2025 Ka Underdog Tufan
2025 کا انڈر ڈاگ طوفان
دنیا بھر کے بورڈ رومز میں جہاں اربوں ڈالر کے فیصلے ہوتے ہیں، وہاں اب خوف کی ایک عجیب سی لہر دوڑ رہی ہے۔ خوف اس بات کا نہیں کہ کوئی بڑی کمپنی مقابلے میں آئے گی، بلکہ اس بات کا کہ کوئی گیراج میں بیٹھا نوجوان، کوئی سابق ملازم یا کوئی طالب علم اپنے لپ ٹاپ سے ایسی چیز بنا دے گا جو کروڑوں کی سرمایہ کاری کو راتوں رات بے کار کر دے۔ دنیا کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ اب طاقت پیسے کے پاس نہیں، تخلیقی سوچ کے پاس ہے۔
میوزک انڈسٹری میں ایک زمانے سے سپاٹفائی کا راج تھا۔ پلے لسٹس، رائلٹی، ریکارڈ لیبلز، سب اسی کے گرد گھومتے تھے۔ پھر ایک چھوٹی سی کمپنی سُنو نے آ کر سب کچھ بدل دیا۔ بس چند الفاظ لکھیں اور سیکنڈوں میں مکمل گانا تیار۔ 2023 میں صرف ڈیڑھ لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری سے شروع ہونے والا یہ منصوبہ آج چار کروڑ تخلیق کاروں کی آواز بن چکا ہے۔ اب ہر شخص جو گلی محلوں میں گنگناتا ہے، وہ بھی اپنا اسٹوڈیو رکھ سکتا ہے۔ یہ صرف ایک ایپ نہیں، میوزک کی جمہوریت کا آغاز ہے۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں گوگل کروم کا نام ہی کافی تھا۔ لیکن جب سیکورٹی سب سے بڑا سوال بن گئی تو گوگل کے سابق ملازمین نے آئی لینڈ براؤزر متعارف کروایا۔ یہ وہی دکھتا ہے مگر اندر سے قلعہ ہے۔ ڈیٹا لیک نہیں ہوتا، کمپنیوں کے راز محفوظ رہتے ہیں۔ آج دنیا کی بڑی سے بڑی پانچ سو کمپنیوں میں سے ہر پانچویں لاگ ان اسی براؤزر سے ہو رہی ہے۔ گوگل کی دو سو ارب ڈالر کی اشتہاری سلطنت پر پہلی بار کوئی براہ راست حملہ ہوا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ جب اعتماد ٹوٹے تو سب سے تیز چیز بھی پیچھے رہ جاتی ہے۔
شہروں کی سڑکوں پر اوبر نے مائیکرو موبائلٹی کی بادشاہت قائم کر رکھی تھی۔ پھر آسٹریلیا کے دو نوجوانوں نے بیم نامی الیکٹرک سکوٹر متعارف کروایا۔ یہ سکوٹر صرف تیز نہیں، ذہین بھی ہے۔ بچہ سامنے آئے تو خود رک جائے، حد سے زیادہ رفتار ہو تو سست ہو جائے۔ آج ساٹھ بین الاقوامی شہروں میں یہ جامنی رنگ کے سکوٹر نظر آتے ہیں اور اوبر وغیرہ کی مارکیٹ شیئر سکڑتی جا رہی ہے۔ صاف ستھری، سستی اور محفوظ سواری نے ثابت کر دیا کہ مہنگی گاڑیوں کا دور ختم ہو رہا ہے۔ ماحولیات کے میدان میں سب سے حیران کن کہانی آکسفورڈ کی طالبہ یدیان لو کی ہے۔ انہوں نے ایک انزائم تیار کیا جو پلاسٹک کھا جاتا ہے۔ گندے پانی کے پلانٹس میں لگایا گیا تو مائیکرو پلاسٹک ستر فیصد کم ہوگیا۔ پیٹاگونیا جیسے ماحول دوست برانڈز نے فوراً ہاتھ بڑھایا جبکہ ڈوپونٹ جیسی کیمیکل کمپنیوں کی آمدنی دوہرے ہندسوں میں گر گئی۔ پلاسٹک بنانے والوں نے گندگی پھیلائی، ایک طالبہ نے اسے کاروبار بنا لیا۔ یہ ماحولیاتی انصاف کی نئی شکل ہے۔
چھوٹے کاروباروں کے لیے اکاؤنٹنگ ہمیشہ درد سر رہی ہیں۔ رسیدیں، انٹریز، ٹیکس۔ اب بیسس نامی ایپ نے سب کچھ آسان کر دیا۔ رسید کی تصویر کھینچیں، باقی سب خود بخود۔ سابق ڈیلوئٹ ماہرین نے بنایا اور انٹوئٹ جیسی بڑی کمپنی کی مارکیٹ شیئر بیس فیصد تک کم کر دی۔ اب دکاندار پانچ سو روپے میں وہ کام کر لیتا ہے جو پہلے پچاس ہزار میں ہوتا تھا۔ یہ ڈیجیٹل معیشت کی نئی حقیقت ہے جہاں مہنگا سافٹ ویئر پیچھے رہ جاتا ہے۔
آفس ڈیزائن اور آرکیٹیکچر میں بھی انقلاب آ گیا۔ موٹیف نامی ایپ کو بس آواز سے بتائیں کہ کھڑکیاں بڑی چاہییں، گرین وال، کافی مشین دائیں طرف۔ تین سیکنڈ میں مکمل تھری ڈی ماڈل تیار۔ آٹوڈیسک جیسی کمپنیاں جو کروڑوں کا سافٹ ویئر بیچتی تھیں، اب حیران ہیں کہ چھوٹے آرکیٹیکٹس ان کا مال چھوڑ کر سستی ایپ پر آ گئے۔ تخلیقی صلاحیت جب سستی ہو جائے تو بڑی کمپنیاں خود بخود چھوٹی لگنے لگتی ہیں۔
2025 کا سال بتا رہا ہے کہ اب طاقت سرمائے کے پاس نہیں، تخلیق کے پاس ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی آئیڈیا ہے، کوئی خواب ہے، تو اسے لپ ٹاپ پر اتاریں۔ کیونکہ آج کا چھوٹا آئیڈیا کل کو بڑی کمپنیوں کو ہلا سکتا ہے۔ یہ وقت ہمت کا ہے، ہمت والوں کا۔

