Imandar Shakhs Ko Jeene Ka Haq Kyun Nahi?
ایماندار شخص کو جینے کا حق کیوں نہیں؟

پاکستان کی سیاست، انتظامیہ اور معاشرتی ڈھانچے میں ایک تلخ حقیقت پنہاں ہے ایمانداری کو ایک جرم بنا دیا گیا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں سچ بولنے کی قیمت چکانی پڑتی ہے اور دیانتدار افسران، نیک انسان اور اصول پسند افراد کو سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایماندار ہونا اب ایک فریب کی طرح محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ کوئی گناہ ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایمانداری جرم ہے؟ کیا یہ کوئی گناہ ہے؟ کیا سچ بولنا واقعی اتنی بڑی غلطی ہے کہ اس کی سزا دی جائے؟
اس سوال کا جواب اس وقت ہمارے سامنے آتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ڈی آئی جی حنیف اللہ جیسے افسران، جو نہ صرف اپنی فرض شناسی کی وجہ سے معروف ہیں بلکہ ایک مضبوط اور بے داغ کردار کے مالک بھی ہیں انہیں صرف اس لیے قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق سیاسی دائرے سے جڑا ہوا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ خالد خورشید جیسے سیاسی رہنما کے بھائی ہیں اور یہی تعلق ان کے لیے ایک سیاسی گناہ بن چکا ہے۔ ان کی سچائی اور ایمانداری نہ صرف نظرانداز کی جاتی ہے، بلکہ ان کی تذلیل اور تضحیک کی جاتی ہے۔ کیا یہ ایمانداری کی سزا ہے؟
پاکستان میں ایماندار ہونا کوئی خوبی نہیں، بلکہ عذاب بن چکا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ایمانداری کسی بھی معاشرے کا ستون ہونی چاہیے تو ہمارا یہ کہنا صرف ایک خواب نظر آتا ہے۔ یہاں تو سچ بولنا، اصولوں پر قائم رہنا اور قربانی دینا ان خصوصیات کا کٹ جانا ہے جو نہ صرف سزائیں لاتی ہیں، بلکہ آپ کو سائیڈ لائن بھی کر دیتی ہیں۔ سچ وہ چیز ہے جو طاقتوروں کو بے نقاب کرتا ہے، جو کرپٹ نظام کی حقیقت دنیا کے سامنے لاتا ہے اور یہی سچ وہ نہیں چاہتے۔
پاکستان کے سیاستدان، خواہ وہ مریم نواز ہوں یا آصف زرداری، وہ ہمیشہ یہی چاہتے ہیں کہ عوام ان کی بے اصولی، جھوٹ اور بدعنوانی کو نظرانداز کرے اور جو کوئی اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس حقیقت کا شکار حنیف اللہ جیسے افراد ہیں، جو صرف اس لیے تنقید کا نشانہ بنتے ہیں کہ ان کا تعلق غلط۔ سیاسی جماعت سے جڑا ہے۔
سچ بولنے والا شخص کبھی خوش نہیں ہوتا، کیونکہ وہ ہمیشہ نظام کی زد میں آتا ہے۔ وہ گناہ کے طور پر تصور کیا جاتا ہے، جبکہ جھوٹ بولنے والا شخص، جو ہر دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام جھوٹوں کے درمیان، ایماندار شخص صرف سچ بول کر اپنی شناخت بنانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ جانتا ہے کہ یہ راستہ اتنا آسان نہیں ہے۔ سچ کا قاصد ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے، کیونکہ وہ نظام میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور جب دراڑ پڑتی ہے، تو وہ شخص سائیڈ لائن ہو جاتا ہے، اسے ماضی کی طرح بدنام کر دیا جاتا ہے۔
ہم سب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے معاشرتی اقدار میں جو بھی تبدیلی آتی ہے وہ ہماری اندرونی حالتوں کی عکاسی کرتی ہے۔ ہم نے اس نظام کو اپنے مفاد پرست سیاستدانوں کے ہاتھوں کھو دیا ہے جنہوں نے ایمانداری کو "گناہ" بنا دیا ہے اور جھوٹ کو کامیابی کا زینہ بنا دیا ہے۔ جب تک ہم ایمانداروں کو سراہیں گے نہیں، اس معاشرتی سوچ میں تبدیلی نہیں آئے گی۔
ایمانداری کی سولی پر چڑھانے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایماندار شخص کبھی بھی اس معاشرے سے فراموش نہیں ہوگا، وہ تاریخ کے صفحات میں زندہ رہے گا، جب کہ جھوٹ بولنے والے، مفاد پرست اور بدعنوان افراد صرف گمنامی کی موت مریں گے۔ ہمیں سچ بولنے والوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، کیونکہ وہی ہماری قوم کا حقیقی اثاثہ ہیں۔
ایمانداری کو سولی پر چڑھانے والے نظام کا حشر وہی ہوگا جو کبھی ظالم بادشاہوں کا ہوا تھا۔ تاریخ کا پہیہ ہمیشہ سچ اور اصولوں کی طرف مڑتا ہے اور جھوٹ کا سراب ایک دن مٹ جاتا ہے۔ لہذا ہمیں نہ صرف اپنے دلوں میں ایمانداری کا احترام کرنا ہوگا، بلکہ اپنے ارد گرد کے ماحول میں بھی اس کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانی ہوگی۔
پاکستان میں ایمانداری کو ایک جرم اور گناہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سچ بولنے والے وہ لوگ ہیں جو نظام کی کرپشن کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ سائیڈ لائن ہو جاتے ہیں، جب کہ جھوٹ بولنے والے اور مفاد پرست لوگ اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایمانداری کا راستہ ہمیشہ کٹھن ہوتا ہے، لیکن سچ ہی وہ چیز ہے جو آخرکار کامیابی کی منزل تک لے جاتی ہے۔ ہمیں دیانتدار افراد کی حمایت کرنی چاہیے، کیونکہ وہ ہمارے معاشرے کی حقیقی طاقت ہیں۔
ایماندار شخص چاہے اسکا تعلق کسی سے بھی ہو اسکا ستحصال نہیں ہونا چاہئے ورنہ اللہ تو دیکھ رہا ہے اسکا عدل میدان بھی لگنا ہے جہاں کھرا کھوٹا خود یعنی اپنے عملوں سے ظاہر ہوگا وہاں کوئی سیاسی سفارش کام نہیں آئے گی تو ڈریں خدا کا خوف کریں اور ایک ایماندار ذمہ دار انسان کی یوں بلاوجہ تذلیل و تحقیر نہ کریں سچ کو طاقت کے زور پر کچھ دیر کے لئے ضرور دبایا جاسکتا ہے مگر چھپایا نہیں جا سکتا معرکہ کربلا کا واقعہ ہمارے سامنے ہے 9 لاکھ والوں پر دنیا آج بھی لعنت بھیجتی ہے اور 72 کی قلیل تعداد والوں پر آج بھی درود بھیجا جاتا ہے اگر ابھی بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آتا ہے تو اپنی عقلوں پر ماتم کریں یا اس کا علاج کروائیں۔
میرا سوال ہے پاکستان میں ایماندار لوگوں کا راستہ کیوں روکا جاتا ہے؟