Nawa e Rafta Ki Bazgasht (2)
نوائے رفتہ کی بازگشت (2)
میری شادی برسوں تک خاندان کی یادگار تقریب رہی۔ منور کے سنگ زندگی ابرق لگی، ست رنگی دھنک کی اوڑھنی تھی۔ ابا میاں کا ویزہ ختم ہونے والا تھا اور اگلے جمعہ ان کی اور چھوٹے بھیا کی شام کی فلائٹ تھی، مگر کاتب تقدیر نے کچھ اور ہی رقم کیا تھا۔ بدھ کے دن کھانےکے بعد وہ قیلولہ کے لیے اپنے کمرے میں گئے، اور اسی دوران انہیں دل کا دورہ پڑا اور موت کا ہرکارہ انہیں اپنے ساتھ ہی لے گیا۔ ابا میاں جنھوں نے اپنے پرکھوں کی قبروں کی دیکھ رکھ کی خاطر پاکستان ہجرت نہیں کی تھی۔ انہوں نے بھلا کب سوچا ہو گا کہ ان کی اپنی خاک پاکستان ہی سے تھی۔
ابا میاں کے انتقال کے بعد منجھلے اور چھوٹے بھیا ہندوستان گئے، اور مرشد آباد کی کوٹھی اور پٹنہ کی دونوں کوٹھیاں اونے پونے بیچ دیں کہ، دیگر جائیدادوں پر تو ہندو بنیا پہلے ہی سے قابض تھے۔ یوں ہندوستان کا باب ہم سبھوں کی زندگیوں سے تمام ہوا۔ دونوں بھائی ولایت میں تھے، سو اب چھوٹے بھیا بھی وہیں فرنگیوں کی زمین سدھارے۔ شادی کے بعد کراچی کے سرسید کالج سے میں نے بی اے کیا اور جس دن میرا بی اے کا نتیجہ نکلا، اسی دن میرے گھر مرسلین کی پیدائش ہوئی۔ مرسلین بمشکل چھ ماہ کے تھے کہ منور کو کویت میں بہت اچھی نوکری مل گئی، اور پھر تو سمجھیے کہ میرے پیروں میں چکر ہی بندھ گئے تھے۔
میں من کے ساتھ نوکری کے سلسلے سے کہاں کہاں نہیں گھمومی جکارتہ، قاہرہ، ساؤتھ افریقہ پر سب سے لمبا قیام محبت اور خوشبوؤں کے شہر پیرس میں تھا۔ یہاں ہم لوگ قریباً چھ سال رہے اور یہیں میری تیسری اولاد، میری اکلوتی بیٹی نوین پیدا ہوئی۔ منور دنیا گھوم گھوم کر تھک چکے تھے اور اب مستقل پڑاؤ کی ضرورت محسوس کرنے لگے تھے، سو قرعہ فال نکلا کینیڈا کے نام۔ ایک لمبے عرصے ہم لوگ مانٹریال رہے۔ مرسلین اور مستقیم نے میڈیسن وہیں سے کی پر نوین کو وکالت کا خبط تھا اور ساتھ ہی ساتھ وہ پہاڑوں کی عاشق بھی، اس لیے اس نے کیلگری یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ اس چلتے ہم دونوں میاں بیوی کو بھی کیلگری آنا پڑا۔
میری ذاتی زندگی بہت پرسکون تھی کہ، محبت کرنے والا شوہر اور تین عدد خوبصورت اور لائق فائق تابعدار بچے۔ زندگی میں اور کیا چاہیے ہوتا ہے؟ میں شاید اتنی پرفیکٹ ماں نہیں تھی، پر بہترین دل دار بیوی ضرور تھی۔ میں اور من ایک جان اور دو قالب تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم میں ناچاقی اور نا اتفاقی نہیں ہوتی تھی۔ بھلا یہ کب ممکن ہے! مگر یہ ضرور تھا کہ ہماری باہمی ناراضگی نے کبھی دوسرے دن کا سورج نہیں دیکھا کہ، اس بےتکلف رشتے میں بھی ہم دونوں نے عزت و احترام کو ہمیشہ فائق رکھا۔ وقت کب کسی کے لیے رکا ہے، وہ تو بس سرپٹ بھاگتا ہے۔ میرے تینوں بچے بھی تعلیم سے فارغ ہو کر اپنی اپنی خانگی دنیا بسا چکے تھے۔
مرسلین اور نوین کیلگری ہی میں تھے، اور میرے سدا کے من موجی اور سیاح بیٹے مستقیم کو آئرلینڈ کی خوبصورتی نے اپنا اسیر کر لیا تھا، سو وہ دونوں میاں بیوی فلحال وہیں مقیم تھے۔ ہم دونوں بھی اپنے تمام فرائض و ذمہ داریوں سے فارغ ہو چکے تھے اور من ریٹائرمنٹ کو انجوائے کر رہے تھے۔ میں نے بھی وقت گزاری اور دل بستگی کے لیےگھر پر کوکنگ کلاسز دینی شروع کر دی تھی، اور میرا خاص الخاص میدان تھا میٹھے پکوان کہ، میں بہرحال تنبولن بوا کی ہونہار شاگرد تھی اور اس ناطے میں اب بڑے چھوٹے سب کی شاہی آپا تھی۔ منور تو اکثر مذاق میں kitchen with Shahi apaکہ کر چھیڑا کرتے تھے۔
اب میں تھکنے لگی تھی شاید عمر کا تقاضا تھا، سو من کو میں نے ڈاؤن سائزنگ کی صلاح دی اور میرے من موہنے نے ہمیشہ کی طرح میری بات رکھی۔ جلدی ہی اپنا گھر بیچ کر ہم دونوں آرام دہ اپارٹمنٹ میں شفٹ ہو گئے، جہاں زندگی کی ساری سہولیات تو تھیں پر مشقت نہیں۔ یہاں میں نے کوکنگ کلاسس دینی بھی چھوڑ دی تھی کہ چھوٹا سا تو اپارٹمنٹ تھا، اور سب سے اہم بات کہ اب بدن میں پہلے جیسی طاقت اور چستی نہیں رہی تھی۔ گو زندگی میں سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، بچے اپنی زندگیوں میں آسودہ تھے اور ہم دونوں ہمیشہ کی طرح شیر و شکر پر جانے کیوں اکثر و بیشتر بیچ رات میں میری آنکھیں کھل جاتیں اور میں پسینے پسینے ہو رہی ہوتی۔
بس یہ خواب آج کل جان کا آزار بنا ہوا تھا کہ منور کہیں کھو گئے ہیں اور میں تنہا رہ گئ ہوں۔ جانے یہ میرا وہم تھا یا انتباہ؟ میں نے تو یہ کمینگی بھی کی کہ چپکے چپکے من پر کانی نظر رکھنے لگی اور ایک آدھ بار ان کا فون بھی دل کی تسلی کے لیے چیک کیا، مگر میرا منور ہمیشہ کی طرح ظاہر اور باطن کا اجلا ہی نکلا۔ جیسے پہلے میرا خیال رکھا کرتے تھے ویسے ہی اب بھی رکھتے تھے اور برتاؤ میں بھی کوئی فرق نہیں تھا کہ، میری زندگی مختصر عرصے کے لیے بھی کبھی مڈ لائف کرائسس کا شکار نہیں رہی تھی۔ جانے یہ میری نسل کا المیہ ہے یا کوئی نئی ہوا چلی ہے کہ، اب آخری عمر میں آ کر بیشتر میاں بیوی ایک دوسرے کے وجود سے یکسر متنفر اور اجنبی ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ خوابگاہ بھی مشترک نہیں، گویا ایک چھت کے نیچے دو اجنبی۔
میرے حلقہ احباب میں اکثر تو نہیں، پر ایک تہائی ایسے ہی مبتلا آزار جوڑے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جب لڑتے کھپتے جوانی گزار لی، دو چار بچے بھی ہو گئے تو اب اس بڑھاپے میں جو رتی ماشہ بھر زندگی رہ گئی ہے، اس کا بھرم بھی رکھ لو اور اس قلیل وقت کو عزت سے گزار دو۔ سب سے زیادہ میری جان اس بات سے سلگتی تھی کہ، جیتے جی تو دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے کے روادار نہیں ہوتے تھے اور ساری زندگی ایک دوسرے کو زچ کرنے میں گزار دی، مگر ایک کے مرتے ہی آہوں، یادوں اور باتوں کا سیلاب امنڈ آتا ہے۔ بھلا بتاؤ اب پچھتائے تو کیا پچھتائے اور کیوں پچھتائے؟
جب زندگی میں ایک دوسرے کی قدر نہ کی، تو اب بےکار کا رولا واویلا کیوں؟ خدا کا شکر ہے کہ ہم دونوں کے بیچ کوئی نا موافقت نہیں تھی، مگر اس خواب کے تواتر نے میری جان ضق میں ڈال دی تھی اور میں سخت بے آرام و کبیدہ۔ اچانک وقت نے قیامت کی کروٹ بدلی اور رنگ رنگیلی بھاگتی دوڑتی دنیا ساکن ہو گئ۔ ایک ننھے سے انجان جرثومے نے زندگی کی ساری ہماہمی اور یگانگت نگل لی اور علاج ٹھہرا یکتائی و تنہائی۔ ہم دونوں عمر کے جس حصے میں تھے اس میں چھوٹے بڑے سو مرض ویسے ہی جان کو لاگو رہتے ہیں، سو مارے احتیاط کے بچوں نے گھر کے اندر آنا چھوڑ دیا۔
وہ اپارٹمنٹ کے دروازے ہی پر گروسریز اور دوسری چیزیں رکھ کر چلے جاتے۔ فیس ٹائم اور چیٹ کے دم سے زندگی کی رمق تھی۔ بچوں کے لمس کی کمی گویا اماوس کی راتیں بن گئ تھیں۔ ہزار احتیاط کے باوجود ہونی ہو کر رہی اور مجھے کووڈ نے جکڑ لیا۔ ہسپتال میں داخل ہوئی اور من وہاں بھی میرے ساتھ تھے، مگر شیشے کی دیوار کے پار حفاظتی سوٹ میں قید۔ کیسا ظلم تھا کہ جب سب سے زیادہ سہارے کی ضرورت تھی، اسی وقت میرا دل دار میرے ساتھ نہیں تھا۔ خیر نظر کی پیاس بجھ جاتی تھی اور فون پر آواز سن کر دل کو سیراب کر لیتی۔
ان کی بے آرامی مجھے بےچین رکھتی اور میں ان سے گھر واپس جانے پر اصرار کرتی۔ عجب بے کلی تھی، جب تک وہ شیشے کی دیوار کے پار ہوتے درد تھما رہتا اور سانسیں بھی رواں و ہموار رہتیں اور ان کے جاتے ہی جیسےسب کچھ بگڑ جاتا۔ دو دن منور ہسپتال نہیں آئے، مرسلین نے بتایا کہ ابا کا کچن میں پیر رپٹ گیا تھا اور ٹخنے میں hair line fractureہے۔ میری ضد پر مرسلین نے میسنجر کا کمیرہ آن کر کے منور کو دکھایا اور میرا دل ڈوب ڈوب گیا۔
اتنا زرد اور نڈھال میرا منور!ضرور بات کچھ اور بھی تھی جو بچوں نے مجھ سے چھپائی، پھر میں منور کو نہیں دیکھ سکی۔ جب بھی مرسلین اور نوین سے منور کو دیکھنے کے لیے اصرار کیا، ان دونوں نے ٹال دیا۔ اب میری بھی طبیعت گرتی جارہی ہے، مرسلین بتا رہا تھا کہ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ مجھے وینٹیلیٹر پر ڈال دیا جائے کہ، میرے پھپڑے جواب دے رہے ہیں۔ میں یہ عارضی سہارے اور بےکسی کی موت نہیں چاہتی۔ رات بڑی تیز بارش تھی، نرس سے میں نے ٹیبلیٹ کی طرف اشارہ کر کے گھر رابطے کے لیے کہا۔
مرسلین، نوین اور سب بچوں کو دیکھ کر دل شاد کیا۔ مرسلین نے اپنے فون سے مستقیم اور دلہن کو بھی دکھا دیا، پر منور کو نہیں دیکھایا۔ من کو نہیں دیکھا تو کچھ بھی نہیں دیکھا۔ اب کچھ بھی دیکھنے کی آرزو نہیں کہ، من نگری منور نہ ہو تو سارا جگ اندھیارا اور جو سچ پوچھو تو اب کچھ نظر بھی نہیں آ رہا ہے اور سانس سانس دشوار ہے۔
کل تو مرنے میں سہولت بھی بہت تھی مجھ کو
ہجر تھا، رات تھی، برسات تھی، تنہائی تھی
میں شاید غنودگی میں تھی کہ مجھے آوازیں تو سنائی دے رہی تھیں مگر سب لوگ دھندلکوں میں گم تھے اور میری پوری زندگی چشم زدن میں میرے سامنے۔