Dharti Khiraj Mangti Hai
دھرتی خراج مانگتی ہے

ہم اس پار کھڑے روز و شب اُس پُل کی تعمیر کا جشن سنتے ہیں جو ہمیں بہتر زندگی کے وعدوں کی سرزمین تک لے جائے گا مگر جب گرد ہٹتی ہے تو پہلی حقیقت یہ آشکار ہوتی ہے کہ اُس پار کی سب سے بڑی محرومی انصاف اور یکساں مواقع کا فقدان ہے۔ یہاں غریب کا مقدمہ سالوں فائلوں میں دب کر مر جاتا ہے جبکہ امیر کی ضرورت کو فی الفور عمل درآمد حاصل ہے یہ وہ بنیادی خلیج ہے جو کسی بھی سڑک، میٹرو، گلاس ٹرین، ٹرام یا کسی ایکسپریس وے سے پوری نہیں ہو سکتی۔
اس سے بھی زیادہ کرب ناک مسئلہ یہ ہے کہ آج بھی کروڑوں گھروں میں دو وقت کے نوالے کی جنگ جاری ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری نے سب سے پہلے غریب کی عزتِ نفس کو گِروی رکھا ہے۔ اُس پار کا خواب پُرتعیش سڑکیں نہیں بلکہ وہ ضمانت ہے کہ ہر بچے کو بغیر کسی تفریق کے معیاری تعلیم ملے گی اور ہر مریض کو بل ادا کرنے کی فکر کیے بغیر علاج میسر آئے گا۔ اے اہلِ اقتدار پُل کے اُس پار صرف اندھیرا نہیں وہاں آپ کی حکمرانی کا حقیقی امتحان موجود ہے اور عوام اسی امتحان کے نتائج کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔
میں ہرگز موٹرویز سڑکوں میٹرو ٹرینز اور اس طرح کی جدت کے خلاف نہیں ہوں لیکن برائے کرم پل کے اس پار بھی دیکھیے آپ کو دل دہلا دینے والے حالات نظر آ ئیں گے۔ میرا گزشتہ ہفتہ پنجاب کے جنوبی علاقوں میں گزرا ہے یہ حقائق میں وہاں سے اکٹھے کرکے لایا ہوں۔
یہ منظرنامہ ایک کسان کی محنت، حکومت کے کمزور وعدے اور سرمایہ داروں کی بے لگام منافع خوری کے درمیان موجود تلخ حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ کسان نے سرکار کے اعلان پر گندم کاشت کی، اس بھروسے پر کہ حکومت بائیس سو روپے فی من کے طے شدہ نرخ پر اس کی ساری فصل خریدے گی لیکن فصل تیار ہونے پر حکومتی خریدار کہیں نظر نہیں آیا جس کا سیدھا فائدہ نجی تاجروں اور آڑھتیوں نے اٹھایا۔ کسان کو اپنی مجبوری اور مالی ضروریات کے باعث وہی گندم کم داموں پر انہی سرمایہ داروں کے ہاتھ بیچنا پڑی۔ چند ماہ کے وقفے کے بعد وہی ذخیرہ شدہ گندم اب منڈی میں چار ہزار روپے فی من کے حساب سے فروخت ہو رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کسان کی محنت کا حقیقی منافع کس طرح ذخیرہ اندوزی کی نذر ہوگیا۔
اس صورتحال میں کسان تو غریب سے غریب تر ہوتا چلا گیا جبکہ عام صارف کو مہنگائی کا بوجھ اٹھانا پڑا ایسے حالات پر قابو پانے کے لیے بھارت کی حکومت نے ایک مؤثر طریقہ اپنایا وہاں حکومت نے فصل کی بوائی سے پہلے ہی کم از کم امدادی قیمت طے کر دی اور فوڈ کارپوریشن آف انڈیا نامی سرکاری ادارے کے ذریعے کسانوں سے براہِ راست گندم کی بڑی مقدار خرید کر اپنا احتیاطی ذخیرہ بنا لیا۔ یہ اقدام یقینی بتاتا ہے کہ کسان کو اس کی فصل کی مناسب قیمت ملے اور نجی تاجر سرکار کی طے کردہ قیمت سے کم پر خریداری نہ کر سکیں۔ جب بھی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں حکومت اپنے ذخیرہ سے گندم نکال کر منڈی میں لاتی ہے تاکہ قیمتوں کو قابو میں رکھا جا سکے میرا خیال ہے کہ اچھی مثال دشمن سے ہی کیوں نہ ملے اسے اپنا لینا چاہیے۔
اگر یہ دل شکن صورتحال اس سال بھی دہرائی گئی اور حکومت نے کسان کو اس کی محنت کا پھل دینے سے منہ موڑ لیا تو اس کا رد عمل صرف انفرادی نہیں بلکہ ملکی سطح کا بحران بن سکتا ہے۔ کسان جو پچھلے سال کے نقصان کا داغ ابھی تک مٹا نہیں سکا اب حکومتی وعدوں سے مکمل طور پر مایوس اور بے اعتبارا ہو جائے گا۔ اس کی ساری امیدیں ٹوٹ جائیں گی اور یہ مایوسی ایک شدید احتجاج کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ کسان اپنی فصلیں سڑکوں پر پھینکنے بڑے شہروں کا رخ کرنے یا زراعت سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس نظام میں محنت صرف سرمایہ دار کے لیے منافع کا ذریعہ بنتی ہے۔
یہ ردعمل ملکی معیشت کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوگا زراعت جو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے شدید متاثر ہوگی۔ کسان گندم جیسی اہم فصلیں اگانا چھوڑ کر کم لاگت والی فصلوں کی طرف منتقل ہو جائیں گے یا پھر فصلوں کی پیداوار میں نمایاں کمی آئے گی یا پھر وہ اپنی زمینیں کارپوریٹ فارمنگ کے آپ کے کارپوریٹ زمینداروں کے لیے خالی چھوڑ دے گا۔ اس کا سیدھا نتیجہ خوراک کی قلت، درآمدی بل میں ہوش ربا اضافہ اور خوراک کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا جس سے عام آدمی کا یومیہ گزارہ مشکل ہو جائے گا۔ اس طرح کسان کے ٹوٹے ہوئے اعتماد کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا جس سے ملکی معاشی استحکام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
محترمہ وزیراعلی پنجاب کسان صرف ووٹر یا زمین کا ٹکڑا نہیں ہے وہ اس دھرتی کا بیٹا اور ہماری قومی خوراک کی سلامتی کا ضامن ہے کسان کے ٹوٹے ہوئے اعتماد اور اس کی بربادی کو روکنے کے لیے اب رسمی اعلانات کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ یہ تجاویز صرف پالیسیاں نہیں ہیں بلکہ ایک مضبوط زرعی مستقبل کی بنیاد ہیں جنہیں فوراً اپنایا جانا چاہیے۔
گندم کی کم از کم امدادی قیمت کو صرف ایک اعلان نہیں بلکہ قانونی گارنٹی بنایا جائے۔ حکومت یہ عہد کرے کہ منڈی میں قیمت اس نرخ سے نیچے نہیں گرے گی اس گارنٹی کو کامیاب بنانے کے لیے صوبے بھر میں گندم خریداری مراکز کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کیا جائے اور چھوٹے کسانوں سے پہلے خریدنے کی ترجیح دی جائے۔
سرکاری خریداری کے عمل کو شفافیت پر مبنی کیا جائے۔ فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بہتر بنایا جائے۔ کسانوں کو باردانہ اور خریداری کی پرچیوں کے لیے دفاتر کے چکر نہ لگانے پڑیں بلکہ یہ عمل ایپ پر مبنی اور آسان ہو۔ خریداری کے بعد کسان کو ادائیگی چوبیس گھنٹے کے اندر اس کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے تاکہ اسے مالی مجبوری کے تحت آڑھتی کے پاس نہ جانا پڑے۔
نجی سرمایہ داروں کی ذخیرہ اندوزی کو سختی سے روکا جائے صوبے میں گندم کے بڑے ذخیرہ کرنے والے گوداموں کی رجسٹریشن اور باقاعدہ نگرانی کا نظام نافذ کیا جائے اور غیر رجسٹرڈ یا ناجائز ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف مثالی کارروائی کی جائے تاکہ مصنوعی قلت پیدا کرکے قیمتیں بڑھانے کی حوصلہ شکنی ہو۔
زرعی قرضوں پر آسان شرائط
چھوٹے کسانوں کے لیے سود سے پاک یا بہت کم شرح سود پر چھوٹے قرضوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ انہیں فصل کی بوائی یا کٹائی کے دوران فوری اخراجات کے لیے ساہوکاروں کے پاس نہ جانا پڑے اور وہ مجبوری میں اپنی فصل فوری نہ بیچیں۔
ان تجاویز پر عمل درآمد سے کسان کا اعتماد بحال ہوگا وہ پوری لگن سے اگلی فصل کی طرف متوجہ ہوگا اور ملکی معیشت کے استحکام کا یہ اہم ستون مضبوط ہو جائے گا پنجاب کی خوشحالی کسان کی خوشحالی سے جڑی ہے براہ کرم اس آواز کو سنیں اور عمل کریں۔
عزت مآب وزیر اعلیٰ پنجاب دھرتی کے محافظ کا ٹوٹا اعتماد جوڑ دیجیے
ہم آپ کی خدمت میں پنجاب کے کسانوں کی آواز لے کر حاضر ہوئے ہیں جن کی جبینوں کا پسینہ اس دھرتی کا رزق ہے گزشتہ سالوں میں حکومتی وعدوں کی بے وفائی اور منڈی میں موجود سرمایہ داروں کے بے رحم استحصال نے ہمارے کسان کی کمر توڑ دی ہے وہ کسان جس نے آپ کے کہنے پر گندم اگائی آج بے بسی کی تصویر بنا کھڑا ہے کیونکہ اس کی محنت کا ثمر ناجائز منافع خوروں کی جیب میں چلا گیا۔
ترقی اور استحکام کی حقیقی مثالیں اگر ہمیں درکار ہیں تو ہمیں دبئی، سعودی عرب، بحرین، قطر اور کویت جیسے خلیجی ممالک کی جانب دیکھنا چاہیے۔ ان ممالک نے جن کی خوراک کا بڑا حصہ باہر سے آتا ہے اپنے عوام کو کبھی بھی قلت یا ذخیرہ اندوزی کے عذاب سے دوچار نہیں ہونے دیا وہاں حکومتی منصوبہ بندی اور نگرانی اس قدر مضبوط اور فولادی ہے کہ نجی سرمایہ کار عوام کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ان ریاستوں میں طلب و رسد کا شفاف نظام اور کڑی حکومتی نگرانی اس بات کی ضمانت ہے کہ منافع خوری قومی استحکام پر حاوی نہیں ہو سکتی۔
میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ ان خلیجی برادر ممالک کے کامیاب ماڈل کا بغور مطالعہ کریں اور پنجاب میں بھی اسی طرح کی طاقتور انتظامی گرفت قائم کریں تاکہ ہمارے کسان اور عام شہری بھی قلت اور مہنگائی کے مستقل خوف سے آزاد ہو کر معاشی تحفظ کا سانس لے سکیں۔ میری آپ سے دردمندانہ التجا ہے کہ صرف رسمی اعلانات پر اکتفا نہ کیجیے بلکہ عملی طور پر حکومتی خریداری کے نظام کو شفاف تیز اور مضبوط بنائیے۔
گندم کی کم از کم قیمت کو محض اعلان نہیں بلکہ قانونی تحفظ دیجیے اور کسان کو اس کی فصل کی ادائیگی فوری اور مکمل یقینی بنائی جائے۔ برائے مہربانی ذخیرہ اندوزی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور چھوٹے کسان کو ساہوکاروں کے چنگل سے نجات دلائیں۔ آپ کا ایک دلیرانہ فیصلہ ہمارے پنجاب کو خوراک میں خود کفیل بھی بنا دے گا اور اس غریب کسان کا ٹوٹا ہوا اعتماد بھی بحال کر دے گا کسان کی خوشحالی ہی اصل میں پنجاب کی خوشحالی ہے۔

