Tarsaan Goyai
ترساں گویائی

قہر ڈھاتی گرمی میں جب درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے تو کھچا کھچ بھری بس میں سفر یقیناً سوہان روح مگر وہی ازلی مجبوری کہ ننگی کیا نہائے گی اور کیا نچوڑے گی! ویسے بھی آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی نے ہم غریبوں کے سارے کس بل نکال دیے ہیں۔ نہ ہی کوئی شوق بچا اور نہ ہی کوئی ولولہ کہ ہم رہے نہ ہم۔ پیٹ اور یوٹیلیٹی بلز کے علاوہ دوجا کوئی خیال دماغ میں آتا ہی نہیں۔ بقول انجم سلیمی
عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں
رات بستر پہ میں سوتا نہیں مر جاتا ہوں
وہ بھی ایسی ہی حبس بھری صبح تھی اور مرے پہ سو درے کہ مہینے کا آخر بھی۔ میں بے شکّر کالی چائے کے ساتھ روکھی روٹی نگل کر دہلیز تک پہنچا ہی تھا کہ رقیہ نے اخراجات کی فہرست گنا کر دبی زبان میں کچھ پیسوں کا تقاضا کیا۔ میں نے کلپتے دل اور جھنجھناتے دماغ کے ساتھ بس کا کرایہ مٹھی میں بھینچتے ہوئے اپنے پینٹ کی دونوں خالی جیبیں الٹ دیں۔ آخری دنوں کے کال کو وہی سمجھ سکتا ہے جو اس عذاب سے ہر ماہ گزرتا ہے۔ ہم غریب بالکل کولہو کا بیل
یہ روٹیاں ہیں، یہ سکّے ہیں اور ہیں دائرے
یہ ایک دوجے کو دن بھر پکڑتے رہتے ہیں
بس روٹی بوٹی کے چکر میں چکراتے چکراتے زندگی تمام ہو جاتی ہے۔ مالکوں کے اپنے نخرے، ان کے نا ختم ہونے والے ششکے اور ہم مزدوروں کے لیے ان گنت تاویلیں سو تنخواہ آج بھی نہ ملی۔ میں نے اپنے دوست حمید اللہ سے پانچ سو ادھار پکڑا اور اپنے آپ کو گھسیٹ کر بس اسٹاپ تک لے آیا۔ دکھتا سر، لڑکھڑاتے پیر اور سائٹ ایریا سے سرجانی تک کا سفر، الاماں الاماں!
منی وین لوگوں کے بوجھ سے ایک طرف کو جھکی رواں دواں تھی۔ رش ایسا کہ بندہ اپنی جیب کے دھوکے میں دوسرے کی جیب میں ہاتھ ڈال دے۔ حبس اور پسینے کی بدبو سے میرا جی متلانے لگا حالانکہ یہ ابتری ازل سے میری دیکھی برتی۔ استاد ٹھہرا بادشاہ آدمی سو اس کی مرضی کہ اسٹاپ پر وین روکے یا بیچ سڑک پر۔ کون ہے بھلا پوچھنے والا؟
چار اسٹاپ بعد میں ٹھڈے، دھکے کھاتا قدرے آگے آ چکا تھا اور قسمت کی یاوری کہ ایک خالی سیٹ بھی مل گئی۔ ابھی میرے دکھتے بدن نے ادھڑی سیٹ سے راحت کی رمق بھی کشید نہ کی تھی کہ عین میرے مقابل سیٹ کے راڈ کو اپنے نحیف ہاتھوں سے مضبوطی سے جکڑے ایک ضعیف ملتجی نظروں سے تکتا نظر آیا۔ میں نے بے حسی سے سر جھٹک کر آنکھیں موند لیں۔ میں نے سارے جہان کا ٹھیکہ تھوڑی لے رکھا ہے؟ اور نہ ہی میں کوئی آپ کا خادم ٹائپ بندہ۔ پائلٹ بادشاہ نے جانے کس پینک میں بریک پر دباؤ بڑھایا اور بڑے میاں جھکولا کھا کر میری گود میں۔ عین اسی لمحے کمبخت انسانیت مجھ پر پوری شدت سے حملہ آور ہوئی اور میں نے بڑے میاں کو سہارا دیتے ہوئے انہیں اپنی سیٹ دے دی۔
کھڑے ہو کر راڈ پکڑنے سے پیشتر میں نے مارے حفاظت، اس اکلوتے پانچ سو کے نوٹ کو جیب سے نکال کر اپنی بوسیدہ بنیان میں اڑیس لیا۔ بڑے میاں نم دیدہ آنکھوں کے ساتھ ابھی تک منہ ہی منہ میں کچھ بدبدا رہے تھے۔ بڑے میاں نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر میرا شکریہ ادا کیا اور دعائیں بھی دیں۔ پھر تو بھئی چل سو چل۔ بڑے میاں تو اپنا شجرہ ہی کھول بیٹھے۔ سنہ پچاس میں چھ سال کی عمر میں اپنے بھرے پرے کنبے کے ساتھ رام پور سے کراچی ہجرت کی۔ عرصے تک کیمپ میں رلتے پھرے پھر کھارادر میں رہائش اختیار کی۔ انٹر تک تعلیم حاصل کی اور پورا توانا وقت سیٹھ گفاریہ کی چاکری میں گزار دیا۔ ہمارے معاشرے میں بوڑھا گھوڑا ہو یا آدمی دونوں ہی ناکارہ۔ اب اس بڑھاپے میں کسی بھلے مانس کی آفس میں چائے بنانے اور پلانے کی چکری کرتے ہیں۔ بقول ان کے ساٹھ، ستر کی دہائی میں روٹی سستی اور زندگی قیمتی تھی۔ چھ آدمیوں کا کنبہ بھی پیٹ بھر روٹی کھا کر مست الست رہتا تھا۔ زیادہ کی ہوس نہ تھی اور لحاظ اور بھائی چارے کا دور دورہ بھی۔ وہ اُس وقت کے کراچی اور اب کے کراچی کے حالات کا موازنہ کرتے دکھڑا روتے، آہیں بھرتے رہے۔ میں کیا جانوں کہ ستر کی دہائی میں کراچی کیسا تھا؟
میں نے تو اپنے ہوش میں بریکر اور بیریر والا ہی کراچی دیکھا ہے۔ بوری میں بند لاشوں والا کراچی جہاں انسان، انسان نہیں فقط اخبار میں چھپا نمبر بن کر رہ گیا تھا۔ ایک وہ دہشت ناک دور تھا اور ایک آج کے حالات کہ مزید نا گفتہ بہ۔ سڑکیں بے امان، نہ جان محفوظ اور نہ ہی مال۔ اگر لٹیروں کی گولی سے بچ گئے تو ٹینکر یا ڈمپر سے کچلے گئے۔ اب روٹی مہنگی اور جان سستی ہے۔ میں بے دلی سے بڑے میاں کی آدھی ادھوری باتیں سنتا سرے سے سرا ملاتا، سر ہلاتا، ہوں ہاں کرتا رہا۔
اچانک بڑے میاں جنہوں نے اپنا نام جانے بشیر یا قدیر بتایا تھا، اُچک کر کھڑے ہوئے اور کہا بیٹوا اگلے سے اگلا اسٹاپ میرا ہے۔ ابھی سے آگے کو سرکوں گا تو دروجّے نجیک پہنچ پاؤں گا۔ چلتے ہوئے شفقت سے میرا کندھا تھپتھپایا۔ ان کے آخری جملے نے مجھے جکڑ لیا۔
سکھی رہو بیٹوا کہ تم نے مجھ بھرے پرے کنبے کے تنہا بڈھے کو سن لیا۔ آج میں نے چار دن بعد کسی انسان سے بات کی ہے۔

