Sahafat Ka Janaza Hai, Zara Dhoom Se Nikle
صحافت کا جنازہ ہے، زرا دھوم سے نکلے

پاکستان میں جتنی دیدہ دلیری سے صحافت اور آزادی اظہار کو "گھناؤنا جرم" بنانے کے لیے آئین پاکستان اور پاکستان پینل کوڈ کے ساتھ کھلوارڈ کیا جا رہا ہے، اس کی ماضی میں مثالیں صرف اور صرف کھلی اور اعلانیہ فوجی آمریتوں کے دور میں ملتی ہیں۔ ماضی میں کوئی ایسی حکومت نہیں ملتی جو چاہے نام کی جمہوری رہی ہو اور اس نے ایسے کالے قوانین کو بنایا ہو جیسے قوانین ہمیں 2013ء کے بعد سے مسلسل بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ایک کالا قانون بنایا جاتا ہے اور پھر کچھ مہینوں اور سال بعد اسی کالے قانون کو مزید کالا اور اور مزید فسطائیت پر مبنی ترامیم سے اور کالا کردیا جاتا ہے۔ جیسے پہلے "انسداد سائبر کرائمز ایکٹ" (پیکا ایکٹ) بنایا گیا۔ اسے پاکستان کے صحافتی، سیاسی، عدالتی اور قانونی حلقوں نے صحافت اور رائے کی ازادی کے منافی قرار دیا تھا۔
اس زمانے میں موجودہ حکومت کی اتحادی سیاسی جماعتوں نے بھی اس قانون کی مخالفت کی تھی لیکن پھر اس قانون کو مزید خوفناک ڈریکولائی بنایا جاتا ہے اور حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتی فوائد سمیٹنے اور اس سے زرا فاصلے پر رکھنے والی جماعت پی پی پی کی پارلیمانی جماعت نے بھی اس ترمیمی بل کی منظوری دی حالانکہ پی پی پی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے اپنے اجلاس میں اس قانون بارے پارٹی قیادت سے واضح موقف اپنانے کی درخواست کی تھی۔ آخر وہ کون سا دباؤ ہے جس کا سامنا کرنے کی ہمت کسی جمہوری سیاست کے دعوے دار میں دیکھنے کو بھی نہیں مل رہی؟
پاکستان کی تاریخ میں میڈیا پر قدغنیں کوئی نئی بات نہیں، لیکن موجودہ حالات میں یہ پابندیاں زیادہ گہری اور پیچیدہ ہوگئی ہیں۔ ان پابندیوں کا مقصد صرف صحافیوں کو خاموش کرنا نہیں بلکہ سچائی کو ایک ایسے دائرے میں محدود کرنا ہے جہاں صرف حکومتی بیانیے کو جگہ دی جا سکے۔
روزنامہ قوم ملتان کی اشاعت کا تیسرا سال جاری ہے۔ ہمیں انتہائی تلخ تجربہ ہے کہ گزرے دو سالوں میں جب بھی سرکاری اور غیر سرکاری جگہوں پر اس ملک کے آئيں، قوانین سے کھیلوارڈ کرنے اور اس ملک کی جڑوں کو کرپشن سے کھوکھلا کرنے والے افراد یا گروہوں کی نشاندہی کی گئی۔ ایمانداری سے تحقیقاتی صحافت کو پروان چڑھایا گیا تو حیلوں، بہانوں سے ادارے کو سچ بولنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ دو سالوں میں ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ، عدالتی استغاثوں اور دعوؤں اور پولیس گردی کے زریعے سے آزادی سلب کرنے کی کوشش کی گئی۔
دباؤ اب بھی جاری ہے اور صرف روزنامہ قوم ملتان ہی نہیں بلکہ ہر وہ اخبار، ٹی وی چینل جو "معروضی رپورٹنگ" کی ثقافت کو پروان چڑھاتا ہے اسے ختم کرنے کی کوشش شروع ہوجاتی ہے۔ صحافیوں کے خلاف مقامی تھانوں میں جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات کے اندراج کی روایت تو کافی پرانی ہے لیکن پیکا ایکٹ نے اس روایت کو مزید خونخوار بنادیا ہے۔ پولیس اور ایف آئی اے کے ساتھ ساتھ اب ایک اور نئی اتھارٹی معروضی صحافت کرنے والوں کا 'قبلہ' سیدھا کرے کی۔
قلم کی طاقت اور بندوق کی گرج کے مابین کشمکش ہمیشہ سے ایک ایسی حقیقت رہی ہے جو آزادیٔ اظہار کی جدو جہد کا مرکز ہے۔ آج پاکستان میں یہ جدوجہد ایک نئے موڑ پر پہنچ چکی ہے، جہاں نہ صرف میڈیا بلکہ سوشل میڈیا پر بھی سخت پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کی حالیہ رپورٹ "ہارش سینٹینسز" اس تلخ حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ کس طرح آزادیٔ اظہار کو دبانے کے لیے قانونی اور ادارتی حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
آزادیٔ اظہار پر ان قدغنوں کا اثر صرف میڈیا ہاؤسز یا صحافیوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ معاشرے کے ہر فرد کو متاثر کرتا ہے۔ میڈیا کا کام عوام کو معلومات فراہم کرنا ہے، لیکن جب اس کام میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں تو عوام کو صرف وہی معلومات ملتی ہیں جو حکومت یا طاقتور عناصر فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں آزادیٔ اظہار کی صورت حال خاص طور پر حالیہ برسوں میں شدید خراب ہوئی ہے۔ 2022 میں صحافی ارشد شریف کی موت نے اس جبر کی ایک خوفناک مثال پیش کی۔ ان کی موت نے میڈیا کے ماحول میں خوف و ہراس پیدا کیا اور صحافیوں کو یہ پیغام دیا کہ سچ بولنے کی قیمت بہت بھاری ہو سکتی ہے۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق، حکومت اور دیگر طاقتور عناصر نے میڈیا کو دبانے کے لیے کئی حربے اپنائے ہیں۔ ان حربوں میں میڈیا ہاؤسز کے اشتہارات بند کرنا، صحافیوں کو دھمکانا اور سوشل میڈیا کارکنوں کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ یہ تمام اقدامات ایک ایسے ماحول کو جنم دے رہے ہیں جہاں سچائی کو دبانا آسان ہو اور اختلافی آوازوں کو خاموش کرنا ممکن ہو۔
سوشل میڈیا، جو کبھی آزادیٔ اظہار کا ایک اہم ذریعہ تھا، اب خود ایک میدان جنگ بن چکا ہے۔ حکومت اور دیگر طاقتور عناصر نے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے ہیں، جن میں "پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ" بھی شامل ہے۔ یہ قوانین، جو ابتدا میں سائبر کرائم کے انسداد کے لیے بنائے گئے تھے، اب اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان قوانین کا مقصد غیر ضروری مواد کے پھیلاؤ کو روکنا اور معاشرتی استحکام کو یقینی بنانا ہے، لیکن حقیقت میں یہ قوانین آزادیٔ اظہار کو محدود کر رہے ہیں اور پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سافٹ ویئر ایکسپورٹرز اور فری لانسرز کو ان پابندیوں کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا ہے، جس سے نہ صرف ان کا روزگار متاثر ہو رہا ہے بلکہ ملک کی معیشت بھی متاثر ہو رہی ہے۔
یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں حکومتیں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ امریکہ میں ٹک ٹاک پر پابندی کی بحث ہو، بھارت میں مودی حکومت کے سخت قوانین، یا چین میں سوشل میڈیا پر مکمل کنٹرول، سب کے پیچھے ایک ہی مقصد ہے: اختلافی آوازوں کو دبانا اور حکومتی بیانیے کو مضبوط کرنا۔
بھارت کی مثال یہاں خاص طور پر اہم ہے، جہاں حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو سخت قوانین کے تحت مجبور کیا ہے کہ وہ وہی مواد دکھائیں جو حکومت کو پسند ہو۔ بڑے تجارتی ادارے، جیسے امبانی اور اڈانی، میڈیا کی آزادی کو محدود کر رہے ہیں تاکہ حکومتی بیانیے کو فروغ دیا جا سکے۔
چین کی مثال بھی قابل ذکر ہے، جہاں حکومت نے سوشل میڈیا پر مکمل کنٹرول حاصل کر رکھا ہے اور ہر قسم کے غیر ضروری مواد کو بلاک کیا جاتا ہے۔ چین نے اپنی توجہ معاشی ترقی پر مرکوز رکھی ہے، لیکن اس ترقی کی قیمت پر آزادیٔ اظہار کو قربان کر دیا گیا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک کے لیے سوال یہ ہے کہ کیا وہ ان عالمی رجحانات کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا ایک مختلف راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں؟ اختلافی آوازوں کو دبانے کے بجائے، سوشل میڈیا کو جمہوری اصولوں کے فروغ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
آج کے دور میں، جہاں معلومات تک رسائی آسان ہو چکی ہے، آزادیٔ اظہار پر پابندی لگانا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن حکومت اور دیگر طاقتور عناصر ان پابندیوں کو نافذ کرنے کے لیے جدید طریقے اپنائے جا رہے ہیں، جن میں سوشل میڈیا پر کنٹرول، اختلافی آوازوں کو دبانا اور عوام کو محدود معلومات فراہم کرنا شامل ہے۔
پاکستان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ آزادیٔ اظہار کو محدود کرنے سے وقتی فوائد تو حاصل ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے طویل مدتی اثرات جمہوری اصولوں اور معاشرتی ترقی کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔ اگر پاکستان نے ان پابندیوں کو ترک نہ کیا، تو وہ نہ صرف داخلی طور پر کمزور ہو جائے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی ساکھ کھو بیٹھے گا۔
آج وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت اور دیگر طاقتور ادارے آزادیٔ اظہار کو محدود کرنے کے بجائے اسے فروغ دیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کو جمہوری اصولوں کے تحت کام کرنے دیا جائے تاکہ عوام کو مکمل اور شفاف معلومات فراہم کی جا سکیں۔ صرف اسی صورت میں ہم ایک مضبوط اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں، جہاں اختلافی آوازوں کو دبانے کے بجائے ان کی قدر کی جائے۔
اظہار پر پابندی کے اس سلسلے کو ختم کرنا ہی وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں حقیقی جمہوریت اور ترقی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور آزادیٔ اظہار کو محفوظ بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔