Monday, 10 February 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Property Tycoon

Property Tycoon

پراپرٹی ٹائیکون‎

پاکستان میں آج کل سب سے اہم دو موضوعات ہیں۔ پہلا پراپرٹی ٹائیکون اور ان سے منسلک قصے، دوسرا فیک نیوز کا بل اور اس پر ملنے والی سزائیں۔ فی الحال دوسرے کو ایک طرف رکھ دیں۔ پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض صاحب کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

میں نے اپنی شعوری عمر میں ٹی وی چینلز پر ہاؤسنگ سوسائٹی کے اشتہار جب دیکھنے شروع کیے تو یوں محسوس ہوا کہ ہم پاکستانیوں کا لیونگ اسٹینڈر ترقی یافتہ ممالک کے برابر ہو رہا ہے۔ متوسط طبقے میں جو مالی طور پر آسودہ ہو رہا تھا، وہ اس ہاؤسنگ سوسائٹی میں گھر لینے کے خواب دیکھنے لگا۔ آہستہ آہستہ ملک ریاض صاحب کے فلاحی کاموں کے اشتہار بھی نظر آنے لگے اور پھر وہی ہوا جو پاکستان میں ہوتا ہے۔ یعنی ملک ریاض صاحب کو ایک عظیم، غریبوں کا ہمدرد اور محب الوطن پاکستانی بنا کر عام عوام کے سامنے پیش کر دیا گیا۔

ان کے چینلز پر بہادری سے بات کرتے ہوئے انٹرویوز بھی نظر آتے تھے۔ ہم عام عوام کو ایک سیاسی جماعت کے چئیرمین کی وہ پریس کانفرنس نہیں بھولی، وہ مری میں دوسرے سیاسی جماعت کے سربراہ کی موجودگی اور پراپرٹی ٹائیکون کے ضامن بننے کا ذکر کر رہے تھے اور دوسرے سیاسی جماعت کے سربراہ کا وعدہ توڑنے پر افسردہ تھے۔ یعنی ملک ریاض صاحب اتنے اہم تھے۔

ملک ریاض صاحب وہ عظیم شخصیت ہیں۔ جنھوں نے شاید صرف ایک مرتبہ ہی قرآن کریم اٹھا کر پریس کانفرنس کرنے کی غلطی کی۔ ورنہ یہ وہ مقناطیس ہیں۔ جو ہر لوہے کی جانب کھچتا چلا جاتا ہے اور سب کا سپورٹ سسٹم مضبوط کرتا ہے۔

خواص اور حکمرانی کا کوئی ستون یا کہیں کوئی چھوٹا سا پرزہ بھی یہ ناراض نہیں کرتے۔ عوام کو بھی زکوٰۃ اور خیرات سے خوش کرتے رہتے ہیں اور دسترخوانوں پر کھانا کھلاتے رہتے ہیں۔

سب کے ساتھ بنا کر رکھتے ہیں اور بقول ایک صحافی کے کسی کو پانی کا گلاس بھی پلائیں تو ہر جگہ جا کر بتاتے ضرور ہیں۔ تو پھر ہیروں کی انگھوٹھی کے وزن کا ذکر تو بہت بڑا ہے۔

مگر میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک دم سے کسی بھی شخص میں اتنی برائیاں کیسے پیدا ہو جاتی ہیں؟ پیارے ملک پاکستان میں جب کوئی عظیم بنتا ہے تو انتہاؤں کو چھو لیتا ہے اور جب کوئی برا بنتا ہے، زمین پر قدموں تلے روند دیا جاتا ہے اور عام عوام سوچتی ہی رہ جاتی ہے۔ کہ کون سا بیانیہ درست ہے، اچھے والا یا برا؟

میرا کوئی پلاٹ یا گھر بحریہ ٹاؤن میں نہیں۔ میں ملک ریاض صاحب کو اتنا ہی جانتی ہوں۔ جتنا چینلز پر عام عوام کو بتایا اور دکھایا جاتا ہے۔ مگر میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ پاکستان کے سیاست دان ہر شخصیت کو صرف اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جب کوئی ان کے مفادات پورے کرنے سے معذوری کا اظہار کرے تو اس سے کنارہ کش ہونے میں چند لمحے بھی نہیں لگاتے۔

آپ نے پرانی ہندوستانی فلموں میں ایک ڈائیلاگ ضرور سنا ہوگا۔ جو کم و بیش ہر فلم میں تب بولا جاتا تھا۔ جب ہیرو کسی گینگسٹر کے گینگ میں باضابطہ شمولیت اختیار کرتا تھا۔ ڈان اپنے نئے آنے والے کارندے سے کہتا تھا کہ ہماری دنیا میں آنے کا راستہ ضرور ہے مگر واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔

پاکستانی سیاست بھی ایک ایسی ہی وادی پر خار ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ڈان فلم میں غدار یا کہیں نا فرمان کو مار دیتا تھا۔ مگر پاکستانی سیاست میں ڈس اون کر دیا جاتا ہے۔ پہچاننے سے انکار کرتے ہوئے، منہ دوسری طرف موڑ لیا جاتا ہے۔ پھر وہ چاہے کوئی ادنی کارکن ہو یا انویسٹر ہو۔ سیاست دان اپنے علاوہ کسی سے مخلص نہیں۔ یہ تو اپنے لانے والوں کی بھی جڑیں کاٹ رہے ہوتے ہیں اور دوسروں پر غداری کے الزامات لگا کر مظلوم انقلابی بنتے ہیں۔

ملک ریاض صاحب کے ساتھ کیا ہوگا؟ اچھا یا برا عام عوام منتظر رہے گی۔ مگر صرف اتنی گزارش ہے کہ بت نا تراشا کریں۔ پھر بعد میں جب گرتے ہیں تو عام عوام سوچتی ہے کس پر یقین کریں اور کس پر بھروسہ نا کریں۔

صرف ایک بات کہنا چاہوں گی۔ جو پانی کا گلاس دے کر بھی سب کو بتاتا ہے۔ شاید یہ سب کچھ اس نے انہی سیاست دانوں سے سیکھا ہوگا۔ جو مختصر راشن دے کر ویڈیو اپلوڈ کرتے ہیں۔ اپنے دسترخوان پر بٹھا کر کھانا کھلاتے ہیں اور بعد میں اختلاف یا ان کے نزدیک غداری کرنے پر، اپنے پیڈ صحافیوں کے زریعے کہلواتے ہیں کہ ہم جس کو بھی راتب کھلاتے ہیں، وہ ہم پر ہی غراتا ہے۔ کسی کو کھانا کھلانا دین اسلام میں ایک احسن عمل قرار دیا گیا ہے اور یہ سیاست دان دوسروں کو کھانا کھلانے کے عمل کو کیا سمجھتے ہیں؟

سب کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ تو پھر ایسے معاشرے میں ملک ریاض صاحب کی دھمکیاں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ کیوں کہ اشرافیہ سے لے کر عام عوام تک مجھ سمیت سب کے ظرف کے پیالے چھوٹے ہیں۔ جو ہر بات پر چھلک جاتے ہیں۔ ہم احسان کرکے جتلاتے ہیں اور اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی نیکیوں کو گنواتے ہیں۔ کون ہوگا ہم سے بڑا بیوقوف اور خسارے میں۔ اچھے عمل یا احسان کا بدلہ صرف اللہ رب العزت سے ملتا ہے۔ اسی کی آرزو رکھیں۔ کھیل میں شامل چھوٹے بچوں کی طرح نا لڑیں۔ یا پھر محلے کی لڑاکا عورتوں والے انداز نا اپنائیں۔ پاکستان کو میچور اور سنجیدہ رویے کی ضرورت ہے۔ عام عوام ان باتوں سے اکتا چکی ہے۔۔ خدارا عقل کر لیں۔

Check Also

Tabdeeli Ab Nahi Aaye Gi

By Saira Kanwal