Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sohaib Rumi
  4. Apni Zaat Se Guftagu

Apni Zaat Se Guftagu

اپنی ذات سے گفتگو

انسان کی زندگی میں سب سے بڑی خاموش جنگ اُس کے اندر چلتی ہے، جہاں وہ اپنے خیالات، احساسات اور خوفوں سے نبرد آزما رہتا ہے۔ ہم روز دوسروں سے بات کرتے ہیں، اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے ہیں، اپنی سچائی منوانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اپنے اندر کے انسان سے سوال کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ ہم نے زندگی کو اتنا شور سے بھر دیا ہے کہ اپنے اندر کی آواز سننے کا موقع ہی نہیں بچا۔ شاید اسی لیے خود سے مکالمہ کرنا سب سے مشکل فن ہے۔

انسان کے اندر دو آوازیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو دنیا کو مطمئن کرتی ہے اور دوسری وہ جو رات کے اندھیرے میں جاگ کر خود سے سوال کرتی ہے۔ دن کے شور میں پہلی آواز غالب آتی ہے، وہی جو لوگوں کو دکھائی دیتی ہے مضبوط، پُراعتماد، سمجھدار۔ مگر رات کے سکوت میں جب سب سوتے ہیں، تو دوسری آواز جاگتی ہے۔ وہ پوچھتی ہے: "کیا واقعی سب ٹھیک ہے؟" اور اکثر ہم اُس سوال سے گھبرا کر خود کو مصروف کر لیتے ہیں۔ ہم اندر کے خوف اور کمزوری کو "مایوسی" یا "اداسی" کا نام دے کر دبا دیتے ہیں، مگر وہ دب کر بھی باقی رہتی ہے۔ یہ وہی آواز ہے جو خاموشی میں بھی سنائی دیتی ہے، مگر ہم نے اُس سے بات کرنا چھوڑ دیا ہے۔

نفسیات کہتی ہے کہ انسان کا سب سے بڑا دھوکہ اُس کا خود فریب ہونا (self-deception) ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب وہ اپنے زخموں کو کامیابی کے پردے میں چھپا لیتا ہے، اپنے دکھ کو استقامت کا نام دے دیتا ہے اور اپنی تھکن کو "مصروفیت" کہہ کر مطمئن ہو جاتا ہے۔ درحقیقت، جتنا زیادہ انسان خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے، اُتنا ہی اندر سے کمزور ہوتا جاتا ہے۔ ہم نے محسوس کرنے سے زیادہ چھپانے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ ہم لفظوں کو خوبصورت بنا لیتے ہیں مگر جذبات کو نہیں۔ ہم اپنے اندر کے شور کو عقل سے دبانے لگے ہیں، جیسے احساس کوئی کمزوری ہو، حالانکہ احساس ہی وہ دروازہ ہے جہاں سے انسان اپنی اصل تک پہنچ سکتا ہے۔

آج کے زمانے میں ہر کسی کو بولنے کی آزادی ہے مگر سننے کی برداشت نہیں۔ یہ دنیا شور سے بھری ہوئی ہے، سیاسی بحثوں، سوشل میڈیا کی آوازوں، اپنے دفاع میں بولے گئے بے شمار الفاظ سے۔ مگر سننے والا کوئی نہیں۔ اسی لیے ہر شخص اپنی بات کرتا ہے مگر کسی اور کی بات دل تک نہیں اُترتی۔ یہی وہ خاموش زہر ہے جو انسان کے اندر رسنے لگتا ہے۔ جب کوئی سنے نہیں، تو انسان خود سے بھی بات کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ پھر وہ اپنی توجہ بکھیرنے لگتا ہے، مصروفیت، مشاغل، دوڑ، مقابلہ، یہ سب اُس "خالی پن" کو چھپانے کے طریقے ہیں جو اندر بڑھتا رہتا ہے۔ مصروفیت اس صدی کی سب سے بڑی نفسیاتی بیماری بن چکی ہے۔ یہ علاج کا بھرم دیتی ہے مگر اصل زخم کو چھپا دیتی ہے۔

انسان خود سے مکالمہ کب کرتا ہے؟ جب وہ تنہا ہوتا ہے۔ جب کمرے کی روشنی مدھم ہو اور باہر کا شور تھم جائے۔ جب کوئی پرانی یاد ذہن کے دروازے پر آ کر دستک دے، یا جب آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر وہ سوال کرے: "کیا میں واقعی وہی ہوں جو بننا چاہتا تھا؟" یہی وہ لمحہ ہے جب دل کے اندر سے ایک نرم، سچّی آواز اُٹھتی ہے اور اکثر ہم اُس سے بھاگ جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ سوال مشکل ہوتے ہیں، وہ جواب مانگتے ہیں، وہ ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں۔ انسان خود سے مکالمہ تب تک نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے اندر کی کمزوری کو قبول نہ کرے۔

نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ احساسات کو پہچاننا ذہنی صحت کی پہلی علامت ہے۔ مگر ہم میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ ہم اصل میں کیا محسوس کر رہے ہیں؟ ہم غصے میں اداسی چھپاتے ہیں، ہم مسکراہٹ سے خوف چھپاتے ہیں، ہم کامیابی سے خالی پن چھپاتے ہیں۔ ہم نے "میں ٹھیک ہوں" کو تہذیبی نقاب بنا دیا ہے۔ یہ جملہ اب سچ نہیں، دفاع ہے۔ ہم اپنے زخموں کو "ٹھیک ہونے" کی امید میں دبائے رکھتے ہیں، حالانکہ زخم بولنا چاہتے ہیں، سنا جانا چاہتے ہیں۔ مگر ہم انہیں خاموش کرکے خود کو مطمئن کر لیتے ہیں۔

خود سے مکالمہ ایک سفر ہے، جو دکھ سے شروع ہوتا ہے اور آگہی پر ختم ہوتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان دنیا سے ہٹ کر اپنی روح سے بات کرتا ہے، اپنے خوف، اپنی کمزوری، اپنی ندامت، حتیٰ کہ اپنی منافقت تک سے۔ یہ آسان نہیں۔ خود سے سچ بولنا ہمیشہ تلخ ہوتا ہے، مگر وہی تلخی انسان کو آزاد کرتی ہے۔ جو اپنے اندر کے سچ کو تسلیم کر لے، وہ دوسروں کے شور سے نہیں ڈرتا۔ وہ جان لیتا ہے کہ انسان کا سب سے بڑا قید خانہ اُس کا اپنا ذہن ہے اور سب سے بڑی آزادی یہ ہے کہ وہ خود سے جھوٹ بولنا چھوڑ دے۔ خود سے مکالمہ آگہی ہے۔ جو شخص اپنے اندر کے شور میں اپنی ہی آواز پہچان لے، جو اپنی خاموشی میں سوال کرنا سیکھ لے اور جو اپنی کمزوری کو گناہ نہیں بلکہ انسانیت سمجھے، وہ دراصل جینا سیکھ لیتا ہے۔ زندگی اُس لمحے بدلتی ہے جب انسان پہلی بار خود سے سچ بولتا ہے اور اُس دن سے وہ واقعی آزاد ہو جاتا ہے۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail