Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Soz e Nihan (1)

Soz e Nihan (1)

سوز نہاں (1)

اب بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ ہم ولیمے میں سو لوگ لائے گے؟ جب ہم لوگ بارات میں پچاس لوگ لے کر جا رہے ہیں تو انہیں بھی ولیمے میں پچاس ہی لوگوں کو لانا چاہیئے کہ اسی طرح مروجہ ہے، سمجھو یہ ایک طرح کا ان کہا باہمی سمجھوتا ہوتا ہے۔ عجیب لوگ ہیں الٹی گنگا ہی بہائے دے رہے ہیں۔ ہم لوگ لڑکے والے ہیں مگر لڑکی والے اپنی ہی منوائے چلے جارہے ہیں، آگے آگے دیکھو امتل کہ ہوتا ہے کیا۔

آنگن کے وسط میں لگے نیم کی گھنیری چھاؤں تلے سرمد کے ابا نے بے زاری سے اپنے سامنے رسیدوں کا انبار رکھے، ناک پہ چشمہ ٹکائے کیلکولیٹر سے سر کھپاتے ہوئے کہا۔

میں نے سرمد کی دلہن کی چوتھی کی ساڑھی میں لگاتے فال کا آخری ٹانکہ مکمل کرتے ہوئے دانتوں سے دھاگہ توڑا اور انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ جانے دیجئے ملک صاحب اکلوتے بیٹے کی خوشی کا موقع ہے۔

ارے! اگر اکلوتا بیٹا ہے تو کیا اپنے آپ کو مونڈوا دوں؟ عجیب بات کر رہی ہو۔ میں ایک درمیانے درجے کا صحافی ہوں، مر مر کے تو یہ سر چھپانے کا آسرا بنا پایا ہوں صحافی کالونی میں اور اچھے سے سمجھ لو امتل کہ بس فقط یہ گھر ہی ہے ہم لوگوں کے بڑھاپے کا سہارا۔

اللہ نہ کرے ملک صاحب کیسی فضول باتیں کر رہے ہیں ! اللہ آپ کو اور سرمد کو سلامت رکھے، بعد اللہ، آپ دونوں کا سہارا۔ بھلا گارے چونے کی عمارت بھی کبھی سہارا ہوئی ہے؟

اچھا اب آپ اپنا دفتر سمیٹے مغرب کی اذان میں تھوڑی ہی دیر ہے، ایک کپ گرما گرم چائے پی لیجیے میں نے دلہن کی ساڑھی کو احتیاط سے شفاف پولیتھن بیگ میں رکھتے ہوئے کہا۔

بات کچھ ایسی خاص بھی نہ تھی، سرمد ہمارا اکلوتا بیٹا تعلیم سے فارغ ہو کر برسر روزگار تھا اور ہم دونوں گویا اس کی شادی کے ارمان میں مرے جاتے تھے۔ خاندان میں کیا ننھیال اور کیا ددھیال دونوں جگہ سرمد میاں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے۔ میں بھی دل ہی دل میں اپنی بھتیجی پر نثار اور اسے اپنی بہو بنانے کی آرزو مند تھی اور میرے سسرال میں میری بڑی نند چھنی باجی سرمد کی دعودار۔ سو خاصی پیچیدہ صورت حال تھی کہ ایک شام چائے پیتے ہوئے سرمد میاں نے اپنے کلاس فیلو منیر کی بہن سنبل سے شادی کا عندیہ دیا اور ساتھ ہی اپنے اکلوتے پن کا ٹرم کارڈ کھیلتے ہوئے تھوڑی سی جزباتی بلیک میلنگ بھی کی۔

اس قضیہ سے ملک صاحب تو کافی جزبز ہوئے پر مجھے چھنّی باجی کے قلق سے ایک کمینی سی خوشی اور اطمینان نصیب ہوا۔ گو کہ بلقیس بہت پیاری اور با ادب بچی تھی پر چھنّی باجی کی عقربی فطرت کا میں کیا کروں کہ وہ کبھی بھی ڈنک مارنے سے باز نہیں آتی تھیں۔

میں اپنے لگاتار تین مس کیریج کے سانحات کو کیسے بھول جاؤں کہ اجڑی کوکھ کا دکھ کم تھا کہ چھنّی باجی میری سوکن ڈھونڈیا مہم کی سرغنہ ٹھہریں۔ مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ انسان فرعون بن کر خدائی معاملات اپنے ہاتھوں میں کیسے لے لیتا ہے؟

میں سکھر سے بیاہ کر اس عروس البلاد میں آئی تھی۔ میرے سسر، ابا کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور میری دادی کی تعزیت پر سکھر آئے اور وآپسی سے قبل اپنے چھوٹے بیٹے ہشام ملک کی خانہ آبادی کے لیے ابا کے آگے دست سوال دراز کیا۔ میرا مروت زدہ باپ بڑے بھائی کے سوالی ہاتھوں کو خالی موڑنے کی تاب نہیں رکھتا تھا گو کہ امی جان اپنی سسرال میں میرے رشتے کے حق میں نہیں تھیں کہ دودھ کا جلا، چھاج بھی پھونک کر پیتا ہے۔ جیسے قضا سے مفر نہیں ویسے ہی جفت جوڑے کے آسمانی بندھن سے بھی انکار نہیں۔ سو میری شادی ہشام ملک سے ہوئی اور میں نے انہیں دل و جان سے قبول کیا۔ میری سسرال اچھی تھی کہ سب ہی اپنے تھے پر جانے چھنّی باجی کو میری کیا بات یا ادا بری لگی تھی کہ وہ سدا میری خانہ بربادی کی تمنائی ہی رہیں اور ان کو کھل کر کھیلنے کا موقع میرے تین مس کیریج نے بہم کیے۔

اس حد تک کہ میری ساس بھی چھنّی باجی کی ہمنوا ہوگئیں اور انہیں بھی ملک صاحب کی نسل کی بے نشانی رات رات بھر بےخواب رکھنے لگی۔ کسی کے دل میں اس ماں کے لیے ذرا دیا رحم نہ تھا جس کی صرف گود ہی نہیں اجڑی تھی بلکہ دل بھی ویران ہوگیا تھا۔ اللہ بھلا کرے ملک صاحب کا کہ وہ میرے بھربھری مٹی جیسے وجود کو تھامے رہے اور ببانگ دہل اعلان کیا کہ بچہ ہو یا نہ ہو امتل ہی ان کی زندگی کی شریک ہے اور رہے گی۔ ملک صاحب کے اس عمل نے مجھے بن مول خرید لیا کہ محبت تو مجھے ان سے رشتہ جڑتے ہی ہوگئی تھی پر اب تو میں ان کی پجارن تھی۔ ہمارا اکلوتا لخت جگر سرمد شاید میری شب بیداریوں اور زاریوں کا ثمر ہے۔

ٹیگور نے کیا خوب کہا ہے کہ کبھی اپنی دونوں آنکھوں کا تلنا مت کرنا ٹھیک اسی طرح میں بھی یہ فیصلہ کرنے سے قطعاً قاصر ہوں کہ مجھے زیادہ عزیز کون ہے ملک صاحب یا سرمد؟

جو سچ پوچھیے تو شاید یہ تولنا ہی بےکار کہ محبت تو بس محبت ہے کم کیسی اور زیادہ کیسی۔ گو مجھے اپنی بھتیجی عزیز تھی مگر سرمد کی خواہش عزیز تر اور مقدم۔ میری سرمد سے جنونی محبت کو کوئی میری جیسی کوکھ اجڑی ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔

سرمد میری زندگی کا محور و منبع تھا تو ملک صاحب میری بینائی اور دل کا سرور۔ سرمد کو پالنے میں ہم دونوں نے جان لڑا دی تھی۔ ملک صاحب بہت اچھے صحافی اور مصنف تھے مگر دو نمبری اور خوشامد کے داؤ پیچ سے قطعاً نا آشنا۔ اسی لیے ساری عمر ہم نے روکھی سوکھی کھائی مگر پیٹ کاٹ کر سرمد کو اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھایا۔ ہمارے گھر کا کل سرمایہ سرمد کے بعد ملک صاحب کی جمع شدہ کتابیں تھیں۔ انہیں کتابوں سے عشق تھا اور اس کا ثبوت ہمارے گھر میں نایاب اور قیمتی کتابوں سے سجی شیشے کی تین جگر جگر کرتی الماریاں تھیں۔ جو نہ صرف گھر کی شان تھیں بلکہ سرمد کے بعد ہم دونوں کی مشترکہ محبت بھی۔ میں ہمیشہ سے اردو ادب کی دلدادہ تھی پر اس شوق کو جنوں خیز ملک صاحب کی سنگت نے کیا۔

بات کہاں سے چلی اور کہاں پہنچ گئی قصہ کوہ تاہ سرمد کی شادی خوش دلی اور ولولے سے انجام دی گئی۔ نیا جوڑا بیس دن کے لیے شمالی علاقاجات کی سیر کو نکل گیا اور ان کی واپسی کے ساتھ ہی زندگی بھی پرانی ڈگر پہ آتی گئی۔ سنبل اچھی بہو تھی ماسوائے ایک نقص کے کہ اسے اپنے والد کی دولت کا غرور تھا اور اس کی نظروں میں ہر چیز اور جزبے کا مول، گویا جزبات بکاؤ۔ شاید وہ اتنی غلط بھی نہیں تھیں کہ اب لحاظ مروت سب متروک تھے کہ سکہ رائج الوقت کھنکھناتے سکے ٹھہرے۔

گزرتے وقت نے ہمارے آنگن کی پھلواری میں دو پوتے اور ایک پوتی کا اضافہ کیا۔ ہم وہی روایتی دادا دادی تھے بچوں کو کہانیاں سنانے والے اور ان کے لیے مٹی اور لکڑی کے کھیلونے لانے والے۔ میں اپنی پوتی کے لیے کپڑے اور اون کی گڑیا بناتی مگر وہ سب طاق پر دھری کی دھری رہتی کہ ان کے نانا کے لائے گئے قیمتی اور امپورٹٹڈ کھلونے میدان مار لیتے۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی تھی کہ سرمد کبھی اپنے بچوں کو تحفے میں کتابیں نہیں دیا کرتا تھا، ہمیشہ کھلونے اور کھلونوں میں بندوق دیکھ کر میرا دل وحشت زدہ ہو جاتا تھا۔ ہم دونوں ہر ایونٹ اور تہواروں پر سرمد کو کھلونوں کے ساتھ ساتھ کتابیں لازمی دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے سرمد سے پوچھا بھی کہ تم بچوں کے لیے کتابیں کیوں نہیں لاتے؟

Check Also

Kahani Aik Dadi Ki

By Khateeb Ahmad