Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Master Nazeer

Master Nazeer

ماسٹر نذیر

محمد پور میں بھلا ماسٹر نذیر کو کون نہیں جانتا تھا۔ وضع دار، خوش اخلاق، دبلے پتلے سرو قد، گندمی رنگت والے ماسٹر نذیر۔ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے لٹھے کا خالتہ پائجامہ اور کالی دھاری دھار شیروانی، جو اب کثرت استعمال سے کچھ کچھ بھوری مائل ہو چکی تھی۔ جناح کیپ تو ان کی شخصیت کا لازمی حصہ تھی۔ یہ محمد پور گرلز ہائی اسکول میں استاد تھے۔ نویں اور دسویں جماعت کو میتھس پڑھاتے، نہایت کم گو اور اس قدر پابند وضع کہ چائے کے وقفے میں اسٹاف روم میں نہیں بیٹھتے تھے کہ پچانوے فیصد سے زیادہ اسٹاف خواتین پر مشتمل تھا۔ اکثر اسکول کے باہر چلے جاتے یا پھر اسکول کے احاطے سے متصل چوکیدار کی کوٹھریا ہی میں چائے پی لیتے۔

اسکول میں کسی کو ان سے شکایت نہیں تھی، یہاں تک کہ پرنسپل جو ہر ایک کے کام میں مین میخ نکالنے کو اپنا فرض عین جانتی تھیں وہ بھی ماسڑ نذیر کے محتاط رویے، برتاؤ اور کاملیت کے آگے دم بخود تھیں۔ ماسٹر نذیر واقعی بے نظیر تھے اور اپنے مضمون میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ متوازن رفتار، خوش گفتار اور پروقار۔ زندگی کی عسرت کو اپنی راحت بیگم کے ساتھ ہنسی خوشی برداشت کر رہے تھے۔ ماسٹر صاحب کی ایک ہی بیٹی تھیں اور وہ اپنے میاں اور اکلوتے بیٹے نوید کے ساتھ دیناج پور میں رہتی تھیں اور ان کے میاں ریلوے میں ٹی ٹی تھے۔ ماسٹر صاحب کا چھوٹا سا خاندان تھا اور سستا زمانہ بھی سو ان کی گزر بسر بہت اچھی طرح سے ہو سکتی تھی مگر ماسٹر نذیر غضب کے سخی اور دیالو تھے، نہ جانے کتنے طالب علموں کی فیس اور دیگر اخراجات اپنے ذمے لیے ہوئے۔

حکیم سنز میں پاپا اعلیٰ عہدے پر فائز تھے پر جانے ان پر کاروبار کا کیسا سودا سمایا کہ امی کے منع کرنے کے باوجود بیٹھے بٹھائے اچھی بھلی نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور اپنا بزنس سیٹ کرنے میں لگ گئے۔ کمپنی کا گھر چھوڑ کر ہم سب محمد پور میں نور جہاں روڈ پر کرائے کے گھر میں آ گئے۔ میری تو خوشی دیدنی تھی کیونکہ جناح ایونیو جہاں ہم لوگ پہلے رہتے تھے، وہ شہر کا تجارتی مرکز تھا لہذا وہاں رہائشی مکانات نہیں تھے، بس دفاتر ہی دفاتر۔ وہاں رہائشی مکانات نہیں سو بچے بھی نہیں۔ اس لیے جناح ایونیو ہم بچوں کے لیے ایک قید تنہائی اور حبس بیجا ہی تھا۔ گو امی روزانہ شام کو ہم تینوں بہنوں کو ڈرائیور کے ساتھ اسٹیڈیم یا بیت المکرم مسجد کی سیر کے لیے بھیجتی تھیں مگر وہاں ہم لوگوں کی کوئی دوست نہیں تھی۔ محمد پور کی تو بات ہی نرالی تھی، ہر طرف بچے ہی بچے۔ بہت جلد میرے بہت سارے دوست بن گئے۔ نچلی منزل میں حسنہ کی فیملی تھی، پڑوس میں نادرہ۔ دو گھر چھوڑ کر رضیہ کی فیملی۔ ہم تینوں بہنوں کی دوستی ان سے ہوگئی۔ آپا کی دوست کلثوم باجی، زرین کی دوست اور کلاس فیلو شہر بانو اور میری دوست اور کلاس فیلو رضیہ۔

یہاں محمد پور میں آکر ہم تینوں کا داخلہ محمد پور اسکول میں ہوگیا کیونکہ پرانا اسکول سینٹ فرانسس، نواب پور میں تھا جو یہاں سے بہت دور پڑتا۔ شروع شروع میں اسکول کی تبدیلی کھلی پھر اتنی دوستیاں کر لیں کہ پوچھو مت، لگتا تھا کہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ہے۔ یہاں ہم بے انتہا خوش تھے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ زندگی کا بہترین دور تھا، گو کہ یہاں آ کر پاپا سے قدرے دوری ہوگئی تھی، وجہ پاپا کی بے تحاشہ مصروفیت۔ یہاں جناح ایونیو کی طرح ہر پندرھویں دن کی پکنک موقوف ہوگئی تھی پر محمد پور کی رونق کا کوئی بدل نہ تھا۔

محمد پور کا رمضان، اس کا مزہ ہی نرالا۔ کی رونق ہوتی تھی، خاص کر سحری کے وقت۔ سحری کے وقت پہلے تو ڈھول والا آتا، اس کے بعد پیڑومکس کی روشنی میں لڑکوں کا نعتیں پڑھتا ہوا جلوس آتا۔ کیسا خوش کن منظر ہوا کرتا تھا۔ ہم تو کھڑکی میں کھڑے ہوکر سارا تماشا دیکھتے پھر جلدی جلدی سحری کرتے۔ امی صبح نو بجے دوبارہ ناشتہ کرواتیں۔ ہم لوگوں کا اسکول دس سے شام چار بجے تک لگتا تھا۔ امی کہتی کہ بچے ایسے وقفوں ہی کے ساتھ روزے رکھتے ہیں۔

عید کی رونق اور گہماگہمی ہم بیان کرنے سے قاصر۔ ساری عیدی آئس کریم، گول گپے اور غبارے میں اور سن شائین اسٹور سے فنٹا پینے میں ختم ہو جاتی۔ اس دور کی ایک بڑے مزے کی روایت تھی کہ طالبعلم عید کے دن اپنے اساتذۂ کے گھر جاتے تھے اور استانیاں اتنی محبت سے ملتیں اور خاطریں کرتیں کہ یقین ہی نہ آتا کہ یہ وہی سخت گیر استانی ہیں۔ سخت سے سخت ٹیچر کا روپ اور رویہ اس دن کچھ اور ہی ہوتا تھا۔ طالبعلموں کا اپنے اساتذہ کو عید کارڈ دینا اور اگر استانی بہت ہی پسندیدہ ہوں تو انہیں چوڑیوں اور ربن کا تحفہ دینا بھی روایت میں شامل تھا۔ بڑے ہی مزے کے دن گزر رہے تھے۔ ہم اور رضیہ دونوں ہم جماعت تھے کلاس تھری میں۔

آپا جب نویں جماعت میں آئیں تو انہوں نے سائنس لی۔ باقی مضامین پر تو ان گرفت بھرپور تھی پر میتھس میں ذرا کمزور تھیں اور ان پر بورڈ کے امتحان کی دہشت بھی بے طرح سوار تھی۔ ڈھاکہ بورڈ ویسے بھی دشوار ترین بورڈ مانا جاتا تھا۔ سو آپا کے لیے ٹیوٹر کی تلاش شدومد سے جاری و ساری تھی پر ہنوز دلی دور است۔ پاپا اس سلسلے میں پرنسپل سے ملے اور انہوں نے اس مسئلے کا حل ماسٹر نذیر کی شکل میں پیش کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ گھنٹی بجا کر چپڑاسی کو نذیر ماسٹر کو بلانے کہا۔

پاپا ان سے مل کر بہت خوش ہوئے اور اپنا مدعا بیان کیا۔ ماسٹر نذیر نے نہایت عاجزی سے انکار کر دیا اور کہا کہ انہیں پڑھانے میں کوئی تامل نہیں مگر بٹیا کو ان کے غریب خانے آنا ہوگا کیونکہ ان اہلیہ حادثے کے باعث معذور ہیں اور وہ اسکول کے بعد مسجد کے علاوہ اور کہیں نہیں جاتے اور ماسٹر صاحب کی دوسری شرط یہ تھی کہ وہ تنخواہ نہیں لیں گے۔ پاپا کے لیے دونوں شرائط نا قابلِ قبول تھیں مگر وہ ان سے اس قدر متاثر تھے کہ ہتھیار ڈالتے ہی بنی۔ بقول ماسٹر صاحب کہ علم برائے فروخت نہیں، یہ تو ایک بیش بہا خزانہ ہے لہذا علم کا فیض عام ہونا چاہیے۔

ٹیوشن کے لیے ہفتے میں تین دن بعد نماز عصر کا وقت طے پایا۔ پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوا اور ہم بطور لگدا آپا کے ساتھ نتھی کر دیے گئے۔ اس پابندی پر ہم دل ہی دل میں بہت جلبلائے کہ میرا کھیل کا وقت مارا جا رہا تھا، پر نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن، بھلا پاپا کے آگے کون بول سکتا تھا؟

ماسٹر نذیر ٹاؤن ہال کے بلمقابل رہتے تھے۔ دائیں ہاتھ مڑ کر تیسری گلی کا چوتھا مکان۔ مختصر سا گھر تھا، دو کمرے، ان کے آگے برامدہ، پھر ایک چھوٹا سا آنگن۔ آنگن کے ایک طرف باورچی خانہ اور دوسرے کونے میں غسل خانہ اور بیت الخلاء۔ آنگن میں جنوبی دیوار کے ساتھ ایک کیاری، اس میں دھنیا، پودینہ، ہری مرچ اور چمبیلی کی جھاڑ اور دو گملے، ایک میں سفید گلاب اور دوسرے میں موتیا۔ آنگن کی کل کائنات ایک چوکی اور دو مونڈھے۔ ایک پر آپا بیٹھ جاتیں اور دوسرا میری تحویل میں آ جاتا۔ پہلے دن تو ہم آنگن تک ہی محدود رہے پر میری سیمابی طبیعت کو قرار کہاں؟ دوسرے دن ہم نے ماسڑ صاحب سے چچی کو سلام کرنے کی اجازت لی، ماسٹر صاحب نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اجازت دے دی۔ ہم نے سکون کی لمبی سانس لی کہ لاکھ ماسٹر صاحب نرم خو تھے مگر ان کی شخصیت کا رعب اتنا تھا کہ ان کے سامنے تو ہمیں کھل کر سانس لینا بھی محال تھا۔

چچی وضو کرتے ہوئے پھسل کر غسل خانے میں گر گئیں تھیں اور داہنے ہاتھ میں کلائی سے کہنی تک فریکچر تھا اور اب پلستر میں جکڑی پڑی تھیں۔ چچی قدرے بھاری بدن کی بہت گوری چٹی خاتون تھیں اور ان کی شخصیت کی ساری کشش ان کی خوبصورت چمکدار آنکھوں اور من موہنی مسکراہٹ میں تھی۔ ہم سدا کے باتونی، ان کو دنیا جہاں کے قصے سناتے اور وہ دلجمعی سے سنتی رہتیں اور بیچ بیچ میں لقمہ بھی دیتی جاتیں۔ الغرض میری اور چچی کی بہت اچھی دوستی ہوگئی، خوب گاڑھی چھنے لگی۔ اس قدر کہ جس دن ٹیوشن کا ناغہ ہوتا ہمیں ان کی کمی لگتی۔

دن اپنی یکساں رفتار سے گزرتے رہے، آپا کی پڑھائی زور و شور سے جاری تھی۔ ان دنوں ہم اور رضیہ آپا سے اس قدر مرعوب تھے کہ کیا ارسطو سے ہوتے۔ خاص کر آپا کے بائیولوجی کے جرنلز تو ہم لوگوں کے لیے صحیفے کی حثیت رکھتے تھے۔ جرنل کا باریک کاغذ اور پنسل سے کی گئی شیڈیڈ ڈرائینگ ہم لوگوں کے لیے انتہائی مسحورکن تھی۔ ان دنوں ہم اور رضیہ بیٹھ کر انگلیوں پر حساب لگایا کرتے تھے کہ ہم میٹرک کب کریں گے اور 1975 صدیوں کی مسافت پر محسوس ہوتا تھا۔ ایک دن رضیہ اور ہم حسب معمول گائے کے چھپر تلے بیٹھے تھے اور ہم دونوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ ہم لوگ سائنس تو ہر گز ہر گز نہیں لیں گے کہ بہت مشکل ہے۔

آپا کی تیاری ٹھیک ٹھاک تھی، امتحانات کی تیاریوں میں جان لڑا دی تھی غریب نے سو رزلٹ بھی شاندار آیا، آپا نے میٹرک فرسٹ ڈویژن سے پاس کر لیا۔ رزلٹ کا دن مانو تہوار کے دن میں تبدیل ہوگیا امی نے منوں کے حساب سے مٹھائی رشتے داروں اور دوستوں میں بانٹی اور منوں ہی کے حساب سے مٹھائی اور پھولوں کے ہار لیکر ملنے جلنے والوں نے ہم لوگوں کی خوشی میں شرکت کی۔ وہ بلاشبہ ایک یادگار دن تھا، کھلکھلا تا چمکتا ہوا۔ امی پاپا اور آپا مٹھائی لیکر ماسٹر صاحب کے گھر گئے۔ ان کی خوشی دیدنی تھی کہ ان کے سارے طالبعلم بہت اچھے نمبروں سے پاس ہوئے تھے اور ان کا نواسہ نوید بھی فرسٹ ڈویژن سے پاس ہوگیا تھا۔ اس کی خوشی میں ماسٹر صاحب نے پورے اسکول کو مٹھائی کھلائی تھی۔ وہ اپنے اکلوتے نواسے سے بہت پیار کرتے تھے۔

1969 کے وسط میں ہم لوگ نورجہان روڈ سے اورنگ زیب روڈ اپنے گھر میں شفٹ ہو گئے۔ گو کہ نورجہاں روڈ اور اورنگ زیب روڈ میں کوئی بہت زیادہ فاصلہ نہیں تھا پھر بھی میرا ماسڑ صاحب کے گھر جانے کا تسلسل برقرار نہیں رہ سکا۔

مشرقی پاکستان میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے۔ ڈھاکہ میں ایک سوڈو امن نظر آتا تھا مگر اندرون مشرقی پاکستان تو حالات بہت ہی خراب تھے۔ لوٹ مار اور قتل عام آئے دن کی کہانی تھی۔ لوگ دور دراز کے علاقوں سے سمٹ سمٹا کر ڈھاکہ اور پھر جن کی استطاعت تھی وہ کراچی نکل رہے تھے۔ فضا میں ہراس اور بےیقینی تھی، دوست اور دشمن کی تمیز ختم ہو چکی تھی اور انسان اپنے سائے سے بھی خوفزدہ تھا۔ اکتوبر تک حالات مزید خراب ہو گئے۔ چھوٹے شہروں میں فسادات پھوٹ پڑے اور بھرا پرا شہر، شہرِ خموشاں میں تبدیل کر دیا گیا۔ دیناج پور، کشٹیا، کھلنا، راج شاہی، پبنہ، رانگا ماٹی، میمن سنگھ، چاگام، سلہٹ سوائے ڈھاکہ کے مشرقی پاکستان کا ہر شہر زخمی تھا۔ محدود فوج کہاں کہاں جاتی؟

ویسے بھی مکتی باہنی نے پلوں، سڑکوں اور ریل کی پٹریوں کو تباہ کر دیا تھا۔ کل کے عزیز دوست آج کے بد ترین دشمن بن تھے اور عصبیت کا جن بوتل سے باہر آ کر نفرت کا لاوا اگل رہا تھا۔ ایسی لال آندھی چلی کہ انسانی خون پانی سے بھی ارزاں ہوگیا۔ انسانی جان کی حرمت ہی نہیں رہی اور بربریت کا بازار گرم تھا۔ 1947 کی یاد تازہ ہوگئی، 1947 میں کم از کم ایک صبر تھا کہ مارنے والے ہندو یا سکھ تھے اور یہاں قیامت یہ تھی کہ مرنے والے اور مارنے والے دونوں ہی کلمہ گو۔

ڈھاکہ میں پناہ گیروں کی یلغار تھی، کمپ بھر گئے تھے۔ ہسپتالوں میں زخمیوں کے لیے جگہ نہ رہی اور ہسپتال کی گیلری بھی وارڈ بن چکی تھیں۔ ابھی ایک مرگ کا رونا ختم نہیں ہوتا کہ دوسرے کی خبر آ جاتی تھی۔ ایک دن خبر ملی کہ امی کے ماموں اور ماموں زاد بھائی جو میڈیکل کے آخری سال میں تھے دیناج پور میں شہید کر دیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پھر ماسٹر نذیر کے داماد اور نواسے کی شہادت کی خبر ملی۔ ایک تسلسل تھا دل دوز خبروں کا۔

جب فوج پبنہ پہنچی تھی تو پورا شہر خاک اور خون میں لتھڑا ہوا تھا۔ جوان عورتوں اور لڑکیوں کی بے حرمتی کے بعد کچھ کو ذبح کر دیا گیا تھا اور کچھ کو درختوں کی ٹہنیوں میں لٹکا کر پھانسی دے دی گئی تھی۔ پورے شہر میں دو چار بوڑھوں کے علاوہ کوئی ذی نفس نہیں بچا تھا۔ گدھ اور کتے بھی لاشیں نوچ نوچ کے تھک چکے تھے۔ گھر گھر کی تلاشی کے بعد کچھ لوگ ملے اور فوج کے جوان انہیں لیکر ڈھاکہ آئے اور انہیں محمد پور کیمپ میں داخل کر دیا۔ مشرقی پاکستان کے تقریباً ہر چھوٹے شہر کی یہی رودادِ الم تھی۔ بربریت کی ایسی ایسی داستان کہ انسان لرز جائے۔ انسانی جسم پہ ڈرل مشین سے جئے بنگلہ لکھا جاتا۔ چاٹگام میں پاکستان سے وفاداری کی سزا کا پسندیدہ طریقہ یہ تھا کہ غیر بنگالیوں کے جسم سے پورا خون کشید کر لیا جاتا یا دو بانس کی کھچیوں کے بیچ سر رکھ کر ٹوکے سے سر اڑا دیتے۔ عورتوں کی بے حرمتی کرنے کے بعد انہیں تڑپا تڑپا کر مارا جاتا۔ ظلم اور سفاکی کی کوئی حد نہ تھی، کہیں اماں نہ تھی۔

ادھر ڈھاکہ میں لوگ کیمپ میں اپنے عزیزوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے۔ ایسی ہی ایک تلاش کے دوران ماسٹر صاحب کو انکی بیٹی مل گئیں۔ وہ کیمپ کے برامدے میں ایک کونے میں سکتے کی کیفیت بیٹھی تھیں۔ جب ہم لوگ تعزیت کے لیے ماسٹر صاحب کے گھر گئے تو وہاں ایک دہشت ناک خاموشی تھی۔ ایسی خاموشی جو آپ کی روح میں دراڑ ڈال دے۔ چچی بالکل خاموش تھیں اور ان کی مسکراتی آنکھوں میں دھند اتری ہوئی تھی۔ ان کی بیٹی صحن میں چوکی پر کسی مجسمے کی طرح مجسم، ہوش و خرد سے عاری۔ ماسٹر صاحب صحن کے کونے میں وضو کر رہے تھے، وہ بہت بوڑھے اور کمزور لگ رہے تھے۔ مسجد کے لیے دروازے سے نکلتے ہوئے انہوں نے " اللہ " کہا تھا مگر اس سے زیادہ دلدوز آہ ہم نے آج تک نہیں سنی!

وہ منظر آج تک میری آنکھوں میں اور وہ درد میرے دل میں ٹھہرا ہوا ہے۔

Check Also

Danish Ki Jeet, Bewaqoofi Ki Haar

By Asif Masood