Fizaon Ke Badshah Ka Faisla Ho Gaya
فضاؤں کے بادشاہ کا فیصلہ ہو گیا

دبئی ایئر شو کے وسیع و عریض منظر نامے پر پاکستان کے فخر جے ایف-17 تھنڈر نے ایک ایسے ستارے کی مانند چمک بکھیر دی جس کی روشنی ہر دیکھنے والے کی آنکھ کو خیرہ کر گئی۔ یہ محض ایک جنگی طیارہ نہیں تھا یہ پاک فضائیہ کے ہنرمند ہوا بازوں کے اعتماد مہارت اور عسکری طاقت کا جیتا جاگتا مظاہرہ تھا۔ جب تھنڈر نے آسمان کی وسعتوں میں اپنی پرواز کا آغاز کیا تو اس کی شاندار رفتار، ہوا میں بے مثال چالاکی اور "کلوز کوارٹر" کی سنسنی خیز پرفارمنس نے حاضرین پر سحر طاری کر دیا۔ اس نے جس خوبصورتی سے ہوا کو چیرا اور جس پھرتی سے بلند و بالا کرتب دکھائے وہ انجینئرنگ کے کمال اور جذبۂ ایمانی کا حسین امتزاج تھا۔ ایئر شو میں موجود عالمی دفاعی مبصرین سے لے کر عام ہوا بازی کے شائقین تک ہر ایک نے اس طیارے کی دمکتی ہوئی کارکردگی کو ایک غیر معمولی یادگار لمحہ قرار دیا، یوں یہ جیٹ طیارہ اپنی جدید ساخت اور پائلٹ کی جرات مندانہ اڑان کے سبب سب کی نگاہوں کا مرکزی نقطہ بن گیا۔
جے ایف-17 تھنڈر کی کارکردگی محض تکنیکی ڈیٹا یا نمبرز کا مجموعہ نہیں تھی بلکہ یہ آسمان پر نقش کیا گیا ایک ایسا شاندار فن پارہ تھی جو ہر دیکھنے والے کے دل میں اتر گیا۔ فضا میں اس کی آمد کسی خاموش طوفان سے کم نہ تھی انتہائی کم بلندی پر اس کی تیزی اور پھر ایک دم سیدھی بلند پرواز کا نظارہ ہوا بازوں کی مہارت اور مشین کے کمال کی گواہی دے رہا تھا۔ تھنڈر نے جس خوبصورتی اور پُراعتمادی سے "ورٹیکل کِلائم" اور "ہائی-جی مینیوورز" کا مظاہرہ کیا وہ حاضرین کو دنگ کر گیا۔ اس کی ہر جنبش میں ایک ناقابل تسخیر عزم جھلک رہا تھا جہاں طیارہ گویا پائلٹ کے اشاروں پر رقص کر رہا تھا۔ یہ کارکردگی جدید ایروڈائنامکس درست ہتھیاروں کی نقل و حرکت اور پائلٹ کی جگر دار جرات کا ایسا امتزاج تھی جس نے ثابت کر دیا کہ یہ ہلکا پھلکا لیکن مضبوط طیارہ کسی بھی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اپنی موجودگی کا لوہا منوانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ صرف ایک فلائٹ نہیں تھی یہ عسکری فنون کا ایک لازوال مظاہرہ تھا جو فضا کی ہر حد کو چھو رہا تھا۔
پاکستانی جے ایف-17 تھنڈر محض ایک طیارہ نہیں بلکہ یہ جنگ کی فضائی قوت میں ایک انقلابی تبدیلی کا نام ہے جہاں یورپی جنگی جہاز اپنی پُرآسائش قیمتوں اور دیکھ بھال کے بھاری اخراجات کے بوجھ تلے آتے ہیں وہیں تھنڈر جدید جنگی صلاحیتوں کو ایک انتہائی کفایتی قیمت پر پیش کرتا ہے۔ اس کی ساخت اور کارکردگی میں وہ تمام کلیدی خصوصیات شامل ہیں جو مہنگے ترین مغربی طیاروں میں پائی جاتی ہیں لیکن یہ معیشت اور مؤثر دیکھ بھال کے لحاظ سے کہیں زیادہ برتر ہے۔ تھنڈر کی یہ کم قیمت اور مضبوط کارکردگی اسے عالمی مارکیٹ میں ایک ناقابل شکست انتخاب بناتی ہے جو ثابت کرتی ہے کہ معیار کے لیے ضروری نہیں کہ قیمت آسمان کو چھوئے۔
جے ایف-17 تھنڈر کی کامیابی نے اسے عالمی دفاعی افق پر توجہ کا مرکز بنا دیا ہے اس کی غیر معمولی کارکردگی اور انتہائی کفایتی قیمت کے حسین امتزاج نے کئی ممالک کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ نہ صرف افریقی براعظم کی تیزی سے ابھرتی ہوئی دفاعی ضروریات رکھنے والی قومیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے کلیدی ممالک بھی اس طیارے کو اپنی فضائی قوت کے مستقبل کے لیے ایک حکمت عملی کی بصیرت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ بڑھتی ہوئی بین الاقوامی دلچسپی ثابت کرتی ہے کہ تھنڈر اب محض ایک مقامی کامیابی نہیں رہا بلکہ یہ معیار اور معیشت کی علامت بن کر عالمی مارکیٹ میں تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔
ایک طرف تو اللہ کریم کی کرم نوازیوں سے پاکستانی تھنڈر بلاک تھری پوری دنیا کی مارکیٹوں میں اپنی جگہ بنا رہا ہے تو دوسری طرف بدقسمتی نے ہندوستان کا ساتھ دبئی میں بھی نہ چھوڑا پہلے ان کے شو کیس ہوئے جہاز سے آئل لیکج شروع ہوگئی۔ جہاز میں یہ لیکج اور دیگر فنی نزاکتیں دراصل گہری بنیادی خامیوں کا شاخسانہ ہیں جو ہر چھوٹے پرزے میں درستگی کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ہندوستان کو اب اپنی ایرو ناٹیکل سروسز کو عالمی معیار کی بے عیب سختی اور غیر معمولی دقت سے دوبارہ استوار کرنا ہوگا اور عین ممکن ہے کہ ایسا کرنے میں دس سال بیت جائیں کیونکہ ہوا میں پائیداری صرف بہترین اور بے عیب انجینئرنگ کو قبول کرتی ہے۔ فضائی برتری کا خواب تب ہی مکمل ہوگا جب ان کی بنیادوں میں مستقل مضبوطی اور پائلٹوں کے اعتماد میں پختگی شامل ہوگی۔
دبئی ایئر شو میں شدید ترین ناکامی اور عالمی تنقید ہندوستانی ایئر فورسز کے پہلے سے ٹوٹے ہوئے حوصلے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگئی۔ ابھی تو وہ دس مئی کی ذلت آمیز شکست کی گرفت سے باہر نہیں نکلے تھے کہ ان کا فخر تیجس پرواز کے دو منٹ بعد ہی زمیں بوس ہوگیا جہاں یہ عالمی مارکیٹ میں نئے گاہک تلاش کرنے نکلے تھے وہیں عالمی سطح پر بدنامی شرمندگی اور ناکامی کا بوجھ لیے گھر کو لوٹ آئے۔
ہندوستانی فضائی قوت کا پرچم بردار طیارہ "تیجس" اگرچہ خود انحصاری کی ایک بلند کوشش تھا مگر اس کی حالیہ ناکامی نے ایک تلخ سبق دیا ہے۔ یہ محض حادثہ نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے ابتدائی سفر کی نزاکت کا آئینہ دار ہے۔ آسمان کا میدان بے رحم ہوتا ہے جہاں انجینئرنگ کی معمولی ترین کمزوری بھی تباہ کن نتائج لاتی ہے۔ تیجس کی تباہی ان نادیدہ فنی خامیوں، گدھے کو گھوڑا بنانے کی کوششوں، ہندوستانی تکبر اور غرور کی نشاندہی کرتی ہے جو کسی بھی نئے دفاعی پلیٹ فارم کی تخلیق کے نازک مراحل میں موجود رہتی ہیں اور یہ واقعہ ایک بڑے چیلنج کی صورت میں ان کے سامنے کھڑا ہے۔
یہ واقعہ خواہ وہ کسی بھی ملک کے ساتھ پیش آیا ہو ایک المناک حادثہ ہے۔ فضائی حادثات انتہائی پیچیدہ ہوتے ہیں اور ان کے پیچھے عملے کی مہارت یا کمزوری سے زیادہ تکنیکی موسمی یا دیگر غیر متوقع عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی فوجی یا شہری پائلٹ کی ناکامی کا تمسخر اڑانا یا اسے دشمن کی شکست قرار دینا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ یہ ہمارے اپنے اندر کے انسانی جوہر کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
آج اگر ایک پڑوسی ملک کے افراد کسی مشکل سے دوچار ہیں تو ہمارا ردعمل طنز و تشنیع کی بجائے افسوس اور تعزیت پر مبنی ہونا چاہیے۔ ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ حادثات کسی کی سرحد یا قومیت دیکھ کر نہیں آتے غرور اور تکبر دراصل وہ خطرناک اڑان ہیں جس سے کسی بھی لمحے پائلٹ کا کنٹرول ختم ہو سکتا ہے اور انسان زمیں بوس ہو جاتا ہے۔ ہمیں ایک ذمہ دار قوم کی حیثیت سے اپنے رویوں میں عاجزی، پیشہ ورانہ احترام اور خیر سگالی کو فروغ دینا چاہیے تاکہ ہم اپنے عمل سے دنیا کے سامنے ایک مثبت مثال قائم کر سکیں۔

