Dushman Se Khairat Ki Talab
دشمن سے خیرات کی طلب

پاکستان میں عمران خان کا دورِ اقتدار اگست 2018 میں شروع ہوا جب ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو عام انتخابات میں کامیابی دلوائی گئی۔ یہ دور تقریباً ساڑھے تین سال پر محیط رہا اور اپریل 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اس عرصے میں انہیں ان کے اپنے ہی دور کے پیدا کردہ کئی اہم چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے بڑی مشکلات میں معاشی بحران سرفہرست رہا جس میں روپے کی قدر میں نمایاں کمی، بلند مہنگائی کی شرح، بغیر کوئی ترقیاتی کام کیے قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ اور تمام دوست ممالک سے تعلقات خراب کرنا شامل تھا۔
معیشت کی سست روی اور آئی ایم ایف کے سخت پروگرام نے عام آدمی پر شدید دباؤ ڈالا، اس کے علاوہ سیاسی محاذ پر حکومت کو اپوزیشن کے ہومیوپیتھک ردعمل اور اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کے اتار چڑھاؤ کا اور اپنی حکومت کے انویسٹرز اور غیر سیاسی افراد کی کرپشن اور من مانیوں کا سامنا رہا جس سے سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوا اور حکومتی کارکردگی صفر ہوگئی لیکن مجموعی طور پر عمران خان کے دورِ اقتدار کو شدید ترین معاشی بدحالی، کرپشن، مہنگائی، لاقانونیت اور گہری سیاسی پولرائزیشن کے لیے یاد رکھا جائے گا۔
اس دور کو اگر پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور کہہ لیا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا، جس نے ملک کے لیے ایک مشکل راستہ ہموار کیا۔
اس وقت عمران خان جیل میں مختلف نوعیت کے قانونی مقدمات اور ان کی وجہ سے سنائی گئی۔ سزاؤں کے سبب زیر حراست ہیں ان کے خلاف درج مقدمات کا دائرہ وسیع ہے لیکن قید کی بنیادی وجوہات میں دو نمایاں عدالتی سزائیں شامل ہیں۔ پہلا اور سب سے اہم مقدمہ توشہ خانہ کیس ہے جس میں انہیں سرکاری تحائف کو بیچنے اور ان کے اثاثوں کی تفصیلات کو مبینہ طور پر چھپانے کے الزام میں سزا سنائی گئی۔ دوسرا بڑا معاملہ سائفر کیس ہے جس میں ان پر ریاست کے خفیہ سفارتی کیبل (سائفر) کو عوامی سطح پر لانے اور اس کے غلط استعمال کا الزام عائد کیا گیا جسے ملک کے سرکاری رازوں کے تحفظ کے قانون (آفیشل سیکرٹس ایکٹ) کی خلاف ورزی سمجھا گیا۔ ان دو سزاؤں کے علاوہ ان کے خلاف نو مئی کے پرتشدد واقعات میں مبینہ کردار، مالی بے ضابطگیوں 190 ملین پاؤنڈ کرپشن اور دیگر الزامات پر مبنی بے شمار مقدمات زیر سماعت ہیں جو ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں گہری قانونی اور سیاسی کشمکش کی عکاسی کرتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم کی بہن نورین خان کی انڈین میڈیا سے گفتگو نے پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے یہ گفتگو بنیادی طور پر ان خاندانوں کی آواز بن کر سامنے آئی جن کو یہ لگتا ہے کہ انہیں موجودہ حکومت کی طرف سے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے نورین خان نے اپنی گفتگو میں کھل کر اس بات پر زور دیا کہ عمران خان کو جس طرح کے سیاسی اور قانونی چیلنجز کا سامنا ہے وہ صرف پاکستان کے اندرونی معاملات ہی نہیں بلکہ علاقائی سطح پر بھی تشویش کا باعث ہیں۔
ان کا مرکزی نقطہ یہ کہ عمران خان کے خلاف کیے گئے تمام اقدامات سیاسی محرکات پر مبنی ہیں اور ان کا مقصد ان کی مقبولیت کو کم کرنا اور انہیں سیاست سے دور رکھنا ہے۔ انہوں نے اپنے بھائی کو ایک نظریاتی قیدی قرار دیا اور ان پر کئے گئے مقدمات خصوصاً سائفر کیس اور توشہ خانہ کیس کو بے بنیاد اور انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا جو یقیناََ ان کا ذاتی خیال ہو سکتا ہے۔
نورین نیازی کی بیک وقت انڈیا کے پانچ چھ چینلز سے بات چیت یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ خود یہ سارا انتظام نہیں کر سکتیں بلکہ یہ سارے ارینجمنٹس پی ٹی آئی کی طرف سے کیے گئے ہیں۔ ان کا تو بس نہیں چلتا ورنہ یہ لوگ ریاست پر عمران خان کو ہر طرح سے ترجیح دیتے حالانکہ نورین نیازی کے لیے پاکستانی میڈیا چینلز حاضر تھے وہ جس چینل یا اخبار سے رابطہ کرتیں وہ یقیناََ انہیں اپنے پروگرام میں بلا کر موقف پیش کرنے کا موقع فراہم کرتا لیکن ان کے انڈین میڈیا چینلز کو انٹرویو نے بہت سے شکوک و شباہت کو جنم دیا ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ انڈین میڈیا یا انڈین حکومت پاکستان کے داخلی معاملات میں کیا مداخلت کر سکتی ہے۔ جتنا پاکستان نے مودی اور ہندوستان کو ذلیل و خوار کیا ہے میرا خیال ہے کہ اگر ان کے پاس اختیار بھی ہوتا تب بھی وہ پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچتے یہ ماننا پڑے گا کہ پی ٹی آئی نے بہت بڑا فاول کھیلا ہے اور اس کا خمیازہ اس کو مستقبل میں بھگتنا پڑے گا۔
حالانکہ یہ سب جانتے ہیں کہ عمران خان بلاوجہ جیل میں نہیں ہے ان پر جتنے بھی الزامات ہیں ان میں سے زیادہ تر سچ ثابت ہو چکے ہیں اور باقی مکافات عمل بھی کوئی چیز ہے لیکن جانتے بوجھتے یہ لوگ ایسی حرکتیں کر رہے ہیں کہ خان صاحب کے لیے مزید پریشانیاں کھڑی ہو سکیں۔
میرا خیال ہے کہ ان کی یہ حرکتیں ایک صوبے میں جہاں ان کی حکومت ہے اس کو بھی لے ڈوبیں گی عین ممکن ہے کہ ان کا یہ جارحانہ رویہ سہیل آفریدی صاحب کی حکومت کا خاتمہ کرکے کے پی کے میں گورنر راج نافذ کرنے پر مجبور کر دے اور پتہ نہیں کیوں میں ایسا مستقبل قریب ہوتا دیکھ رہا ہوں۔
انڈین میڈیا پر یہ گفتگو ملک کے اندر اور بیرون ملک، اس تاثر کو تقویت دینے کی ایک ناکام کوشش رہی کہ پی ٹی آئی کا موقف ایک مظلوم سیاسی جماعت کا ہے جسے ایک بڑے کھیل کے تحت ہدف بنایا جا رہا ہے نورین خان کی اس آہ و زاری کے کیا مقاصد تھے ابھی تک شاید انہیں خود نہیں معلوم جس نے پاکستانی سیاسی مبصرین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا کہ یہ بیانیہ قومی مفاد میں ہے یا نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے سیاسی بیانیے کو ایک نیا زاویہ ضرور دیا ہے۔
پاکستان کے سیاسی ماحول میں حریف جماعتوں کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف پر ایک مخصوص بیانیہ تواتر سے دہرایا جاتا رہا ہے کہ اسے ملک کے نظام کو مفلوج کرنے کی غرض سے بی جے پی سے مالی امداد حاصل ہے۔ یہ الزام ایک انتہائی سنسنی خیز اور نازک نوعیت کا ہے کیونکہ اگر کبھی اس کے شواہد مل گئے تو یہ پی ٹی آئی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔
یہ بات بھی بہت جگہوں پر کہی جا رہی ہے کہ ہندوستان تحریک انصاف کو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر فنڈز فراہم کر رہا ہے تاکہ سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی بحران کو مزید تقویت دی جا سکے پی ٹی آئی ان دعوؤں کو ہمیشہ ایک تضحیک آمیز پروپیگنڈا قرار دے کر مسترد کرتی رہی ہے۔
یہ مبینہ فنڈنگ کا معاملہ بنیادی طور پر ایک سیاسی ہتھیار بن چکا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان گہری سیاسی پولرائزیشن اور عدم اعتماد کی عکاسی کرتا ہے بجائے اس کے کہ یہ کوئی مصدقہ حقیقت ہو۔
کسی بھی پاکستانی شہری بشمول نورین خان کی جانب سے غیر ملکی میڈیا بالخصوص انڈین میڈیا سے پاکستان کے داخلی معاملات پر گفتگو کرنا ملک کی سیاسی اور سفارتی حساسیت کے پیش نظر ایک نازک معاملہ ہے۔ ریاستِ پاکستان کو اس صورتحال پر ردعمل دیتے ہوئے انتہائی متوازن اور قانونی طریقہ کار اپنانا چاہیے۔ اگرچہ ایک شہری کو اپنی رائے کا حق ہے لیکن اگر گفتگو میں قومی مفادات یا ریاستی سلامتی کو نقصان پہنچانے والا کوئی عنصر شامل ہو تو ریاست قانونی طور پر اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔
ریاست کا ردعمل قانونی پہلوؤں پر مرکوز ہونا چاہیے جبکہ کسی بھی سیاسی نقصان کا سامنا کرنا مکمل طور پر پی ٹی آئی کے داخلی حکمت عملی پر منحصر ہوگا۔
کسی بھی پاکستانی شخصیت کی طرف سے کسی غیر ملکی حکومت کو اپنے داخلی معاملات کی روداد سنانا شاید فائدے کی بجائے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور بالخصوص جب کسی دشمن ملک سے رابطہ کرکے یہ کہانیاں سنائی جائیں ان کہ اس انٹرویو سے تو صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ دشمن سے ہمدردی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔

