Malal e Daroon (2)
ملال دروں (2)
اس کی محبت کا انداز ہی دل ربا اور مختلف تھا۔ بیٹیاں واقعی اللہ کی رحمت ہوتی ہیں اور مجھے جتنی خوشی خولہ کی پیدائش پر ہوئی تھی، اتنی تو قسیم اور سیف کی پیدائش پر بھی نہیں ہوئی تھی۔ اترنے سے پہلے ماہ کو گلے لگایا تو اس کی خوب صورت آنکھیں بھی لبالب بھری ہوئی تھیں۔ میرا شدت سےجی چاہا کہ یا تو میں بھی ان لوگوں کے ہمراہ ہی چلا جاؤں یا پھر ان سب کو ٹرین سے اتار لوں۔ اپنی جزباتیت پر سر کو جھٹکتے ہوئے، میں رینگتی ہوئی ٹرین سے نیچے اتر آیا اور تا حد نظر جاتی ہوئی ٹرین کو ہاتھ ہلاتا رہا۔ دھندلائی آنکھیں ماہ کے الوداع کہتے ہاتھوں پر جمی رہیں حتیٰ کہ ٹرین نقطہ بھی نہ رہی۔
میں بھرے دل سے گھر لوٹا۔ یہ تیرہ سالہ ازدواجی زندگی کی پہلی عارضی جدائی تھی کہ ماہ تو کبھی اکیلے میکے بھی نہیں جاتی تھی۔ خالی گھر بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ ماہ گھر کو سمیٹ کر گئی تھی، بس صوفے پر سیف کاfidget spinnerپڑا ہوا تھا۔ مجھے چائے کی شدید طلب تھی۔ باورچی خانے میں چولھے پر کیتلی رکھی تھی، چائے کی پتی کے لیے کیبنٹ کھولی تو وہیں چائے کی پتی کے ساتھ ہی ایک پرچی بھی تھی۔ میں ایک دم مسکرا دیا، یہ ماہ کی بڑی پیاری عادت تھی۔ وہ اکثر میرے پرس میں، ٹفن باکس یا پھر تکیے کے نیچے پرچی رکھ دیتی تھی جس میں کبھی کوئی شعر یا ایک دو محبت بھرے جملے لکھے ہوتے۔
پرچی پر لکھا تھا، " خالی چائے مت پینا، ساتھ بسکٹ بھی ضرور کھا لینا اور پھر سر درد کی گولی بھی۔ "مجھے جانے کیا ہوا، میں نے چولھا بند کیا اور لیونگ روم میں آ کر اونچی آواز سے رونے لگا۔ تھوڑی دیر رونے کے بعد دل جیسے ٹھہر سا گیا۔ مجھے کچھ خیال آیا اور میں نے شرٹ کی پاکٹ چیک کی۔ خولہ کی پرچی میں پھولوں کے درمیان " لو یو پاپا " لکھا ہوا تھا۔ میری آنکھیں ایک بار پھر ساون بھادوں ہو گئیں۔ ایک دم گھونٹتی اداسی تھی جس نے مجھے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا تھا اور جانے رات کے کس پہر میں وہیں صوفے پر ڈھے گیا؟
صبح معمول کے مطابق آنکھ کھلی اور اپنے آپ لیونگ روم میں صوفے پر پا کر میں حیران ہی ہو رہا تھا کہ پھر ایک دم سے سب کچھ یاد آ گیا۔ میں بے دلی سے ٹی وی آن کرتا ہوا منہ ہاتھ دھونے کے لیے باتھ روم کی جانب بڑھ ہی رہا تھا کہ ٹی وی پر چلتی بریکنگ نیوز کی چنگھاڑ نے میرے پیر جکڑ لیے۔ انہونی ہو چکی تھی، میری قیامت کا صور پھونکا جا چکا تھا کہ ماہ پارہ کی ٹرین پٹری سے اتر گئی تھی۔ اس سے آگے کی سب یادیں گڈمڈ ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ میں جائے حادثہ پر کیسے پہنچا؟
بس اتنا یاد ہے کہ ہسپتال والوں نے میرے پیاروں کی باقیات، مجھے سیاہ بڑے بڑے سے بیگز میں دیں اور کہا کہ انہیں کھولے بغیر کفن دفن کر دیجیے گا۔ ماہ پارہ کے دونوں بھائی اور میرے کچھ دوست بھی میرے ساتھ ہی تھے۔ میں نے ان بیگز کو بنا کھولے، اوپر سے پونچھ کر خوشبو اور کافور میں بسے کفن میں کفنا دیا۔ خود ہی ان چاروں کو باری باری قبر میں اتارا اور شاید خود بھی حصہ حصہ ان چاروں کے ساتھ دفن ہو گیا۔ میں ان چاروں کے آخری دیدار سے محروم رہا، مگر شاید یہ بھی میرے حق میں بہتر ہی ہے کہ وہ چاروں میرے خیالوں میں ہنستے، کھلکھلاتے ہی نظر آتے ہیں۔
دو تین مہینے دنیا سے بےگانہ رہا مگر کب تک؟ پھر دفتر کی روٹین شروع ہو گئی۔ مجھے لوگوں سے وحشت ہوتی ہے اور ان کے تعزیتی جملے بناوٹی اور اوپری لگتے ہیں۔ جس پر بیتی ہی نہ ہو، وہ بھلا میرے درد کو کیسے جان سکتا ہے؟ جس اذیت کا کوئی انت نہیں، اسے بھلا کوئی دوسرا کیسے محسوس کر سکتا ہے؟ مجھے لوگوں کا موو آن move onکا مشورہ بہت ہی ظالمانہ لگتا ہے۔ جس کی دنیا ایک پل میں اجڑ گئی ہو اور اس کا کچھ بھی بچا ہی نہ ہو تو وہ موو آن کیسے کر سکتا ہے؟ بھلا وہ کس دل سے آگے بڑھ جائے اور دنیا میں کیوں کر رل مل جائے؟
مجھے لگتا ہے کہ اب میں تاحیات اسی لمحے میں حنوط ہوں۔ اسی مقتل کا زندہ مقتول۔ میں خود بھی اپنی کیفیات سمجھنے سے قاصر ہوں مگر مجھے بہت بہت غصہ آتا ہے؟ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس سے پوچھو کہ تو، تو میرا سب سے اچھا دوست تھا؟ پھر یہ میرے ہی ساتھ کیوں؟ اس اربوں کھربوں کی دنیا میں اس آزمائش کے لیے فقط میں ہی کیوں؟ میں نے تو کبھی بھولے سے بھی مضبوطی کا دعویٰ نہیں کیا تھا؟ مالک! میں تو تیرا خاکی حقیر فقیر کمزور ترین بندہ ہوں۔ تیری مصلحتوں سے نا آشنا، ایک بے صبرا اور تھرڈلا شخص اور تو نے اس پر پورے کا پور K2 الٹ دیا!
میرا جی چاہتا ہے کہ میں اتنی شدت سے چیخوں کہ میری چیخ صور اسرافیل بن جائے اور یہ ہنستی مسکراتی دنیا پل کے پل میں بھسم ہو جائے۔ جب میں خوش نہیں تو اس دنیا میں بستے لوگ کیوں خوش ہوں؟ مجھے اپنی سوچوں سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ میرا ایمان مجھے شعوری طور پر ان سلگتے سوالات سے باز رکھنے کی حتی المقدور کوشش بھی کرتا ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ میں تھک چکا ہوں، ان لوگوں کی یاد میں مجھے سانس سانس آزار ہے۔ ماہ میری زندگی! یہ کیسا امتحان ہے؟ ہم تو جی بھی نہیں سکے ایک ساتھ ہم کو تو ایک ساتھ مرنا تھا۔
میری زندگی کا واحد سہارا اب فوٹو البم اور فون کی گیلری میں محفوظ ان سب کی وڈیوز اور ماہ کے وآئس میسیجز ہیں۔ میں نے گھر اور شہر سب بدل لیے مگر اس دل مضطر کو نہ ہی کہیں سکون ہے نہ قرار۔ میری دلی خواہش ہے کہ میری قید حیات مختصر ہو جائے کہ مجھے ان چاروں کے بغیر جینا نہیں آتا۔ میں جینا چاہتا بھی نہیں کہ مجھ سے جیا ہی نہیں جاتا مگر یہ ہٹیلی دنیا مجھے اپنے ساتھ گھسیٹے پھر رہی ہے اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ گھسٹنے پر مجبور۔
کبھی روئے کبھی تجھ کو پکارا
شب فرقت بڑی مشکل سے گزری
ہوائے صبح نے چونکا دیا یوں
تری آواز جیسے دل سے گزری
مجھے شدت سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں دنیا کو میری آہ نہ لگ جائے اور آج صبح ٹیلی فون پر شہ سرخی دیکھی اور دل کانپ گیا، سینٹ پیٹرز برگ اور واشنگٹن ڈی سی دنیا کو بھسم کرنے پہ کمر بستہ۔