ آدھے گھنٹے میں انسان تھکا دیتا ہے۔
پہلا تاثر دینا کس قدر قابل رحم ہے۔ یہ شعور کی دین ہے کہ ہم الجھ جاتے ہیں گلہریاں نہیں الجھتی زرافے پہلی ملاقات میں لاپرواہ اور مطمئن رہتے ہیں۔
ہم اپنی نوکری بتاتے شرما جاتے ہیں مدعا چینج کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ بندر چوری کا کھانا کھا کر آرام سے سوتے ہیں کسی سے نہیں ڈرتے ہم ڈر میں پلتے ہیں۔ ہم اپنے بارے میں کتنا برا سوچتے ہیں۔ کمرے میں لیٹے ہوئے کھانا چباتے ہوئے ہی کتنے پریشان حال میں خود کو پھنسا کر دیکھ لیتے ہیں۔۔ ہم کتنا سوچتے ہیں ہمیں کتنا سوچنا پڑتا ہے۔ ہم مرنے کے بعد کا بھی سوچتے ہیں کہ جسم کا کیا ہوگا کون اٹھائے گا کیسے نظر آئیں گے۔
ہم ہر طرح کے ذلیل اکنامیک ماڈل سے آزاد ہو بھی جائیں مگر بیکار، بلاوجہ اس قدر لمبا اور ڈرا دینے والا سوچنے سے آزاد نہیں ہوسکتے۔

