Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. PECA Act Aur Azadi e Izhar e Raye

PECA Act Aur Azadi e Izhar e Raye

پیکا ایکٹ اور آزادی اظہار رائے

پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے تحت اسلام مخالف، پاکستان کی سلامتی یا دفاع کے خلاف مواد، امن عامہ، غیر شائستگی، غیر اخلاقی، غیر قانونی، توہین عدالت، گستاخانہ مواد، تشدد، فرقہ واریت، منافرت، کسی جرم کے لیے اُکسانا، عدلیہ اور مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینٹ میں حذف شدہ مواد کی نشر و اشاعت اور جھوٹی خبر پھیلانا غیر قانونی ہوگا اور ایسے مواد پر پیکا ایکٹ فی الفور حرکت میں آئے گا اور جرم ثابت ہونے پر تین سال قید اور بیس لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں سنائی جائیں گی۔

معزز قارئین پیکا ایکٹ ترمیمی بل کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس کی بالا شقیں بلواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی طرح پہلے ہی پاکستان پینل کوڈ یا ضابطہ تعزیرات پاکستان میں موجود ہیں۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124 الف، دفعہ 153 الف اور دفعہ 555 کے تحت بالا درج کی گئیں بے ضابطگیاں جرائم میں شمار کی جاتی ہیں اور ان کی سزا دو سال سے عمر قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں جرم کی نوعیت کے اعتبار سے ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 499 تا 502 جرائم ازالہ حیثیت عرفی کی بابت ہیں جو قابل دست اندازی پولیس ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جب پہلے سے قانون موجود ہوتا ہے تو سب کی زبانیں ایسے بند رہتی ہیں جیسے سانپ سونگھ گیا ہو لیکن جب ترمیم کی بات آتی ہے تو شور شرابہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ کُھلا تضاد نہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ حکومتی اقدامات پر کیڑے نکالنا ایک فیشن بن چکا ہے اور اس کے ذریعے اپوزیشن، میڈیا مالکان، صحافی اور سیاسی کارکن اپنی قابلیت کا اظہا ر کرتے ہیں یعنی نقاد بن کر پھولے نہیں سماتے۔

سوال یہ بھی ہے کہ جب قانون پہلے سے موجود ہے تو پھر ن لیگ کو اسے ترمیم کے بہانے منظر عام کیوں لائی ہے؟ ہماری دانست میں پی ٹی آئی کے مقتدرہ حلقوں کے ساتھ اِن ڈور رابطے، علی امین گنڈا پور کو ایک سائیڈ پر کرنا اور مذاکرات کی راہ ہموار ہونا ن لیگ کی حکومت کے لیے کوئی نیگ شگون نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیکا ایکٹ میں بظاہر تو ترمیم ہے لیکن درپردہ یہ بوٹ پالش کا ایک نیا طریقہ ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے حکومت کو پڑی ہوگی کہ وہ جانتی ہے کہ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں پر وہی کامیاب ہے جو پالش کا کوئی موقع نہ جانے دے!

بہرحال اظہار رائے کی آزادی ہو یا آزادی صحافت ہو، اس پر چیک اینڈ بیلنس دنیا کے ہر ملک میں ہوتا ہے کیونکہ آزادی اظہار کا یہ مطلب نہیں کہ یہ مادر پدر آزاد ہو۔ آزادی کا یہ معنی نہیں کہ لاقانونیت، دنگا فساد اور فرقہ واریت کی کیفیت کا سامان پیدا کردیا جائے اور نہ ہی آزادی اظہار کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ملکی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا جائے، معزز شخصیات کی کردار کشی کی جائے، بہتان بازی کرکے کسی کا سر نیچا کیا جائے، وڈیو لیک کرکے زندہ درگور کر دیا جائے جیسا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت کے ساتھ ہوا تھا۔

اس میں کوئی شک شبہ والی بات نہیں کہ سوشل میڈیا واقع ہی بے لگام ہو چکا ہے اور بداخلاقی میں گوڈے گوڈے ڈوبا ہوا ہے۔ کسی پر تعمیری تنقید کی بجائے اس کی ذات پر حملے کرکے ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ گالم گلوچ اور بد نظمی کا مظاہرہ تو عام ہے اور یہ سب واضح کرتا ہے کہ لوگوں میں برداشت کا مادہ سرے سے ہی ناپید ہے۔ جہاں برداشت نہیں ہوگی وہاں ڈائیلاگ کی روایت نہیں پڑ سکتی اور جہاں ڈائیلاگ کا رواج نہیں ہوگا وہاں پرآپا دھاپی ہوگی۔ لہذا ایسے معاشرہ میں اظہار رائے کی آزادی دینا آ بیل مجھے مار والی بات ہوگی!

سن اُنیس سو اکتیس میں لینن نے، آزادی صحافت کا اشتراکی نظریہ، میں لکھا کہ، آزادی صحافت ایک خالص جمہوری نظام میں کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ لیکن جب تک چھاپے خانے اور کاغذ کے ذخیرے سرمایہ داروں اور منافع خوروں کے ہاتھ میں ہیں، آزادی صحافت محض ایک جھوٹ ہے۔ ہمیں صحافت کی کایا پلٹنا ہوگی۔ ہم اسے سنسنی خیزی اور افراتفری پھیلانے والی خبروں کی اشاعت کا ذریعہ نہیں بننے دیں گے۔

لینن کی یہ بات آج پاکستان کی پرنٹ و الیکٹرانک صحافت کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ سن سینتالیس سے آج تک حکومتوں کی تبدیلی، آمریت کی راہ ہمواری، فرقہ وارانہ پھیلاؤ، فحاشی، ثقافتی و لسانی جبر و تشدد، ہمسایہ ممالک کے ساتھ دگرگوں تعلقات اور داخلی انتشار کا ایک اجمالی خاکہ ذہن میں لایا جائے تو آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ ان سب کی وجہ یہاں کے ایک مخصوص الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا ہے جس نے ملک کی اٹھتر سالہ تاریخ کو ریاستی بحران کی زِد میں رکھا۔

نامعلوم یا غیر مصدقہ ذرائع کا حوالہ دے کر مخصوص اور من پسند خبر نشر کرنا، بغیر تحقیق و ثبوت اکٹھے کیے خبر تراش لینا، رائے عامہ ہموار کرنے کی بجائے اس میں بگاڑ و انتشار پیدا کرنے والی خبریں بطور "بریکنگ نیوز" چلانا، واقعات کی رپورٹنگ کرتے اور حقائق کی ترجمانی کرتے وقت سچائی کی بجائے جذبات اور مجموعی عوامی رحجان و موڈ کو مدِ نظر رکھنا، کارٹونی صحافت کے آداب کی دھجیاں اُڑانا اور سیاسی و مذہبی و سماجی شخصیات کا تمسخر اڑانا اور ان کی کردار کشی کرنا، خبر کو ایسے انداز و تکنیک سے نشر یا شائع کرنا کہ جس سے "میڈیا مالکان" کی اپنی رائے، عوامی رائے نظر آئے، ملک کی سلامتی، قومی یکجہتی و استحکام کو، آزادی صحافت، کے ملمع تلے دبا دینا۔ آج کی صحافت کی نمایاں "خصوصیات" ہیں۔

مزید برآں، جب کسی صحافی پر غیر محتاط رپورٹنگ کا الزام بھی داغا جاتا رہا ہو اور ان کی تحقیقی رپورٹ "نامعلوم ذرائع" کے حوالے سے شائع بھی ہو اور صرف اپنے مطلب کی خبر لے اڑتے ہوں اور اُس کی تحقیق میں لگ جاتے ہوں۔ تو "نامعلوم ذرائع" اور "مطلب کی خبر" سے درجنوں سوالات ذہن میں جنم لینے لگتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ "مطلب کی خبر" راتوں رات شہرت پانے کے لیے ہو؟ یا اس سے "پارٹ ٹائم" ملتا ہو؟ یا اس سے "سپیشلائزیشن" کی دھونس جمائی جا سکتی ہو، وغیرہ وغیرہ۔

جب پاکستان میں، زرد صحافت، کو صحافت سمجھا جاتا ہے تو پھر اسے راہ راست لانے کے لیے قانون کی چھڑی کا استعمال کرنا کوئی بُری بات نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہاں کا قانون بھی وکھری ٹائپ کا ہے۔ اشرافیہ کے لیے راتوں کو عدالتیں کھل جاتی ہیں جبکہ غریب عوام انصاف کی راہ تکتے ہوئے دنیا سے ہی کوچ کر جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال دیکھیں کہ سرکاری ملازمین کے مسائل کے لیے لاہور کا فیڈرل سروس ٹربیونل (FST) چھ ماہ سے بند پڑا ہے۔ کوئی بینچ موجود نہیں ہے۔ سینکڑوں ملازمین انصاف کی راہ تکتے تکتے ریٹائرمنٹ کی راہ کے نزدیک پہنچ گئے ہیں۔

آزادی صحافت کا یہ معنی ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اس کے نام پر ملک و عوام کی آزادی کو خطرات لاحق کر دیئے جائیں۔ مُکدی گَل یہ کہ پاکستان کو ہمسایہ ملکوں کی فوج سے بھی اتنا خطرہ نہیں جتنا کہ یہاں کی صحافت اور اس کے کارکنوں سے ہے۔ بقول شاعر:

جنہیں سمجھتے تھے ہم اپنی جان کے ضامن
خود آستیں میں وہی سانپ ہم نے پالے ہیں

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan