Naeema, Meri Dost
نعیمہ، میری دوست
آج سونے کے لیے آنکھ بند کی تو اچانک سے نعیمہ کا خیال بمعہ اس کے چہرے کے ذہن میں ابھر آیا۔ نعیمہ سے پہلا تعارف غائبانہ تھا جب ساتویں کلاس کے سیکشن سی کی انچارج نے کہا کہ بی سیکشن کی نعیمہ سے کچھ سیکھو الجبرا کیسے کیا جاتا ہے۔
نعیمہ کا نام چاروں سیکشن کے تمام ٹیچرز کی لسٹ میں ہونہار کے لاحقے سے محفوظ تھا۔ آٹھویں پاس کرکے ہم نویں کلاس میں پہنچے تو وہاں نعیمہ کو اپنے ساتھ پایا۔ پہلی بات کیا ہوئی گفتگو کیسے آگے بڑھی ایک ہی بینچ پر وہ میرے ساتھ کب بیٹھنے لگی یاد نہیں مگر نعیمہ اور میں اب دوست تھے۔ نعیمہ کا ٹیچرز سے سنا غائبانہ تعارف درست تھا۔ وہ ذہین تھی، سبق جلد یاد کرلیتی، میتھ کے سوالوں کے نکالے اس کے جواب کتاب کے آخری صفحوں میں لکھے جواب سے پہلی بار میں ہی میچ کر جاتے۔
پست قامت نعیمہ کا حلیہ کچھ خاص قابلِ ذکر نہیں تھا۔ سادہ سے کپڑے پہنتی ابا سرکاری اسپتال میں کمپاؤنڈر تھے اور نعتیہ اشعار لکھتے۔ شعری مجموعوں کی دو کتابیں بھی شائع کرچکے تھے مگر نعیمہ کے خون میں شاعری اور ادب شامل نہیں تھا۔ وہ عامیانہ شعروں پہ جھوم جاتی اور سب کو فارورڈ کرتی۔
نعیمہ کے مزاج مجھ پر کھلتے رہے ہم دن کے چوبیس گھنٹوں میں سولہ گھنٹے ساتھ رہتے۔ میری ہینڈ رائٹنگ میں نعیمہ کی ہینڈ رائٹنگ کی ملاوٹ ہونے لگی۔ تین کے ڈسکس پہ ہم دو بیٹھتے تیسرے کو نعیمہ بیٹھنے نہ دیتی۔ وہ کلاس کی بدمعاش اور بولڈ اسٹوڈنٹ تھی۔ وہ تخریب کاری میں یکتا تھی خود نہ لڑتی مگر دو کو لڑوا کر مسکراتی۔ وہ کلاس کی واحد تھی جو موٹر سائیکل چلانا جانتی تھی۔ وہ لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتی، اسٹیج کی باؤنڈری پر سیدھے بیٹ کا چھکا لگاتی تو اکثر گیند گم جاتی۔
وہ ہمیشہ کسی مشن پر رہتی۔ اسکول تفریح کے دوران وہ کلاس کے پچھلے ڈیسک پہ بیٹھنے والی اسٹوڈنٹس میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ ملاتی اس سے اپنائیت جتاتی اور کہتی مل کر سموسے کھاتے ہیں۔ اس کے دس روپے لے کر کنٹین پر سموسے لینے جاتی اور وہیں کھا آتی۔ دوسری اسٹوڈنٹ اس کی راہ تکتی رہ جاتی۔ نعیمہ گندے لطیفوں سے بھری رہتی۔ نویں میں اس کے نمبر مجھ سے زیادہ تھے۔ ہم اکیڈمی ایک ساتھ جاتے اکثر اکیڈمی کا وقت نعیمہ کے اکسانے پر انارکلی اور فوراہ چوک کی دکانوں میں گھوم کر گزارتے۔ دسویں تک آتے اس کا دھیان اور من پڑھائی سے جاتا رہا۔
نعیمہ اب بھی ذہین تھی مگر اب وہ پچھلے ڈیسک پہ بیٹھے اسٹوڈنٹس کی طرح پیپر کے نیچے کتاب کھلونے لگی تھی۔ نعیمہ کی شخصیت کا رنگ اس قدر گہرا اس قدر منھ زرو تھا کہ یہ میرے کمزور رنگوں پہ چھایا ہوا تھا۔ ہمارا اکیڈمی کا وقت بازار گھومنے پارک میں نکل جانے ٹیچروں کے الٹے نام رکھنے شریف اسٹوڈنٹس کو تنگ کرنے اور کلاسز میں دھیان نہ دینے میں گزرنے لگا۔ ہم نے دسویں پاس کر لی تھی۔ اس بار میرے نمبر نمبر نعیمہ سے کچھ زیادہ تھے مگر نعیمہ کو کچھ فرق نہیں پڑا۔
ہم اب کالج میں تھے۔ نعیمہ اب مزید بے باک اور شوخ ہو چکی تھی۔ وہ خاندان کی کسی شادی سے واپس لوٹتی تو اس کے پاس سنانے کو نئی محبت کے ولگر قصے ہوتے جو وہ نہایت بھونڈے انداز سے سناتی۔ میں حیران ہوتی کہ پست قد اور واجبی شکل و صورت کے ساتھ نعیمہ اتنے لڑکوں سے سلسلہ کیسے چلا لیتی ہے۔ دراصل نعیمہ اس معاملے میں بے حد جرات مند تھی۔ ایک بار ایسی ہی کسی محبت سے نعیمہ کے ہاتھ فحش کہانیوں کا رسالہ لگ گیا جسے پہلے نعیمہ اور پھر میں نے اپنے گھر لے جا کر چھپا کے پڑھا اور پھر کئی کلاسیں ان کہانیوں کے کردار پر سرگوشیاں کرتے ہوئے گزاری۔ ہم دونوں کا فرسٹ ائیر کا رزلٹ شرمناک تھا۔ میرے نمبر بہت کم تھے مگر نعیمہ سے زیادہ تھے اسے کوئی فرق نہیں پڑا۔
اب ہم سیکنڈ ائیر میں تھے۔ نعیمہ اپنے ایک کزن سمیت درجنوں اردگرد کے لڑکوں سے محبت کرچکی تھی۔ وہ کہتی مرد سے جسمانی، مالی اموشنلی نیز ہر طرح کا نفع اٹھایا جائے یہی زندگی ہے اور یہی اس کا لطف ہے۔ نعیمہ کی بٹنوں والے موبائل سے کیو موبائل تک رسائی ہوچکی تھی۔ ہم ڈھیروں تصاویر بناتے نعیمہ انہیں ایڈٹ کرتی اور تھرڈ کلاس اشعار کے کیپشن کے ساتھ یہاں وہاں لگاتی۔ نعیمہ کو چیزیں چرانے کی عادت تھی۔ لائبریری سے کتابیں، بیگ سے قلم اور پیپر شیٹس کسی کے موبائل کا میموری کارڈ کسی کے بستے میں پڑا ہوا کھانا یہاں تک کہ ایک بار اس نے اس اسپورٹس کا سرٹیفیکیٹ بھی چرا لیا جس میں اس نے حصہ نہیں لیا تھا اور سرٹیفکیٹ پر نام بھی کسی اور کا درج تھا۔
نعیمہ کا مستقبل اب واضح تھا۔ اس کا من پڑھائی سے اچاٹ ہوچکا تھا۔ نعیمہ کا تعارف اب ذہین سے ہٹ کر ایک عامیانہ اسٹوڈنٹ میں بدل چکا تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کو لڑکپن سے جوان ہوتا دیکھا تھا۔ نعیمہ اب تھوڑی وزنی ہونے لگی تھی۔ میری طبیعت نعیمہ کے زیرِ سایہ ارتقائی مراحل سے گزر رہی تھی یا یوں کہیے نعیمہ کے مزاج کے مرہون منت بگڑ رہی تھی۔ نعیمہ کی موجوگی میری روزمرہ زندگی کا حصہ تھی۔ وہ اکثر مجھے تذلیل بھی کرتی اس کا رویہ توہین آمیز بھی ہوتا مگر میں شاید اسٹاک ہوم سنڈروم کا شکار تھی کہ گھوم پھر کے اسی کافر پہ دم نکلے۔
سیکنڈ ائیر کالج میں ہمارا آخری سال تھا۔ میرے گھر والوں کی سختی مجھ پر قائم تھی نعیمہ قدرے آزاد ہوچکی تھی۔ وہ گھر کی بڑی بیٹی تھی والد کی زیادہ سنتی نہیں تھی کالج کے بعد اس کا یونیورسٹی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ فرسٹ ائیر کے شرمناک اور سیکنڈ ائیر کے قدرِ قابل قبول نمبر ملا کر میرا یونیورسٹی میں داخلہ ہوچکا تھا۔
دسویں سے بگڑا نعیمہ کا رزلٹ سیکنڈ ائیر میں بھی بدستور بگڑا ہوا نکلا اسے کوئی فرق نہیں پڑا۔ رزلٹ کے چند ماہ بعد تک نعیمہ یونہی گھر بھٹکتی رہی اور میں یونیورسٹی جانے کی تیاریوں میں لگ گئی۔ ہماری ملاقاتوں میں کمی آنا شروع ہوئی جسے میں نے شدت سے محسوس کیا نعیمہ کو کوئی فرق نہیں پڑا۔
میں یہی سوچتی کہ نئے شہر میں نئی جگہ پر نعیمہ ساتھ نہیں ہوگی تو زندگی کیسے آگے بڑھے گی۔ وقت کیسے کٹے گا۔ میں یونیورسٹی پہنچ گئی اور میرے پیچھے نعیمہ بھی بہاولپور کے ایک پرائیویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں نرس کا ڈپلومہ کرنے لگی۔ ہم اب ایک شہر میں تھے مگر ملنا نہیں ہوتا تھا۔
ہم نے ایک بار کوشش کی ملنے کی نعیمہ نے اپنی نئی دوستوں سے میرا بڑا والہانہ تعارف کروایا مگر ملاقاتوں کا سلسلہ قائم نہ رہ سکا۔ میری نئی واقفیت بننے لگی نعیمہ بھی نئے لوگوں سے ملنے لگی۔ میرے پرانے خیالات میں شدید تبدیلی کا سلسلہ رونما ہونے لگا۔ نعیمہ کے ساتھ کبھی کسی موضوع پر گہری گفتگو نہ ہوتی جو دماغ کے بلا خانوں میں نئے سوالات کو اٹھاتی۔ نعیمہ صرف ہذیان بکتی اور میں تائید میں مسکراتی۔
نعیمہ کا ساتھ میں بھولنے لگی اب اس کی ضرورت بھی کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ وہ اپنی دنیا میں مگن میں اپنی سوچ کے سفر میں تھکن۔
خبر آئی نعیمہ شادی کر رہی ہے۔ مجھے لگا نعیمہ کی ابھی عمر ہی کیا ہے مگر شاید میں نویں کلاس میں ملی نعیمہ کا پہلا تعارف ذہن سے جھٹلا نہ سکی تھی جو کسی کمزور لڑکی سے دس روپے ہینٹ کر کنٹین پہ سموسے کھا کر شیطانی ہنسی ہنستے میرے ساتھ آ بیٹھتی تھی۔
نعیمہ نے مجھے شادی پہ نہ بلایا۔ بے شک مجھے اب اس کی کوئی پرواہ نہ تھی مگر میرے دل میں ٹیس اٹھی نعیمہ پر غصہ آیا مگر نعیمہ اب شادی شدہ تھی۔
ایک اسپتال کے چکر میں نعیمہ بطور نرس دکھی۔ اس کا بدن پھیل چکا تھا ناٹے قد پہ چربی چڑھی نعیمہ مجھے گندم اسٹور کرنے والا چھوٹے سائز کا بھڑولا دکھی۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ اسی دن نعیمہ اسپتال میں مٹھائی بانٹ رہی تھی اس کے ہاں بیٹا ہوا تھا مجھے لگا کہ میں اسپتال میں نعیمہ کے بیٹے کی مٹھائی کھانے پہنچی ہوں۔ میں نے نعیمہ سے بات کی، محدود سی گفتگو میں مجھے اس سے اکتاہٹ ہوئی۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے درمیان باتیں پانی کی طرح بہتی مگر اب یہی نعیمہ ہے جس کے ساتھ چند منٹ کی بات جاری رکھنے کے لیے ایفرٹ لگ رہی ہے مگر بات نہیں بن رہی۔
وقت جابجا اپنے نشان جسم اور ذہن پہ نقش کیے لاپرواہی سے گزرتا رہا۔ نعیمہ صرف تصویروں میں رہ گئی ذہن میں اس کے ہمراہ گزارے وقت کی یاداشتیں دھندلی ہونے لگی۔
میری ریسرچ شروع ہوچکی تھی۔ میں سارا دن لیب میں سر کھپاتی اور شام میں تھیسز لکھتی۔ میں اپنے شہر اپنے گھر مہینوں بعد جاتی اور کسی سے نہ ملتی۔ پرانے دوستوں سے میرا کوئی رابطہ نہیں تھا نہ میں رکھنا چاہتی تھی۔ جون کے مہینے میں گھر آئی ہوئی تھی اور ایک حبس زدہ شام کاٹنے شہر کے پارک میں ٹہلنے نکلی۔ یہ پارک میری آنکھوں کے سامنے تعمیر ہوا تھا۔ اس میں لگے جھولوں پہ پہلے جھولے میں نے لیے تھے۔ پارک کے سارے کونوں سے میں مانوس تھی میں پارک میں کھیلتے بچوں کو دیکھ رہی تھی جس میں سے کچھ جوڈو کراٹے سیکھ رہے تھے کچھ پاپڑ فروش کے گرد جمع تھے۔ میری نظر کھیلتے بچوں سے گھوم کر پاپڑ فروش کی ریڑھی پر جم گئی۔ بچوں کے جھرمٹ میں ایک عورت وہیل چئیر پہ بیٹھی تھی جسے دیکھ کر دماغ میں دھماکہ ہوا کیا یہ نعیمہ ہے؟ میں اس اچانک حملے سے ابھرتی کہ وہیل چئیر کو اپنے ہی جانب آتے دیکھا۔
وہیل چئیر کے ٹائروں کو ہاتھ سے دھکیلتے میرے قریب آ کر حیرانی سے مسکراتی ہوئی عورت نعیمہ ہی تھی۔ وہیل چئیر کے پیچھے گندمی رنگ کا ایک بالک پاپڑ کھاتا ہوا مجھے تک رہا تھا۔ نعیمہ نے میرا نام پکارا میں نے نعیمہ کو دیکھا ہاتھ ملایا اور وہیل چئیر پہ جھک کے گلے لگایا۔ سوالوں کا ایک سلسلہ تھا جو باہر آنے کو بے تاب تھا۔ نعیمہ یہ حالت کیسے ہوئی؟ نعیمہ نے بتایا چھ ماہ پہلے اس کا کار اکسیڈنٹ ہوا وہ اور اسکا شوہر موٹر سائیکل پہ سوار اسکے میکے جا رہے تھے۔ شوہر کو خراش تک نہیں آئی نعیمہ کی ٹانگوں پہ گاڑی چڑھی اور دونوں ٹانگیں کچل ڈالی۔
یہ بتاتے ہوئے نعیمہ ہمشیہ کی طرح لا پرواہ تھی۔
نعیمہ سے اب کیا بات ہوسکتی تھی میں کیا مزید پوچھ سکتی تھی۔ نعیمہ میرے بارے میں جاننا چاہتی تھی مجھ سے شادی کا پوچھنا چاہتی تھی مگر میرے پاس نعیمہ سے پوچھنے کو کیا تھا!
نعیمہ جو تیز موٹر سائیکل چلایا کرتی، لڑکوں کو اسٹیج پہ چھکے مارا کرتی اسکول کی کچی دیوار پھلانگنے کے مقابلے جیت جایا کرتی تھی اب وہیل چئیر پہ ہے اور بالکل لا پرواہ ہے جیسے یہ بھی اس کے لیے فرسٹ ائیر کا رزلٹ ہو۔
نعیمہ کی آنکھ میں کوئی شکایت نہیں کوئی گلہ نہیں وہ اس قدر تسلی سے میرے پاس بیٹھی جیسے بہت دیر یونہی بیٹھی رہے گی۔ میں اس کے سوالوں کے جواب دیتی رہی اور وہ مجھے اپنے بارے میں بیچ بیچ میں بتاتی جاتی۔ نعیمہ کے چاکلیٹی رنگ کے ہاتھوں پہ نگاہ پڑی تو ذہن میں نقش ان کی پرانی ساخت اب بھی ویسے ہی نظر آئی۔
نعیمہ سے یہ آخری ملاقات تھی اور اس کے بعد ہم نہیں ملے۔ نعیمہ جو زندگی سے بھرپور تھی جو ہر وقت کسی مشن پہ رہتی تھی نئے معاشقے جس کا مشغلہ تھے اب زندگی کے ہاتھ چڑھ چکی تھی۔ اس پارک میں نظر آئی نعیمہ اب بالکل شانت تھی اب اس کا تعارف نہ ذہین اسٹوڈنٹس کے طور پر تھا نہ بدمعاش لڑکی کی طور پر اسے کوئی جانتا تھا۔ اس پارک میں دیکھنے والی ہر آنکھ کے لیے وہ ایک اپاہج ماں تھی جو اپنے بچے کو لے کر پارک میں آئی تھی مگر میرے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ نعیمہ کیا تھی میں سب کو بتانا چاہتی تھی کہ نعیمہ کیا چیز تھی مگر ہاتھوں سے وہیل چئیر کا چکا گھما کر جاتی نعیمہ کی پیٹھ دے کر مجھے شک گزرا کہ کیا واقعی نویں کلاس میں ملی نعیمہ حقیقت تھی یا یہ نعیمہ سچ تھی جو ابھی مجھ سے مل کے گئی۔

