Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Pakistan Ka Aakhri Bara Aadmi

Pakistan Ka Aakhri Bara Aadmi

پاکستان کا آخری بڑا آدمی

یہ کتاب پاکستان کے مشہور صحافی جبار مرزا کی محسن پاکستان (ڈاکٹر عبدالقدیر خان) کے ساتھ یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ مصنف کا شمار پاکستان کے مایہ ناز صحافیوں میں ہوتا ہے اور ڈاکٹر صاحب کے ساتھ آپ کی 34 سالہ رفاقت ہمیں آپ کی زندگی کے ایسے گوشوں سے متعارف کرواتی ہے جو عام حالات میں شاید ہمارے سامنے کبھی نہ آ سکتے۔

میں اس کتاب پر روایتی قسم کا تبصرہ نہیں کروں گا بلکہ اس کتاب سے چند اقتباسات آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کروں گا جسے پڑھنے کے بعد ہمیں اس ملک کے وفاداروں اور غداروں کو پہچاننے میں آسانی ہوگی۔

سچ اور جھوٹ کا فیصلہ آپ کے ہاتھ ہے

تو آئیے شروع کرتے ہیں

1۔ میں جب سابقہ وزیر اعظم پاکستان میر ظفر اللہ خان جمالی سے ملا اور ان سے محسن پاکستان کے رسوا ہونے کے بارے دریافت کیا تو آپ نے جواباً کہا، "ڈاکٹر صاحب کے ساتھ جو ہونے چلا تھا وہ میں ہی جانتا ہوں۔ بطور چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر صاحب کی امریکہ منتقلی کے آرڈر پر میں نے ہی دستخط کرنے تھے۔ میں نے فوری کابینہ کا اجلاس بلوایا اور Exit Order پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا جس کی پاداش میں مجھے وزارت عظمیٰ سے الگ کر دیا گیا۔ ورنہ جنرل مشرف ڈاکٹر صاحب کے سر کی قیمت وصول کر چکے تھے اور سی ون تھرٹی تیار کھڑا تھا۔

2۔ سابق امریکی صدر جارج بش اپنی کتاب "Decision Point" میں گلہ کرتے ہیں کہ "جنرل مشرف نے وعدے پورے نہیں کیے حالانکہ وہ عسکریت پسندوں کو لینے کے لیے جنرل کو بھاری قیمت دیتے رہے ہیں"۔

وہ کونسے عسکریت پسند تھے جنہیں جنرل مشرف امریکہ کے حوالے کرتا رہا ہے؟ ان کے حالات جاننے ہیں تو پاکستان کی عدالتوں میں جا کر "مسنگ پرسنز" کے کیسز دیکھ لیں، آپ کو سب سمجھ آ جائے گی۔

3۔ جب مرزا صاحب کو ایک کرنل صاحب نے بحریہ ٹاؤن میں ایک کنال کی کوٹھی اور گاڑی بطور تحفہ آفر کی تو مصنف نے ان سے پوچھا اس کے بدلے مجھے کیا کرنا ہوگا؟ کرنل صاحب گویا ہوئے کہ ایک کتاب تیار پڑی ہے بس صرف اس کے اوپر آپ کا نام لکھ کر شائع کر دینی ہے۔ استفسار پر انہوں نے بتایا کہ وہ کتاب ڈاکٹر صاحب کے خلاف ہے۔ مرزا صاحب کہتے ہیں فوراً میرا خیال مبشر لقمان کی کتاب "کھرا سچ" کی طرف گیا جو بالکل ایسے ہی لکھی گئی ہے۔

4۔ جب ڈاکٹر صاحب کو ان کے E-7 والے گھر میں نظر بند کیا گیا تھا تو مصنف ایک دن اسلام آباد کے ڈی آئی جی آپریشنز سے ملے اور گلہ کیا کہ آپ کے سپاہی ہمیں ڈاکٹر صاحب سے ملنے نہیں دیتے؟ ڈی آئی جی صاحب نے بے بسی کے عالم میں اظہار کیا کہ "ہمارا آدمی برائے نام وہاں موجود ہوتا رہتا ہے۔ اصل حکمرانی کس کی ہے آپ بہتر جانتے ہیں"۔

5۔ جب ڈاکٹر صاحب نے اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی تو مصنف نے ان سے پوچھا "آپ تو سیاست کے مخالف تھے پھر بیٹھے بٹھائے یہ کیا خیال آیا آپ کے دل میں "؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا "یار مرزا وہ لوگ مجھے آرام نہیں کرنے دیتے اور انھی کے بارے میں مجبور ہوا ہوں اور یہ قدم اٹھایا ہے"۔

یہ وہ چند واقعات ہیں جو اس کتاب سے میں نے آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کر دیے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے میں نے "جارج آرول کے ناول 1984" پر تبصرہ لکھا تھا جس ناول کا میں تھیم ہی یہ تھا کہ "بڑا بھائی دیکھ رہا ہے"۔ اس ناول کو پڑھنے کے بعد اگر یہ کتاب پڑھی جائے تو صاف سمجھ آ جائے گی کہ بڑا بھائی کیسے کیسے اس ملک کی حفاظت کے لیے کوشاں رہتا ہے۔

Check Also

Kalam e Iqbal Ba Khat e Iqbal

By Rao Manzar Hayat