Deewar Ke Us Par Ki Sazish
دیوار کے اُس پار کی سازش

ارضِ پاک آج پھر ایک نئے خاموش مگر مہلک چیلنج سے نبرد آزما ہے ایک ایسی دہشت گردی جو بظاہر شکست خوردہ نظر آتی تھی مگر اب ایک زہریلے سانپ کی طرح اپنا سر دوبارہ اٹھا رہی ہے۔ یہ صرف کیڈٹ کالج وانا اور اسلام آباد میں ہونے والے خون آشام دھماکوں کا نام نہیں بلکہ یہ قوم کی اجتماعی نفسیات پر گہرا وار ہے جو ترقی کی امنگوں اور استحکام کے خوابوں کو دھندلا رہا ہے۔ اس نئی لہر کے نقصانات کو محض جانی و مالی خسارے تک محدود نہیں کیا جا سکتا اصل زخم تو یقین و اعتماد کے رشتوں پر لگ رہا ہے جہاں ہر صبح اپنے ساتھ خوف اور بے یقینی کا نیا بوجھ لاتی ہے۔
تعلیمی اداروں، کھیل کے میدانوں کا سنسان ہونا سرمایہ کاری کا رُک جانا اور سرحدی علاقوں میں پھر سے بجتا طبل جنگ یہ سب اس غیر مرئی جنگ کا شاخسانہ ہیں جو ایک پوری نسل کے مستقبل کو یرغمال بنانے کی کوشش میں ہے۔ اس ناسور کا مقابلہ صرف عسکری قوت سے نہیں بلکہ فکر و تدبر، قومی یکجہتی، جدید ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ اور عزمِ نو کی روشنی سے کرنا ہوگا تاکہ اس مٹی پر پھر سے امن کا پرچم بلند ہو سکے۔ ریاست پاکستان کو یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ افغانستان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں لیکن ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔
افغان طالبان کی جانب سے پاکستان میں جاری دہشت گردی کا یہ سلسلہ صرف بندوقوں اور بارودی مواد کا تبادلہ نہیں بلکہ ہمارے مشترکہ سماجی تاریخی اور اخلاقی تانے بانے کو چیلنج کرنے والا ایک شدید المیہ ہے۔ یہ صرف سرحدوں کا تنازعہ نہیں بلکہ ایک ایسی گہری رگ کا کھینچاؤ ہے جو دونوں اطراف کے عوام کے دلوں میں پیوست ہے وہ پاکستان سے بظاہر کیا چاہتے ہیں؟ ان کا مطالبہ محض یہ نہیں کہ پاکستان اپنی سرحد پر باڑ ہٹائے یا کچھ عسکریت پسند گروپوں کو کھلی چھوٹ دے۔ آسان الفاظ میں انہیں ہر طرح کی سمگلنگ، دہشت گردی اور اپنی من مانی کا لائسنس جاری کر دے بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر وہ ایک نظریاتی تسلیم چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ان کی حکومت کو نہ صرف تسلیم کرے بلکہ ان کے مخصوص نظریاتی فریم ورک کو بھی اس خطے میں سیاسی اور سٹریٹجک حقیقت کے طور پر قبول کرے اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں تمام تر وہ سہولتیں دے دیں جو انہیں ماضی میں میسر تھیں۔
اس مطالبے کے پیچھے ایک تاریک خواہش چھپی ہے وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنی پالیسیوں کو ان کے اصولوں کے مطابق ڈھالے۔ یہ بات ہر درد مند دل پر بوجھ ہے کہ یہ خواہش ہماری قومی سالمیت اور خود مختاری پر براہ راست حملہ ہے۔ یہ وہ آگ ہے جس کی تپش نے دونوں اطراف کے معصوم انسانوں کے گھروں کو راکھ کیا ہے اور یہ سوال کہ "وہ کیا چاہتے ہیں؟" دراصل ہر پاکستانی کی وہ دبی ہوئی چیخ ہے جو اس ظلم کے خاتمے کی متمنی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی اس لہر کے پیچھے افغانستان کو کون مدد فراہم کر رہا ہے، یہ سوال محض سیاسی قیاس آرائیوں کا میدان نہیں بلکہ ایک ایسی زخمی حقیقت ہے جو اس خطے کے استحکام کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ یہ سوچ کر ہی دل کانپ اٹھتا ہے کہ جب ہمارے پڑوس میں ایک ایسی حکومت ہے جو بظاہر خود بھی معاشی اور انتظامی مشکلات کا شکار ہے تو آخر کون سی خفیہ قوتیں ہیں جو اسے پاکستان کے خلاف پراکسی وار کے لیے ہتھیار، مالی وسائل اور لاجسٹک مدد فراہم کر رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں اور سیکورٹی ماہرین کی انگلیاں ہندوستان، اسرائیل اور مختلف علاقائی و بین الاقوامی اداکاروں کی طرف اٹھتی ہیں۔ وہ قوتیں جن کے اپنے سرد جنگی ایجنڈے ہیں اور جو نہیں چاہتیں کہ پاکستان اور افغانستان پُرامن ہمسائے بنیں۔ اس تاریک کھیل میں افغانستان کی سرزمین محض ایک مہرہ بن کر رہ گئی ہے جسے کوئی نامعلوم یا جانے پہچانے ہاتھ اپنے مفادات کی شطرنج پر چلا رہا ہے۔ یہ ہاتھ شاید وہ ہیں جو اس خطے میں عدم استحکام کے بیج بو کر اپنی جیو پولیٹیکل طاقت کو بڑھانا چاہتے ہیں اور اس عمل میں ہماری بہنوں، بھائیوں اور بچوں کا خون بہہ رہا ہے۔ اس المیے کا سب سے دردناک پہلو یہی ہے کہ دہشت گردی کا یہ کاروبار کسی دوسرے کی ناپاک سٹریٹجک خواہشات کی قیمت پر جاری ہے۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز دہشت گردی کی اس نئی لہر سے نبرد آزما ہونے کے لیے محض دفاعی پوزیشن پر نہیں ہیں بلکہ انہوں نے ایک فعال گہری اور پرعزم حکمتِ عملی کی بنیاد رکھی ہے۔ یہ تیاری صرف گولیوں اور بارود کے تبادلے تک محدود نہیں بلکہ اس میں انٹیلی جنس کی گہرائی سرحدوں کے مؤثر انتظام اور جدید جنگی صلاحیتوں کا ادغام شامل ہے۔ ہمارے جوان سرحدوں کی خاردار باڑ کی کڑی نگرانی کو یقینی بنا رہے ہیں تاکہ دشمن کسی بھی صورت دراندازی نہ کر سکے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ دوسری طرف سے مذہبی شدت پسندی کی آڑ میں پراکسی وار کھیلی جا رہی ہے وہ انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز کے ذریعے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس اور ٹھکانوں کو شہروں کے دلوں اور پہاڑوں کی گہرائیوں میں تلاش کرکے تباہ کر رہے ہیں۔
یہ سکیورٹی فورسز ملک کی قومی سلامتی اور ہر شہری کے تحفظ کے لیے اپنے وسائل کو منظم کر رہی ہیں جہاں تربیت کو جدید جنگی تقاضوں کے مطابق ڈھالا گیا ہے اور یہ عزم ہے کہ جب تک اس خطے سے آخری دہشت گرد کا صفایا نہیں ہو جاتا یہ جدوجہد اور یہ قومی ذمہ داری جاری رہے گی۔ ان کی یہ تیاری دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ قوم کا عزم اور ہمارے شہیدوں کا لہو دہشت گردوں کی طاقت سے کہیں زیادہ مضبوط اور ناقابلِ تسخیر ہے۔
ہندوستان ابھی تک دس مئی والی عبرت ناک شکست کو نہیں بھولا وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ پاکستان کا مقابلہ سیدھی جنگ میں نہیں کر سکتے انہیں ہر صورت ٹو فرنٹ وار چاہیے تاکہ ایک طرف پاکستانی فورسز افغانستان کے ساتھ مصروف ہوں تو دوسری طرف سے وہ اپنی شر انگیز کاروائیاں کر سکیں۔ اسی ضمن میں انہوں نے افغانستان میں پیسہ پھینکا تاکہ وہ پاکستان کو دہشت گردی سے زخمی کر سکیں اور افغانیوں کی دو عادات بہت مشہور ہیں یا تو یہ پیسے کی زبان سمجھتے ہیں اور یا جوتوں کی اور یاد رہے کہ ریاست پاکستان انہیں ایک پیسہ بھی نہیں دے گی اور جہاں تک رہی دوسری آپشن اس کے لیے ہم ہر پل تیار ہیں انہیں خود سوچنا چاہیے کہ جس ریاست نے اپنے سے دس گنا بڑی طاقت کی آ تما رول دی تو پھر یہ طالبان کس کھیت کی مولی ہے۔
ریاست پاکستان دہشت گردی کی ان سنگین کارروائیوں کا بدلہ صرف خون کے بدلے خون سے نہیں لے گی بلکہ اس کا ردعمل ایک سنجیدہ سٹریٹجک اور پائیدار قومی عزم پر مبنی ہوگا۔ یہ جواب کسی وقتی جوابی کارروائی سے کہیں زیادہ گہرا اور فیصلہ کن ہوگا جہاں ہماری سکیورٹی فورسز انٹیلی جنس کی برتری اور آپریشنل مہارت کے ذریعے نہ صرف دہشت گردوں کی عسکری قوت کو ختم کریں گی بلکہ ان کی نظریاتی اور معاشی بنیادوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے اصل بدلہ یہ ہوگا۔
اگر افغان طالبان میں عقل ہوتی تو جس طرح ہمارے دو معتبر مسلم برادر ممالک قطر اور ترکی نے امن کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی تھی تو یہ ان کی بات مان جاتے لیکن ہندوستان کی شیہہ نے انہیں اس بات پر رضامند نہ ہونے دیا۔
ہم پر اب لازم ہو چکا ہے کہ ہم اپنے ملک کی اقتصادی ترقی اور سماجی ہم آہنگی کو مزید مضبوط کریں، سرحدوں کو فولادی عزم کے ساتھ محفوظ بنائیں اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ پاکستان اب کسی بھی پراکسی ایجنڈے یا غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں یرغمال نہیں بن سکتا۔ ہماری کامیابی دراصل خطے میں پائیدار امن کی بنیاد رکھنا ہوگی جہاں ریاست اپنے شہریوں کو مکمل تحفظ فراہم کرے گی اور اس تاریک دور کو روشن مستقبل سے بدل دے گی یہی وہ حقیقی اور مؤثر بدلہ ہے جو شہیدوں کے لہو کی حرمت کو بھی قائم رکھے گا اور دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو بھی ہمیشہ کے لیے دفن کر دے گا۔

