Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sheraz Ishfaq
  4. Rishton Ki Meraj, Waldain

Rishton Ki Meraj, Waldain

رشتوں کی معراج، والدین

منظر کچھ یوں تھا کہ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ وقت نے اس لمحے کو بہت بوجھل بنا دیا تھا۔ بیٹے نے اپنے بوڑھے باپ کو سہارا دیتے ہوئے غسل خانے تک پہنچایا۔ وہ باپ، جس نے کبھی اسے اپنی گود میں بٹھا کر نہلایا تھا، آج خود بیٹے کے ہاتھوں سے لرزتے قدموں کے ساتھ غسل کرنے پر مجبور تھا۔

بیٹا جیسے ہی اپنے باپ پر پانی ڈالنے لگا، اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ اسے وہ وقت یاد آیا جب وہ بچہ تھا اور اس کا باپ ہر بار نہلانے کے دوران اس کے گال پر بوسہ دیتا، دونوں قہقہے لگاتے اور پانی کے چھینٹے ایک دوسرے پر مارتے۔ اس کی آنکھوں میں برسوں کی یادیں اور احساسات سمٹے ہوئے تھے۔ اسے وہ دن یاد آ رہا تھا جب اس کے والد نے اسے اپنے کاندھوں پر بٹھایا، اس کی ضرورتوں کا خیال رکھا اور ہر تکلیف کو خود سہتے ہوئے اسے زندگی کے سفر میں آگے بڑھایا لیکن آج، وقت کا پہیہ پلٹا، اور والد وہی بے بس سا بچہ بن گیا جس کی دیکھ بھال اب بیٹے کے ذمے تھی۔

بیٹے کے ہاتھ لرز رہے تھے، اور باپ خاموشی سے بیٹھا آنکھیں بند کیے ہوئے تھا، جیسے وہ خود کو وقت کے اس کٹھن موڑ پر بے بس محسوس کر رہا ہو۔ جیسے ہی بیٹے نے اپنے باپ کے سر پر پانی ڈالا، آنسو اُس کی آنکھوں سے بے اختیار بہنے لگے۔ باپ نے بھی آنکھیں کھول کر بیٹے کو دیکھا دونوں نے کچھ نہیں کہا، بس آنسوؤں کی زبان میں وہ سب کچھ کہہ دیا جو الفاظ بیان نہیں کر سکتے تھے۔

بیٹا اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اپنے باپ کو نہلانے لگا، لیکن ہر حرکت کے ساتھ دل میں ایک چھبن ہوتی رہی۔ دونوں کے دلوں میں یادوں کا سیلاب تھا، مگر زبانیں خاموش تھیں۔ والد نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے بیٹے کے سر پر ہاتھ رکھا، اور دعا دی: "اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے، تم نے میرا حق ادا کیا۔ ماں باپ کا سایہ زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ بیٹے نے عزم کر لیا تھا کہ وہ آخری دم تک ان کی خدمت کرے گا۔ اُسے یہ بھی یاد تھا کہ ماں باپ کی خدمت کی فضیلت ہمیں ہمارے نبی ﷺ نے سکھائی تھی، کہ ان کے قدموں تلے جنت ہے، اور ان کی دعائیں کامیابی کی ضمانت۔ بیٹے کو احساس تھا کہ آج وہ جو کچھ کر رہا ہے، وہ محض ذمہ داری نہیں بلکہ ایک عظیم نعمت ہے جو خدا نے اسے عطا کی ہے۔

یہ منظر خاندانی نظام کی اُس جذباتی وابستگی کی گہری تصویر ہے جس میں والدین اور بچوں کا تعلق محض ذمہ داری تک محدود نہیں ہوتا بلکہ ایک مضبوط جذباتی رشتہ بھی ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ماں باپ وہ ہستیاں ہیں جن کی دعائیں اولاد کے لیے ہر قدم پر سائبان بنتی ہیں۔

جب بچے بڑے ہوتے ہیں اور اپنے والدین کی ذمہ داری اٹھانے کا وقت آتا ہے، تو اکثر یہ ذمہ داری ایک آزمائش سمجھی جاتی ہے۔ خاندانی نظام میں والدین کی دیکھ بھال روایتی طور پر بیٹوں کی ذمہ داری ہوتى ہے، وہ اپنی زندگی کی دیگر ذمہ داریوں اور والدین کی دیکھ بھال کے درمیان توازن قائم کی کوشش کرتے ہیں۔

مگر بیٹیاں بھی اپنے والدین کا خیال رکھنے میں حصہ ڈالتی ہیں۔ بیٹیاں عموماً والدین کی جذباتی دیکھ بھال میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ والدین کے ساتھ زیادہ وقت گزارتی ہیں اور ان کی ضرورتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بیٹیاں، خاص طور پر اپنی ماں کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتی ہیں اور بیٹیاں اپنی ماں کے لیے اسی طرح سب کچھ کرتی ہیں جیسے بیٹا اپنے باپ کے لیے کرتا ہے اور ان کی دیکھ بھال کرتے ہوئے اکثر انہیں وہی محبت اور شفقت واپس دیتی ہیں جو انہوں نے بچپن میں اپنی ماں سے حاصل کی تھی۔ ماں بیٹی کا یہ رشتہ اکثر جذباتی طور پر مضبوط ہوتا ہے اور اس میں محبت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔

دوسری طرف، بیٹوں کے لیے اپنے والد کی دیکھ بھال ایک مختلف نوعیت کی ہوتی ہے۔ باپ اور بیٹے کا رشتہ عموماً سختی اور خودداری پر مبنی ہوتا ہے، اور جب بیٹا اپنے بوڑھے باپ کی خدمت کرتا ہے، تو باپ کے لئے اپنی کمزوری کا اعتراف کرنا مشکل ہوتا ہے، اور بیٹے کے لئے اپنے باپ کی کمزوری کو دیکھنا ایک جذباتی دھچکا ہوتا ہے۔

بوڑھے والدین کی دیکھ بھال میں ایک اور اہم عنصر جو شامل ہوتا ہے، اس وقت اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے جب بیٹے کی شادی ہو جاتی ہے، تو اس کے ساتھ خاندان میں بہو کی آمد ہوتی ہے۔ بہو کی موجودگی گھر کے معاملات کو ایک نیا موڑ دیتی ہے، اور اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بہو کا کردار والدین کی دیکھ بھال میں کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگر بہو کا رویہ مثبت ہو اور وہ ساس سسر کا خیال رکھے، تو اس سے خاندانی رشتے مضبوط ہوتے ہیں اور والدین کو ایک نئی امید ملتی ہے۔ لیکن اگر بہو اپنی ساس سسر کی ذمہ داریوں کو قبول نہ کرے، تو یہ بچوں کے لئے ایک اضافی بوجھ بن سکتا ہے۔ اکثر خاندانوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بیٹا والدین کے لیے وقت نکالنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اگر گھر میں بہو کی طرف سے والدین کی دیکھ بھال کا ساتھ نہ ہو تو یہ ذمہ داری ایک الجھن کا سبب بن جاتی ہے۔

اس کے علاوہ، خاندانی زندگی میں جدیدیت اور سادگی کے درمیان ایک بڑا فرق بھی والدین کی دیکھ بھال پر اثر انداز ہوتا ہے۔ پہلے کے وقتوں میں، زندگی سادہ ہوتی تھی، اور خاندانی تعلقات میں محبت اور احترام کے اصول نمایاں تھے۔ لیکن جیسے جیسے جدیدیت نے زندگیوں میں داخلہ لیا، خاندان کے افراد کی مصروفیات بڑھ گئیں، بچوں کے پاس وقت کی کمی ہوتی گئی، اور اکثر وہ اپنے والدین کے لئے مکمل توجہ اور وقت نہیں دے پاتے۔ یہ جدید طرزِ زندگی کا ایک منفی پہلو ہے جو خاندانی رشتوں میں دوریاں پیدا کرتا ہے۔

اسلامی تعلیمات میں والدین اور اولاد کے تعلقات، احترام اور ذمہ داریوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا یہ واقعہ۔ ایک مرتبہ ایک باپ حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ان کا بیٹا اپنی آمدنی میں سے کچھ بھی انہیں نہیں دیتا، جب حضور اکرم ﷺ نے بیٹے سے پوچھا کہ وہ اپنے والد کو اپنی کمائی میں سے کیوں نہیں دیتا، تو بیٹے نے جواب دیا کہ میں نے یہ کمائی خود کی ہے اور مجھے اس میں سے والد کو دینے کی کوئی ذمہ داری محسوس نہیں ہوتی۔

یہ سن کر حضور اکرم ﷺ نے سخت ارشاد فرمایا: "تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کے ہیں"۔

حدیث ہے: ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سے میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟

آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں۔

اس شخص نے پھر پوچھا پھر کون؟

آپ ﷺ نے پھر فرمایا تمہاری ماں۔

اس آدمی نے تیسری بار پوچھا پھر کون؟

آپ ﷺ نے پھر جواب دیا کہ تمہاری ماں۔

آدمی نے آخر میں پوچھا کہ پھر کون؟

آپ ﷺ نے فرمایا تیرا باپ۔

آج کے معاشرے میں، جہاں کئی لوگ اپنے والدین کو ضعیفی میں اکیلا چھوڑ دیتے ہیں یا ان کی خدمت سے کتراتے ہیں، یاد رکھیں زندگی کا سفر ایک دائروی چکر ہے، جس میں ہم سب کبھی نہ کبھی محتاج ہوتے ہیں۔ بچے والدین کی دیکھ بھال کو بوجھ نہ سمجھیں بلکہ اسے محبت اور شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ انجام دیں۔ آخرکار، یہ وہی والدین ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال میں گزارا ہے۔ بچوں کو چاہئے کہ وہ والدین کے بڑھاپے میں ان کا ہاتھ تھامیں اور اس محبت کا حق ادا کریں جو انہیں اپنے بچپن میں ملی تھی۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے والدین کو اپنی ترجیح بنائیں اور ان کی زندگی کے آخری ایام کو عزت و وقار کے ساتھ گزارنے میں ان کی مدد کریں۔

Check Also

Tareekh Se Sabaq Seekhiye?

By Rao Manzar Hayat