Paison Ki Daur
پسیوں کی دوڑ
بچپن میں جب میں چھوٹا ہوا کرتا تھا گاوں میں جب کوئی شادی ہوا کرتی تھی، تو ہم سب دوست اس شادی پر پیسے لوٹنے جایا کرتے تھے۔ میں کبھی بیس کبھی چالیس تو کبھی کبھی ساٹھ ستر بھی لوٹ لیا کرتا تھا۔ جب برات کے لوگ پیسے لوٹا رہے ہوتے تھے۔ تو بہت دکھم پیل ہوا کرتی تھی۔ نفسانفسی کا عالم ہوتا تھا۔ ہر بچے کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ مجھے زیادہ سے زیادہ پیسے مل جائیں اگر کسی چھوٹے بچے کے ہاتھ کوئی نوٹ لگ جاتا تو وہ بھی اس بچارےسے چھین لیا جاتا تھا۔
کچھ شادیوں میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ جب برات روانہ ہونے لگتی تو ایک گاڑی کی سپیڈ آہستہ کر کے کبھی ایک تو کبھی دو نوٹ پھینک دیے جاتے اور انہیں نوٹوں کے پیچھے بچے بھاگتے بھا گتے کے کافی دور نکل جاتے تھے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں بھی اس دوڑ میں شامل ہو گیا۔ اور پیسے لٹانے والی گاڑی کے پیچھے دوڑنا شروع ھو گیا۔ وہ کبھی کبھی دو چار نوٹ بینک دیتے۔ میں چونکہ بچا تھا تو میرے ہاتھ کوئی نوٹ نہیں آ رہا تھا۔ میں نے ہمت نہ ہاری اور بھاگتا رہا کہ کبھی تو کوئی نوٹ میرے ہاتھ بھی لگے گا۔ مجھے بھی میری محنت کا پھل ملے گا۔ پر بھاگ بھاگ کر میری حالت بہت بری ہوگئی تھی۔ پھر اچانک سات آٹھ نوٹوں کا گٹھا میرے منہ پر آ کر لگا اور میں نے اسے دبوچ لیا۔ میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ میں نے اور پیسوں کے لالچ میں اور تیزی سے بھاگنا شروع کر دیا۔ ہمیں پتہ ہی نہ چلا ہم دوست ان پیسوں کے لالچ میں اپنے گھر سے کتنا دور آ نکلے ہیں۔ ہم بس بنا سوچے سمجھے بھاگے جا رہے تھے۔
پھر اچانک سے میرا پاؤں کسی چیز میں اٹکا اور میرا سر زمین پر زور سے جا ٹکرایا۔ اور میں تقریبا بے ہوش ہو گیا تھا۔ میرے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ میرے دوستوں نے مجھے اٹھایا اور بڑی مشکل سے گاؤں واپس لائے۔ اور جو پیسے میں نے لوٹے تھے اسی سے میری پٹی کرواکے دوائی لے دی۔ اور جب میں گھر پہنچا تو میرے پاس سر پر لگی ہوئی پٹی اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی دوائیوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔
اب میں بڑا تو ہو گیا ہوں پر میں اب بھی اسی پیسوں کی دوڑ میں اسی کار کے پیچھے بھاگ رہا ہوں۔ اور دو چار نوٹ لوٹ لینے کے بعد اپنی دوڑ کو اور تیز کرتا جا رہا ہوں تاکہ اور نوٹ لوٹ سکوں اور ان نوٹوں کو لوٹنے کے نشے میں بھول ہی چکا ہوں کہ میں اپنے گھر اپنے رشتوں اور اپنے دوستوں کو کتنا پیچھے چھوڑ آیا ہوں اور سب سے اہم رشتہ جو بندے کا اپنے اللہ سے ہوتا ہے اس سے کس قدر لاتعلقی اختیار کر چکا ہوں۔ اور اب مجھے ڈر ہے کہ کہیں پھرسے مجھے ٹھوکر نہ لگ جائے اور میں نیچے نہ گر جاؤں۔ اور میرے سارے لوٹے ہوئے پیسے لیں ذات پر ہی نہ لگ جائیں اور جب میں گھر جاؤں تو کہیں میرے ہاتھوں میں دوائیوں کے سوا کچھ نہ ہو۔۔