Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. Aaj

Aaj

آج

آج کسی کھجور کے گچھے کی آخری کھجور بھی پک جائے گی۔ آج رات کسی پہر آم کے درخت پر بُر پھوٹے گا۔ گھنے جنگل کے وسط میں کوئی درخت ابھی گرا ہوگا۔ الوؤں کے گھونسلے میں اک نئے الو کا دل دھڑکا ہوگا جواں سالہ ہرن شیر کے منھ میں گھاس کو تکتا آخری سانسیں لے رہا ہوگا۔

زیبروں کا جھنڈ نیند سے اٹھ رہا ہوگا۔ گہرے پانیوں کی بوڑھی وہیل آج دم توڑ دے گی۔ آج کیچوؤں اور کیکڑوں پر خوشحالی لائے گی۔ آج زمین کی گرمائش میں پچھلے سات دنوں سے پڑے بیج کے منھ کو نائٹروجن کی عادت لگنے والی ہے۔ گاؤں والی خالہ کے گھر کی منڈیر پہ بیٹھا کوا روٹی پر جھپٹ رہا ہوگا، خالہ نے چِھٹیاں چولہے میں جھونک کر دن کی پہلی چائے پی لی ہوگی۔

گاؤں کے ادھیڑ عمر شکاری نے مرغابیوں کی موت بندوق میں بھر لی ہوگی۔ کہیں ایک تیتر گھاس میں چھپے جال میں پھنسا پھڑپھڑا رہا ہوگا۔ آج بوڑھا کسان شام کی چائے پینے کے بعد مرگیا، ہمسایہ گاؤں میں بیاہی کپڑے دھوتی اسکی گڑیا تک خبر پہنچتی ہی ہوگی۔ رضائیوں کو پیٹی میں رکھنے میں جُتی ماں کے جسم میں کینسر کے سیل آج پھیل رہے ہوں گے۔ ابھی کوئی شاعر نئی غزل کا سب سے کمزور شعر لکھ رہا ہوگا۔

آج، ابھی کتنا کچھ ہو رہا ہوگا کتنا کچھ ہوگا۔ آج بھاری بھی ہے آج عاری بھی ہے۔ آج درد سے لپٹی رہے گی آج چیخوں سے گونجتی رہے گی۔ آج سب سے لاپرواہ رہے گی آج سب کو مختلف لگے گی آج کسی کو مختلف نہیں لگے گی۔ آج پھر نہیں لوٹے گی، مگر آج کل بھی مل جائے گی۔

آج طلوع ہونے تک ہنگاموں میں بٹی رہے گی۔ آج موت ہوگی آج زندگی ہوگی آج کہیں کھلا کھلائے گی کہیں روندتی جائے گی۔ آج کئی جسم لپٹیں گے کئی جسم ادھڑیں گے۔ آج نئی کونپلیں پھوٹیں گی پرانے کانٹے چبھ کر چین پائیں گے۔ آج کھانوں سے بھری رہے گی۔ آج فاقوں میں لپٹی رہے گی۔

کمرا اندھیرے میں ڈوبائے وہ آدمی جو آج خاموشی سے گزارے گا کچھ نہیں کرے گا کچھ نہیں بولے گا کہیں نہیں جائے گا وہ آج کو گزرنے دے گا، آج اسے گزرنے دے گی۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz