Noor Muhammad
نور محمد

میرا نام نور محمد ہے اور میں اپنے باپ کی دوسری اولاد نرینہ۔ میں تامل ناڈو کے ایک چھوٹے سے گاوں رام ناتھ پورم میں پیدا ہوا۔ پانچ ہی سال کا تھا تو اماں چل بسیں۔ اماں کا تیجہ بھی نہ گزرا تھا کہ دوسری گھر والی گھر کی والی ہوئی۔ بس پھر تو ہمارے بہت ہی برے دن شروع ہو گئے کہ بھلے دن تو پہلے بھی نہ تھے۔ ابا کی آمدنی کم مگر غصہ ناک پر دھرا رہتا تھا۔ شاید اسی کارن اس کی دکان پر گاہک بھی بھولے بھٹکے ہی پھٹکتے تھے۔ کم از کم میری یاداشت میں ابا کا کوئی مسکراتا لہجہ یا اپنی بےخوفی کا لمحہ نہیں۔ میرے لیے ابا ہمیشہ دہشت کی علامت ہی رہا اور اب رہی سہی کسر سوتیلی ماں پوری کر رہی تھی۔ زندگی گھسٹتے اور کھانے کی جگہ لات اور تھپڑ کھاتے آنسو پیتے گزر رہی تھی کہ اچانک لوگوں کی توجہ مجھ پر مرکوز ہوگئی اور میں مذاق بن کر رہ گیا۔
مجھے جانے کیوں لڑکی بننا اچھا لگتا تھا؟ کب میری چال میں لچک، ادا میں مٹک اور لہجے میں چہک در آئی مجھے خود علم نہیں۔ محلے کے لڑکے مجھے چکنا کہنے لگے، کسی نے مجھے فرح کہہ کر پکارا تو کسی نے گلابو کہہ کر چمکارنا شروع کر دیا۔ سچ پوچھیں تو مجھے اپنی یہ شناخت ناپسند نہ تھی۔ مجھے گھر کے اندر رہنا اچھا لگتا اور میں اپنے ننھے ہاتھوں سے رسوئی کے کئی کام نپٹا بھی دیا کرتا۔ جھاڑو بہارو کرنا اور چیزوں کو ان کے ٹھکانے پہ رکھنا مجھے مسرور رکھتا تھا۔ جوں جوں سوتیلی ماں کی ساڑیوں سے میری الفت بڑھتی گئی توں توں چار چوٹ کی مار کا دورانیہ طویل اور وقفہ مختصر ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ ابا کے کان بھی ان تمسخرات سے آشنا ہوئے پھر تو پُوچھئے ہی مت کے کیا ہوا؟ ابا کے لیے محلے والوں کے طعنے ناقابل برداشت تھے سو وہ میرے روم روم سے ان کا بدلہ لیتے۔ میرا جسم نیلو نیل رہتا اور مجھ میں کھڑے ہونے کی سکت باقی نہ رہتی پر ماں میری لاچاری کو میرا مکر ہی گردانتی۔
میرے لیے اب اسکول بھی نا قابل برداشت کہ وہ میرے لیے درس گاہ کے بجائے عقوبت خانہ بن کر رہ گیا تھا۔ کیا لڑکے اور کیا اساتذہ، میں سب کا من پسند تماشا تھا۔ جس کا جب جی چاہتا، جہاں دل چاہتا مجھے ٹٹولتا، چٹکی بھرتا یا دبوچ ہی لیتا۔ سچ تو یہ کہ اس کم سنی ہی میں مجھے اپنی زندگی سے نفرت ہو چلی تھی مگر کیا کرتا بے بسی سی بے بسی تھی۔ زندگی شاید چیز ہی ایسی کہ ناپسندیدہ و ناقابل برداشت ہونے کے باوجود بھی مرنے کی ہمت نہ تھی سو میں جونک کی طرح اس بے فائدہ زندگی سے چمٹا رہا۔
میں ان دنوں تیسری جماعت میں تھا۔ محلے والے اور خاندان والے اب براہ راست ابا کی مردانگی پر حملے کرنے لگے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ابا بے غیرت ہے جو مجھ جیسے ناسور کو اب تک زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ان ظالموں کے مطابق ابا نا مرد تھا۔ بقول خاندان والوں کہ اگر وہ ابا کی جگہ ہوتے تو اب تک میرا قصہ پاک کرکے سرخرو ہو چکے ہوتے۔ مجھے ابا کی سرخ آنکھوں میں اپنی موت نظر آنے لگی تھی۔
میری عمر تیرہ سال تھی جب میں نے گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کیا۔ دو لنگی اور دو کرتے یہی میرا کل اثاثہ تھے۔ یہ لیا اور سوتیلی ماں کے ٹرنک سے سو روپے چرائے اور مدراس کی ٹرین پکڑ لی۔ مدراس میں میرا کون تھا؟ کوئی بھی نہیں سو دن بھر بھیک مانگتا۔ کبھی در در جا کر اور کبھی مندر اور مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر۔ یقین کیجئیے کہ در بدری کے اس تمام عرصے میں انسان کہیں ملا ہی نہیں۔ لگتا تھا پورے شہر میں صرف ہانپتے، زبان لپلپاتے بھیڑئیے بستے ہیں۔ میرا دو دو دن بغیر کھائے پیے گزر جاتا۔ بھوک کیا ہوتی ہے صحیح معنوں میں، میں نے انہی دنوں میں جانا۔ رات میں ریلوے اسٹیشن پر سوتا کہ رونق کی وجہ سے وہ جگہ قدرے محفوظ تھی۔ رات میں سوتا بھی کب تھا؟ بس چوکنا اونگھ ہوتی۔ کب کون جھپٹ کے مسل دے اس بات کی دہشت سونے بھی نہ دیتی تھی۔ ایک مستقل خوف، بے خوابی، بھوک اور بے پناہی کا سامنا تھا۔ بھوکا تو سوتیلی ماں بھی رکھتی تھی پر بڑا بھائی چوری چھپے اپنے حصے کا دو چار لقمہ کھلا ہی دیتا تھا۔ کم از کم اُس بے مہر چھت کے نیچے کھسوٹے جانے کا خوف نہیں تھا اب تو لگتا کہ نہگ کے درمیان ایک مچھلی یا بتیس دانتوں کے بیچ زبان۔
کبھی کبھی جی کرتا واپس لوٹ جاوں مگر اب میرے پاس واپسی کی ٹکٹ کے پیسے بھی نہیں تھے۔ ایک دن مجھے اسٹیشن پر ایک ہیجڑا ملا یا ملی؟
لباس چونکہ عورتوں والا اس لئے ملی کہہ لیجیے۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا، یہ پہلی گرفت تھی جس نے میرے جسم میں خوف کا کرنٹ نہیں دوڑایا تھا۔ کہنے لگی میرا نام مدھو بالا ہے تو میرے ساتھ چل۔ اب یہ اس کی بے لوث گرفت تھی یا میری حالات کے آگے شکست میں نہیں جانتا پر میں بنا چوں چرا کیے اس کے ساتھ ہو لیا۔ بس میں گھنٹے سے اوپر سفر کرنے کے بعد ہم ایک مفلوک الحال بستی میں جا اترے۔ کچی گندی بھنکتی گلیوں میں دیر تک چلنے کے بعد اس سفر کا اختتام ایک اندھی کھولی میں ہوا۔ بالش بھر کچے صحن میں پیڑھی پر شان سےبیٹھے گرو کے آگے مجھے کھڑا کرتے ہوئے مدھو بالا نے کہا
"ماں میں تین دینا سے اس چوہیہ کو اسٹیشن پر دیکھ رئی تھی، آج دل نکّو مانا تو ساتھ لے کوں آئی"۔۔
ماں نے کچھ کہے بنا گہری کھوجتی نظروں سے میرا بھرپور جائزہ لیا پھر کچے صحن میں پھسکڑ مار کر بیٹھی مدھو بالا کو اپنی پاٹ دار آواز میں حکم دیا، چھوری کا منہ ہاتھ دھلوا کوں کھانا دے دے۔
مدھو بالا بتاتی ہے کہ میں کھانا کھا کر، بے سدھ کامل ڈیڑھ دن تک سوتا رہا۔ کوئی چار مہینوں کے بعد پہلی بار میں بےخوفی سے محفوظ و مامون سویا تھا۔ تیسرے دن ماں نے پوچھا کہ پھر کیا ارادے ہیں؟
دھندے کے تو دو ہی راستے ہیں
Bar dancer or sex worker.
اب زمانے نے اچھی طرح سے ان باتوں کا مطلب مجھے سمجھا دیا تھا۔ میں ماں کے پیروں سے لپٹ گیا اور رو کر کہا ماں کوئی تیسرا راستہ ڈھونڈ!
مدھو بالا نے بھی سفارش کی۔ ماں نے کہا اچھا پہلے تو یہ تو فیصلہ کر کہ تو ہے کون؟
تو تو ابھی تک بیچ میں ہی لٹکیلا اے؟
میں نے کہا ماں میں لڑکی ہو پر مردانے جسم میں قید ہوں۔ مدھو بالا جانے کہاں سے میرے ناپ کی قمیص اور شلوار لے آئی۔ میں جب تیار ہو کر ماں کے سامنے آیا، نہیں، آئی تو ماں بولی، "تو سچ بولتی رے تو تو واقعی لڑکی ہے۔ چل اب بول تیرا نام کیا رکھوں میں؟
تو جے نور محمد نام بولی تھی ناں میرے کو؟
تو پھر آج سے تیرا نام نوری ہوتا"۔ منجور!
مدھو بالا نے مکمل لڑکی بننے میں میری بہت مدد کی پھر ماں نے مجھے ڈاکٹر سدھیر کے گھر بچوں کی کھلائی کے طور پر رکھوا دیا۔ وہ پانچ سال میرے بے فکری کے دن تھے۔ میں نے خوب بچت کرکے کچھ رقم بھی جوڑ لی تھی۔ ایک دن مجھ تک میرے باپ کی شدید بیماری کی خبر پہنچی اور میں رہ نہ سکی۔ سچی بات تو یہ ہے دل تو نہیں چاہا پر سوچا کہ کہیں یہ پچتاوہ نہ بن جائے سو پھر سے لڑکے کا سوانگ بھرا کہ اب مرتے ہوئے باپ کو اپنی بدلی ہوئی ہیت کی مار کیا دیتی۔ میرے پہنچنے کے تیسرے دن ہی ابا مر گیا۔ سوگ میں بھی ماں کی منتقیم اور تاجرانہ ذہنیت میری بولی لگانے سے باز نہ آئی۔ ساری حقیقت جانتے ہوئے بھی اس نے کہیں میرا رشتہ طے کرکے دس ہزار بیانہ پکڑ لیا تھا۔ میں تو اس خبر کی بھنک پاتے ہی گھر سے بھاگ نکلی۔
اس بار میری منزل جادو نگری ممبئی تھی۔ ممبئی پہنچ کر مختلف ڈب کھڑبّی نوکریاں کرتے کراتے تین سال ہو گئے۔ یہ دن آسان نہیں تھے مگر وہی بات کہ شہر سکھائے کوتوالی۔ اب مجھے زندگی کرنے کا ڈھب آ گیا تھا۔ میری دوستی اپنے جیسے لوگوں سے تھی۔ سچ کہوں تو ایک تو دل ہی میں بس گیا تھا۔ اس کی محبت حاصل کرنے کے لیے میں نے جان توڑ محنت کی۔ پیسے پیسے کو دانتوں سے پکڑا اور پیٹ تک کاٹ کر سخت بچت کی۔ تین سال بعد میں ممبئی سے مدراس واپس آ گئی اور اس بچت سے اپنا آپریشن کروا لیا۔ پھر ہم دونوں نے شادی کر لی۔ دنیا نے کڑی تنقید اور مخالف کی پر میں راجیو کے ساتھ بہت خوش تھی۔ اپنی زندگی کو مکمل کرنے کے لیے ہم نے دو بچے، ونود اور آنند گود لے لیے۔ زندگی مشکل تھی اور روزگار کے مواقع ٹرانس جینڈر ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم۔ دنیا نے ہمارے لیے تیسرا کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیں تھا سو بالآخر مجھے اس پیشے سے منسلک ہونا ہی پڑا جس سے میں اب تک بھاگتی آئی تھی۔ تقریباََ سولہ سال میں نے بطور سکیس ورکر کام کیا اور اس کی بڑی بھاری قیمت بھی چکائی۔
سنہ ستاسی میں میری طبیعت خراب رہنے لگی، ان دنوں ایڈز اور HIV کا بڑا چرچا تھا۔ یہ انجان شبد ہر خاص و عام کی زبان پر تھا اور جنتا اس سے ایسے ہی ڈرتی تھی جیسے کبھی پلیگ سے۔ میں نے بھی ڈرتے ڈرتے اپنے خون کی جانچ کروائی اور نتیجے نے میری دنیا تاریک کر دی۔
میں بھارت کی تیسری HIV+ تھی۔ دنیا نے یکایک مجھے سے نظریں پھیر لیں اور مجھے عضوِ معطل کی طرح کاٹ کر پھینک دیا۔ لوگ میرے وجود سے تو کیا میرے سائے سے بھی بھاگنے لگے۔ کھولی والے نے کھولی خالی کرنے کو بولا، ہوٹل والے نے اپنے ہوٹل میں میرا داخلہ بند کر دیا اور مجھ پر دنیا بالکل تنگ کر دی گئی۔ مجھے جب اپنی بیماری کا علم ہوا تو میں نے اپنا دھندا بند کر دیا مگر پیٹ تو بوروبر روٹی مانگتا ہے، اب تو دوا کا اضافی خرچہ بھی تھا۔ وہ بہت مشکل دن تھے اور مرے پہ سو درے کے مصداق ساتھ جینے مرنے کا وچن دینے والے نے مجھے بیچ منجدھار میں چھوڑا اور ان مشکلات سے گھبرا کر پتلی گلی سے نکل لیا۔ یہی دنیا ہے بھائی، سچ کہتے ہیں کہ مشکل میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ راجیو کی بے وفائی نے مجھے بالکل توڑ دیا۔ بیماری نے میرا شریر تو کھوکھلا کر ہی دیا تھا ساتھ ہی راجیو کی بے مروتی نے من بھی خالی کر دیا۔ زندگی کی مشکل یہ کہ اس کے لوازمات بہت۔ کمبخت روٹی، کپڑا اور چھت سب ایک ساتھ ہی مانگتی ہے۔ میں مرن جوگی ادھ مری زندگی کو چالو رکھنے کے سنکٹ میں ڈوبتی، ہاتھ پیر مارتی رہی۔ اس گھور وقت میں گرو کا سکھایا ہنر میری روٹی کا وسیلہ بنا۔ میں نے سلائی چالو کر دی، ایک بلاوز کی سلائی دس روپے لیتی اور ایک دن میں 80 سے 100 روپے تک کما لیتی۔
میں تو مر رہی تھی مگر میں دوسروں کو اس بیماری کی ہولناکی سے ضرور بچانا چاہتی تھی۔ میں نے اس مرض کی جانکاری اپنے حلقے میں دینی شروع کر دی۔ کسی نے میرے کو ایک NGO کے بارے میں بتایا اور میں نے ان ساتھ مل کر کام کرنا شروع کر دیا۔ میں بارہ تیرہ سال ان لوگوں کے ساتھ کام کرتی رہی۔ میرے ساتھ میرے ہی جیسے شامل ہوتے چلے گئے اور دیا سے دیا جلتا گیا۔ یہاں تک کہ میں نے اپنی NGO بنا لی۔ اب میں نے ایسے بچوں کو جنہیں ایڈز تھی یا جو HIV+ تھے انہیں اپنے گھر میں رکھنا شروع کر دیا۔ ان کا کھانا، پینا، سرکاری اسپتال سے علاج معالجہ سب کراتی اور اسکول جانے کی عمر والے بچے سرکاری اسکول بھی جاتے۔ میرے اس کام میں ونود اور آنند بھی میرا ہاتھ بٹاتے۔ میرے بچوں نے، جو میرے پیٹ کے جنے نہیں تھے، ان مشکل حالات میں اپنی دکھیا ماں کا پورا پورا ساتھ نبھایا۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ ایک حبس بھری رات میرے پاس فون آیا کے بڑی مارکیٹ کے پاس کچرا کنڈی میں ایک بچہ پڑا ہے۔ میں رکشے میں بیٹھ کر ترنت وہاں پہنچی تو دیکھا کہ ایک بچی تھی۔ اس کے ننھے سے جسم پر چیونٹیاں رینگ رہی تھیں۔ اس کے جسم کے ساتھ ایک لفافہ بھی بندھا تھا، جس میں لکھا تھا کہ اس بچی کے کارن مجھے بھی ایڈز ہوگئی ہے اور اب میں مرنے کے قریب، سو میں اس بچی کو نہیں پال سکتی۔ میں اس بچی کو لے کر اسپتال بھاگی، وہاں اس کا علاج شروع ہوا۔ اب میرے پاس پانچ سال سے لیکر سترہ سال تک کے تیس بچے ہیں۔ یہ میرے ساتھ میرے گھر میں رہتے ہیں۔ ان کا کھانا، پینا علاج اور پڑھائی سب میں دیکھتی ہوں۔ ان کے ماں باپ کون ہیں میں نہیں جانتی؟ ان سب کی گارجین میں یعنی "اماں نوری" ہوں۔ میں اکیلی ان تیس بچوں کی ماں ہوں۔ میرے علاوہ اس بھری دنیا میں ان کا کوئی اور رشتہ نہیں۔
ان کے علاوہ سو بچے اور ہیں جن کا میری NGO کے توسط سے علاج ہوتا ہے مگر وہ لوگ اپنے گھر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتے ہیں۔
میں آپ لوگوں سے جاستی نہیں بس اتنا ہی چاہتیوں کہ ہم لوگوں کو آپ لوگ اچھوت مت سمجھو۔ ہم لوگوں کو بھی عام آدمی کا مافک جینے دو۔ سچ بات تو یہی کہ یہ بیماری بہت بری مگر یہ بھی جان لو کہ یہ بیماری بات کرنے سے یا ہاتھ ملانے سے نئی لگتی۔ ہم لوگ کو بھی اسی اللہ نے پیدا کیا جس نے یہ اکھا دنیا بنایا تو ہم لوگ بھی اس دنیا میں رہنے کے واسطے تھوڑی جگہ مانگتا۔ آپ لوگ، ہم سے محبت نہیں کر سکتا مت کرو کوئی جبردستی نہیں۔ بس ہم سے نفرت بھی مت کرو! حقارت سے مت دیکھو! ہمیں دھتکار مت۔
اب میری جندگی انہی بچوں کے لیے ہے اور مجھے پورا وشواس ہے کہ وہ نیلی چھتری والا میرے بعد بھی ان بچوں پورا پورا خیال رکھے گا۔ وہ ضرور ان کے لیے کوئی دوسری اماں نوری یا نور بابا بنا دے گا کہ وہ کسی کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑتا۔

