Mazah Aur Art Ka Jadu
مزاح اور آرٹ کا جادو
زندگی کو اگر چائے سمجھیں تو مزاح اس کی پتی ہے اور فنونِ لطیفہ وہ شکر ہے جو مٹھاس پیدا کرتی ہے۔ اب سوچیں، بغیر پتی اور شکر کی چائے کیسی لگتی ہے؟ بالکل ویسی ہی جیسے بغیر ہنسی مذاق اور آرٹس کی زندگی، بے ذائقہ، بے روح اور ایسی کہ پی کر بھی گھنٹوں منہ بنائے بیٹھے رہیں۔ آج بات کرتے ہیں ایک ایسی چیز کی جو ہماری زندگی کو روشن، خوشگوار اور کبھی کبھار تو قابلِ برداشت بھی بنا دیتی ہے۔ مزاح اور فنون کی۔ ہمارے پیارے پاکستان میں، جہاں ٹریفک جام ہماری ٹو ڈو لسٹ سے لمبے ہوتے ہیں اور "انشاءاللہ" کا مطلب اکثر "شاید اگلے سال" ہوتا ہے، ایک اچھا لطیفہ یا خوبصورت فن پارہ ہمارے لیے کتنا اہم ہے۔
پہلے بات کرتے ہیں مزاح کی۔ پاکستان میں مزاح کی جڑیں بہت گہری ہیں، چاہے وہ پرانے زمانے کی سٹیج پرفارمنس ہوں یا آج کل کے سٹینڈ آپ کامیڈینز۔ مزاح صرف تفریح نہیں، یہ تو تناؤ کا دشمن ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ہنسی ہماری قوتِ مدافعت بڑھاتی ہے، تناؤ کم کرتی ہے اور دل کی صحت کو بہتر بناتی ہے اور ہاں، جب ہم سب مل کر ہنستے ہیں، تو وہ لمحہ ہمارے دلوں کو جوڑ دیتا ہے، دوستانہ بناتا ہے اور امید کی کرن دکھاتا ہے۔
اب آتے ہیں آرٹس کی طرف۔ آرٹس صرف پینٹنگز اور مجسمے نہیں ہیں۔ آرٹس وہ ہنر ہے جو آپ کے اندر کے بچے کو زندہ رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب آپ گاڑی کے شیشے پر انگلی سے ڈرائنگ بناتے ہیں، تو دراصل اپنے اندر کے پکاسو کو جنم دے رہے ہوتے ہیں۔ چاہے وہ ڈرائنگ کچھ بھی ہو۔ ایک ٹیڑھا سا پھول، یا پھر ایک ایسا کتا جس کا سر جسم سے بڑا ہو۔ یہ سب آرٹ ہی ہے۔
سڑکوں پر چلتا پھرتا ٹرک آرٹ، جو ہر گاڑی کو رولنگ آرٹ گیلری بنا دیتا ہے، سے لے کر نصرت فتح علی خان کی روح کو چھو لینے والی موسیقی تک، صادقین کی پینٹنگز سے فیض احمد فیض کی شاعری تک، فنون ہماری ثقافت کا وہ دھاگہ ہیں جو ہمیں ایک دوسرے سے باندھتا ہے۔ فنون سے جڑنا ہماری روح کو سکون دیتا ہے۔ یہ ہمیں اپنے جذبات کا اظہار کرنے، دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے اور زندگی کے ہنگاموں میں خوبصورتی ڈھونڈنے کی طاقت دیتا ہے۔ موسیقی ہو، پینٹنگ، ڈانس یا تھیٹر، یہ سارے شعبے ہمارے اندر چھپی تخلیقی قوتوں کو ہوا دیتے ہیں۔ جب رنگوں سے کھیلیں، کنسرٹ میں تالیاں بجائیں یا کسی ڈرامے میں کردار سے لطف اندوز ہوں، تو احساس ہوتا ہے کہ روح کو بھی ایک ویکیشن چاہئے ہوتا ہے۔ یہی ویکیشن ذہنی دباؤ کم کرتا ہے۔
مزاح اور فنون ہمارے لیے کیوں اتنے اہم ہیں؟ کیونکہ یہ ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے اکسیر ہیں۔ ہنسی تناؤ کو پگھلا دیتی ہے، دل کی دھڑکن کو منظم کرتی ہے اور یہاں تک کہ درد کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ دوسری طرف، فنون ہماری ذہنی صحت کو چمکاتے ہیں۔ چاہے آپ پینٹنگ کر رہے ہوں، موسیقی سن رہے ہوں، یا شاعری پڑھ رہے ہوں، یہ سب آپ کو خود سے ملاتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی پیدا کرتے ہیں اور ہاں، اگر آپ نے کبھی اپنے بچوں کے ساتھ رنگ بھرنے کی کوشش کی ہو، تو آپ جانتے ہیں کہ یہ کتنا مزہ دیتا ہے اور کتنا صبر سکھاتا ہے۔
دیہی علاقوں میں دستکاری، موسیقی اور ادب سے لے کر شہری مراکز میں جدید آرٹ تک، یہ صنعتیں ہماری ثقافتی شناخت کو مضبوط کرتی ہیں اور عالمی سطح پر ہمارا نام روشن کرتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے، ہمارے ہاں کامیڈی کلبز ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور فنون کے لیے بنیادی ڈھانچہ بھی کمزور ہے۔ اگر ہم اسے سنجیدگی سے لیں، تو یہ ہمارے معاشرے اور معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔
مزاح اور فنون ہمیں بہتر انسان بھی بناتے ہیں۔ جب ہم ہنستے ہیں، ہم اپنا غصہ اور ناراضگی بھول جاتے ہیں۔ جب ہم کوئی فن تخلیق کرتے ہیں یا اس کی قدر کرتے ہیں، ہم زیادہ ہمدرد، تخلیقی اور کھلے ذہن کے بنتے ہیں۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جو نہ صرف ہماری ذاتی ترقی کے لیے ضروری ہیں بلکہ ایک ہم آہنگ معاشرے کے لیے بھی اہم ہیں۔ سوچیں، اگر ہم سب تھوڑا سا زیادہ ہنسیں اور فنون سے جڑیں، تو شاید ہمارے آپسی جھگڑے بھی کم ہو جائیں۔
تو، میرے پیارے پاکستانیو، آئیے مزاح اور فنون کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ اگلی بار جب آپ تناؤ میں ہوں، سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے کے بجائے ایک کامیڈی شو دیکھیں، مقامی آرٹسٹ کی نمائش میں جائیں، یا خود کوئی فن سیکھیں۔ شاید پینٹنگ، شاعری، یا ہاں، کیوں نہ سٹینڈ آپ کامیڈی! کون جانتا ہے، آپ شاید اگلے بڑے پاکستانی کامیڈین یا آرٹسٹ بن جائیں اور اگر نہیں بنے، تو کم از کم آپ نے کچھ مزہ تو کیا!
خلاصہ یہ کہ زندگی بہت مختصر ہے کہ ہم ہر وقت سنجیدہ رہیں۔ مزاح اور فنون وہ رنگ ہیں جو ہماری زندگی کو جگمگاتے ہیں۔ تو، آئیے ہنستے رہیں، بناتے رہیں اور اپنے اردگرد کی خوبصورتی سے لطف اٹھاتے رہیں۔

