Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Maut Aik Mushahida

Maut Aik Mushahida

موت ایک مشاہدہ

لاکھوں کروڑوں درود و سلام سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر، اِس زندگی کے سفر میں اور کچھ ہو نہ ہو ایک بات تو طے ہے کہ ہمیں موت کے مشاہدے سے گزرنا ہے، حضرتِ انسان ہمیشہ ہی اِس کوشش میں رہا ہے کہ موت سے کیسے بچا جائے اور لاکھ جتن کرتا ہے کہ اس کی عُمر زیادہ سے زیادہ ہو، لیکن آخر تو موت کو آنا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ موت کا سامنا کیسے کیا جائے، اللہ والے لوگ موت کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں، وہ کیا کشف اُن کو عطا ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ اِس کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں، حالانکہ عام انسان موت سے ڈرتا رہتا ہے۔

حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ موت سے زیادہ خوفناک موت کا ڈر ہے، موت اتنی بھیانک چیز نہیں ہے، اگر آپ اپنی فانی اور لافانی زندگی کو ملا کر دیکھیں تو آپ کو موت ایک پڑاؤ ہی نظر آئے گا، دنیا دار کے لیے موت مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ جو کچھ اس نے بنایا ہوتا ہے کمایا ہوتا ہے اس کا دل نہیں چاہتا کہ اُس کو چھوڑ کے جایا جائے، لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہ موت سے پہلے ہی مر جاتے ہیں، موت سے پہلے مرنا یہ ہے کہ جو چیزیں موت کے بعد آپ نے چھوڑ کے جانی ہے وہ موت سے پہلے ہی چھوڑ دیں۔

فرزندِ اقبال ڈاکٹر جاوید صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت علامہ اقبالؒ کا جب آخری وقت آیا تو اُن کے ڈاکٹر پاس کھڑے تھے، تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں آپ کو بے ہوشی کا انجکشن لگا دیتا ہوں، لیکن حضرت علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ نہیں میں بے ہوشی میں مرنا نہیں چاہتا، میں موت کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہوں، یہ ایک ایسا مشاہدہ ہے جو کہ ہر انسان صرف ایک بار ہی کرے گا، یہ کیا عمل ہے کیا پراسیس ہے اِس کو سوچنا بہت ہی دلچسپ لگتا ہے۔

مومن کا دل دنیا میں نہیں لگتا وہ تو اپنے محبوب سے ملنے کے انتظار میں ہوتا ہے اور یہ انتظار اور یہ وصل ممکن ہی موت کے بعد ہے، تو واصل ہونے کے لیے مرنا پڑے گا، جیسے اگر ایک مچھلی سمندر میں تیر رہی ہے اور اُس کو ساحل دیکھنے کی خواہش ہے تو ساحل کا دیدار اُسی وقت ممکن ہے جب وہ ساحل پر آ جائے اور ساحل اُس کی موت ہے۔

حضرت انسان کا بھی بالکل یہی حال ہے دنیا میں چل رہا ہے کما رہا ہے کھا رہا ہے کھیل کود رہا ہے لیکن حقیقتوں کے ساتھ واصل ہونے کے لیے موت کی وادی میں اترنا پڑے گا، بس اپنے آپ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے، الحمدللہ، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ھمیں شریعت میں پورا کوڈ اف ایتھکس دے دیا گیا ہے، اِس پر عمل کرتے ہوئے موت کے وقت کو آسان بنا سکتے ہیں، بہت سے ایسے لوگ ہیں اور بہت سے واقعات ہیں جو کہ بیان کیے جا سکتے ہیں۔

ایک واقعہ مجھے یاد آ رہا ہے کہ ایک بزرگ تھے جب اُن کا آخری وقت آیا تو وہ بستر مرگ پر تھے، گھر والے بتاتے ہیں کہ وہ کافی عرصہ بستر پر رہے، لیکن جب وقت آیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے نئے کپڑے پہناؤ میرے سر پہ دستار سجاؤ، گویا کہ وہ اندر سے مطمئن تھے کہ اِس مشاہدے سے گزر رہے ہیں، لوگوں نے آسان موت کی دعائیں مانگی ہیں، موت آسان اُسی وقت ہو سکتی ہے جب دنیا کی رغبت آپ کے دل سے نکل چکی ہو، پھر مرنا کیا جینا کیا ایک برابر ہے۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ موت دنیا دار کی ہوتی ہے اللہ والوں کے لیے وصال ہے، اللہ والوں کے مزاروں پر میلے دیکھیں اتنی رونق تو شاید اُن کی زندگی میں نہیں ہوگی، جتنی مرنے کے بعد لوگوں نے لگا رکھی ہے، ایسا کیوں ہے یہ غور و فکر کا مقام ہے، اللہ پاک آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan