Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sohaib Rumi
  4. Animal Farm Aik Lazawal Kahani

Animal Farm Aik Lazawal Kahani

اینیمل فارم ایک لازوال کہانی

جارج آرویل کی شاہکار کتاب "اینیمل فارم" صرف ایک کہانی نہیں، بلکہ ایک عظیم سیاسی تمثیل ہے جو انسانی معاشرے کی پیچیدگیوں، اقتدار کی ہوس اور انقلابات کی حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے۔ یہ کتاب جب 1945 میں شائع ہوئی تو دنیا نے اسے سوویت یونین پر طنز سمجھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا ہر کردار، ہر واقعہ آج بھی ہمارے ارد گرد کھیلتا نظر آتا ہے۔

آرویل نے اس ناول میں جانوروں کے کرداروں کے ذریعے انسانی فطرت اور سیاسی نظام کے عیوب کو اس خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ یہ آج بھی اتنی ہی معتبر اور متعلقہ ہے جتنی 1945 میں اس کے شائع ہونے کے وقت تھی۔ جب ہم اس کہانی کو پڑھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ صرف ماضی کے انقلابات کی کہانی نہیں، بلکہ ہمارے موجودہ دور کے سیاسی اور سماجی حالات کی عکاسی بھی ہے۔

کہانی ایک فارم سے شروع ہوتی ہے جہاں جانور اپنے مالک، مسٹر جونز، کی ظالمانہ حکمرانی سے تنگ آ کر بغاوت کرتے ہیں۔ یہ بغاوت ایک خواب سے جنم لیتی ہے جو ایک بوڑھے جانور، اولڈ میجر، نے دیکھا تھا۔ وہ جانوروں کو آزادی اور مساوات کا پیغام دیتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد دو جانور، نیپولین اور اسنو بال، اس انقلاب کی قیادت سنبھالتے ہیں۔ ابتدائی طور پر سب کچھ ایک خواب کی طرح لگتا ہے۔ جانور اپنے اصول بناتے ہیں، جن میں سب سے اہم ہے کہ "تمام جانور برابر ہیں"۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، یہ اصول دھندلانے لگتے ہیں۔ نیپولین، جو ایک چالاک اور خود غرض ہے، اقتدار پر قبضہ کر لیتا ہے اور اسنو بال کو فارم سے نکال دیتا ہے۔ یہاں سے کہانی ایک تاریک موڑ لیتی ہے، جہاں آزادی کا خواب دھیرے دھیرے ایک نئی غلامی میں بدل جاتا ہے۔

آرویل نے اس ناول میں جانوروں کے کرداروں کو اس طرح تراشا ہے کہ وہ انسانی معاشرے کے مختلف طبقات اور شخصیات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نیپولین کوئی اور نہیں، بلکہ ایک آمر کی تصویر ہے جو اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اس کی چالاکی، جھوٹ اور پروپیگنڈے کا استعمال ہمیں آج کے کئی سیاسی رہنماؤں کی یاد دلاتا ہے۔

دوسری طرف، اسنو بال ایک مثالی لیڈر ہے جو تعلیم اور ترقی پر یقین رکھتا ہے، لیکن اس کی دیانتداری ہی اسے اقتدار کی دوڑ سے باہر کر دیتی ہے۔ باکسر، وہ گھوڑا جو انتھک محنت کرتا ہے اور "میں اور سخت محنت کروں گا" کا نعرہ لگاتا ہے، محنت کش طبقے کی علامت ہے۔ وہ اپنی طاقت اور وفاداری کے باوجود استحصال کا شکار ہوتا ہے۔ اسی طرح، بھیڑیں جو ہر بات پر بغیر سوچے سمجھے نیپولین کی حمایت کرتی ہیں، وہ عوام کے اس حصے کی نمائندگی کرتی ہیں جو پروپیگنڈے کا آسان شکار بن جاتا ہے۔

اس کہانی کا ایک اور اہم کردار ہے 'سکویلر'، جو نپولین کا پرچارک ہے۔ وہ ہر ظلم کو انقلابی ضرورت ثابت کرتا ہے، ہر ناکامی کو کامیابی میں بدل دیتا ہے اور عوام کو یقین دلانے کے لیے جھوٹے اعدادوشمار پیش کرتا ہے۔ کیا ہم نے حال ہی میں ایسے "سکویلرز" نہیں دیکھے؟ میڈیا کے وہ چہرے جو عوام کے سامنے جھوٹ کو سچ کی طرح پیش کرتے ہیں، یا وہ لیڈر جو اپنی نااہلی کو قوم کی خوش قسمتی بتاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سکویلر جیسے کردار ہر دور میں موجود رہتے ہیں، بس ان کے اوزار بدل جاتے ہیں۔

یہ ناول صرف ایک سیاسی تمثیل ہی نہیں، بلکہ انسانی فطرت کا ایک گہرا تجزیہ بھی ہے۔ آرویل ہمیں دکھاتا ہے کہ انقلابات اکثر اعلیٰ مقاصد کے ساتھ شروع ہوتے ہیں، لیکن جب اقتدار کی ہوس غالب آتی ہے تو وہی انقلابی اپنے اصولوں سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ نیپولین کی طرح، بہت سے رہنما عوام کے نام پر اقتدار حاصل کرتے ہیں، لیکن آخر میں وہی عوام ان کے ظلم کا شکار بنتے ہیں۔ ناول کا سب سے دل دہلا دینے والا لمحہ وہ ہے جب جانور اپنے بنائے ہوئے اصولوں کو تبدیل ہوتا دیکھتے ہیں۔ "تمام جانور برابر ہیں" کا نعرہ بدل کر "تمام جانور برابر ہیں، لیکن کچھ دوسروں سے زیادہ برابر ہیں" ہو جاتا ہے۔ یہ جملہ آج بھی ہمارے معاشرے میں طبقاتی تفریق اور ناانصافی کی عکاسی کرتا ہے۔

اگر ہم اس ناول کو آج کے تناظر میں دیکھیں تو اس کی اہمیت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ آج کے دور میں، جہاں سوشل میڈیا اور میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کے ذہنوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے، "اینیمل فارم" ہمیں ایک اہم سبق دیتی ہے۔ نیپولین کے کتوں کی طرح، جو اس کی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے دہشت پھیلاتے ہیں، آج بھی بہت سے نظام خوف اور دباؤ کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح، سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈے کا سیلاب بھیڑوں جیسے کرداروں کی یاد دلاتا ہے، جو بغیر سوچے ہر بات پر یقین کر لیتی ہیں۔ باکسر کی کہانی ہمیں ان محنت کشوں کی یاد دلاتی ہے جو اپنی محنت سے نظام کو چلاتے ہیں، لیکن بدلے میں انہیں صرف استحصال ملتا ہے۔

آرویل کا یہ ناول ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ اقتدار کی ہوس صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں۔ یہ انسانی فطرت کا وہ حصہ ہے جو ہر جگہ، ہر معاشرے میں موجود ہے۔ چاہے وہ دفتر کی سیاست ہو، خاندانی تنازعات ہوں، یا سماجی گروہوں کے درمیان مقابلہ، ہر جگہ ہم نیپولین جیسے کردار دیکھ سکتے ہیں جو اپنے مفادات کے لیے دوسروں کو استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح، اسنو بال جیسے کردار ہمیں امید دیتے ہیں کہ دیانتداری اور محنت اب بھی اہمیت رکھتی ہے، چاہے وہ اکثر شکست ہی کیوں نہ کھا جائیں۔ یہ ناول ہمیں اپنے ارد گرد کے نظام پر سوال اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے۔ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ کیا ہمارے رہنما ہمارے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں، یا وہ صرف اپنی طاقت کو بڑھانے میں لگے ہیں؟

"اینیمل فارم" کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ہر دور اور ہر معاشرے کے لیے متعلقہ ہے۔ اس کے کردار اور پیغامات آفاقی ہیں۔ آج کے پاکستان میں، جہاں سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران اور سماجی ناانصافی اپنے عروج پر ہیں، یہ ناول ہمیں اپنے حالات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی نیپولین جیسے کردار موجود ہیں، جو وعدوں اور نعروں کے ذریعے اقتدار حاصل کرتے ہیں، لیکن آخر میں وہی عوام ان کے جھوٹ کا شکار بنتے ہیں۔ اسی طرح، باکسر جیسے کردار ہمارے محنت کش طبقے کی عکاسی کرتے ہیں، جو دن رات محنت کرتے ہیں لیکن ان کا استحصال جاری رہتا ہے۔ یہ ناول ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ تبدیلی کے لیے صرف انقلاب کافی نہیں، بلکہ ہمیں اپنے نظام کو سمجھنے اور اسے بہتر بنانے کے لیے مسلسل کوشش کرنی ہوگی۔

اگر آپ نے ابھی تک "اینیمل فارم" نہیں پڑھا، تو یہ ناول آپ کے لیے ایک عظیم تجربہ ثابت ہوگا۔ یہ نہ صرف آپ کو ایک دلچسپ کہانی سے لطف اندوز کرائے گا، بلکہ آپ کو اپنے ارد گرد کے معاشرے اور سیاسی نظام کو بہتر طور پر سمجھنے میں بھی مدد دے گا۔ اس کے کردار آج بھی ہمارے معاشرے میں زندہ ہیں۔ نیپولین ہر اس رہنما کی شکل میں موجود ہے جو اقتدار کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔

باکسر ہر اس محنت کش کی شکل میں موجود ہے جو اپنی محنت سے نظام کو چلاتا ہے اور بھیڑیں ہر اس شخص کی شکل میں موجود ہیں جو بغیر سوچے پروپیگنڈے پر یقین کر لیتا ہے۔ اس ناول کو پڑھیں اور دیکھیں کہ یہ آپ کو کس طرح اپنے معاشرے اور خود اپنی سوچ پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ کتاب ایک آئینے کی طرح ہے جو ہمیں ہماری کمزوریوں اور امکانات کو دکھاتی ہے۔ اسے پڑھیں اور اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا ہم واقعی اس فارم سے باہر نکل سکتے ہیں، یا ہم اب بھی اسی چکر میں پھنسے ہوئے ہیں؟

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz