Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Main, Wo Aur Point

Main, Wo Aur Point

میں، وہ اور پوائنٹ

جانے کیسے مگر کبھی کبھی ناظر ہوتے ہوئے بھی آپ انجانے میں کہانی میں شامل ہو جاتے ہیں۔

میں منظر نامے میں تو تھا مگر کہانی کا ہیرو نہیں۔ اب کیا کیا جائے آج بیالیس سالوں کے بعد بھی وہ کہانی بسرتی ہی نہیں۔

وہ گنجان آبادی کی پر ہجوم سڑک کا بہت ہی معروف و مصروف اسٹاپ کہ وہاں عوامی بس کے ساتھ ساتھ جامعہ کی بسیں بھی رکتی تھیں۔ لبِ سڑک آباد گھر، ٹریفک کے بے پناہ شور اور اپنی پردہ داری کے لیے اپنی بیرونی کھڑکیوں کو مقفل رکھتے تھے۔ بائیں ہاتھ پر مڑتی گلی سے متصل علاقے کا معروف ہسپتال تھا۔ دو رویہ سڑک پر دوڑتے ٹریفک کے اِژدِہام کے پار دنیا جہاں کی دکانیں ہی دکانیں۔ یہاں زیادہ تر گاڑیوں اور موٹر سائیکل کی مرمت کے لیے گیراج اور لوہار کی دکانیں تھیں۔ بے مہار بجتے ہارن کے ساتھ ساتھ لوہے کے کوٹے جانے کی آوازیں مدغم ہوکر ایک بے ہنگم سر کا پراگندہ تاثر دیتیں۔

اس اسٹاپ پر کل ملا کر تیرہ طالب علم تھے۔ آٹھ لڑکیاں اور پانچ لڑکے۔ تین لڑکیاں تو سائنس ڈپارٹمنٹ کی تھیں کہ ان کے ہاتھوں میں جھولتے لیب کوٹ اس کا مظہر۔ میں چونکہ آرٹس فیکلٹی میں تھا سو جامعہ پہنچتے ہی میری منزل سب سے پہلے آ جاتی۔ یہیں میرے ساتھ دو لڑکے اور ایک لڑکی بھی اتر جاتی۔ جلدی ہی میں نے کھوج لگا لیا کہ وہ بردبار سی لڑکی فلسفے کی اور دونوں لڑکے سوشل ورک کے تھے۔

میں پوسٹ گریجویشن کے فائنل ائیر کا طالب علم، طبیعت سے حسن پرست اور شاعری میرا اوڑھنا بچھونا۔ جی آپ نے بالکل درست اندازہ لگایا، میں انگریزی ادب کا طالب علم مگر شیدا اردو شاعری کا۔ میری زیادہ تر شاعری اردو ہی میں تھی۔ خواب میرے بہت اونچے سو منزل سی ایس ایس کے بعد کی تعیناتی۔ میں اکثر، جامعہ اپنی پھٹپھٹی پر ہی جاتا تھا پر خدا کا کرنا ایسا کہ نئے سمسٹر کے پہلے ہی دن میری موٹر سائیکل اسٹارٹ ہو کر ہی نہ دیے۔ وہ کیا بگڑی کہ میرے نصیب ہی سنور گئے، نئے سمسٹر کا پہلا دن اور طلبہ کے جمگھٹے میں مجھے چودھویں کا چاند نظر آ گیا۔ میں اس ماہ لقا کے روپ سروپ کے درشن میں ایسا مُنہمک ہوا کہ موٹر سائیکل کو پھر کبھی یونیورسٹی کی زیارت نصیب ہی نہ ہوئی۔ میں تھا اور ماہ لقا کے دیدار کا لپکا کہ رشکِ قمر کا سودا برا۔ ایک صبح آرٹس فیکلٹی اترنے کے بجائے میں اُس رشکِ قمر کے شعبے کی کھوج میں پوائنٹ پر ہی بیٹھا رہا۔ وہ اپسرا شعبہ فارمیسی پر اتری اور بائیں ہاتھ کو مڑ کر سیدھی نکلتی چلی گئی۔ میں نے مانو چاند فتح کر لیا۔ اس کا شعبہ تو اب جان ہی چکا تھا پر نام ہنوز نا معلوم۔

اسٹاپ پر اس کی صاحب سلامت کسی سے نہ تھی۔ اس کی تیکھی ناک، اپنے ہی حسن پہ نازاں شان سے اونچی رہتی۔ وہ اپنے شانے سے نیچے آتے گھنگھریالے بالوں کو کبھی چوٹی تو کبھی کیچر میں جکڑے شانِ بے نیازی سے مورت کی صورت کسی غیر مرئی نقطے پر نگاہیں جمائے خلا کو تکتی۔ وہ سرو قد ہونے کے ساتھ ساتھ شہابی رنگت کی حامل اور سر تا پا مکمل سانچے میں ڈھلی ایک خوبصورت پینٹنگ ہی لگتی تھی۔ رخِ زیبا کا تو خیر ذکر ہی کیا اس کے تو پیر بھی مثلِ سجدہ گاہ۔ اکثر کالی اور کبھی کبھار براؤن سینڈل میں جکڑے اس کے پیر پرستان کی پریوں کے حسن کی ہمسری کرتے۔ میں قسمیہ کہتا ہوں کہ آپ کے ذہن میں خوبصورتی کی اعلیٰ ترین تشبیہ بھی اس کے پیروں کے حسن کا احاطہ کرنے سے قاصر۔ میں جب بھی اس کے پیر دیکھتا تو مجھے وی سی آر پر دیکھی گئی کلاسیک فلم "پاکیزہ" کا مشہور ترین مکالمہ یاد آ جاتا۔

"آپ کے پاؤں دیکھے، بہت حسین ہیں، انہیں زمین پر مت اتاریے گا"۔۔

میں یوسف ثانی تو ہر گز نہ تھا مگر وجہہ و شکیل ضرور۔ اتنا جامہ زیب کہ ملگجے پائجامہ پر قینجی چپلیں پہنے بھی عام نہ لگتا۔ میں نے لاکھ چاہا کہ میں جامعہ، پوائنٹ کے بجائے دوبارہ موٹر سائیکل پر جانا شروع کر دوں مگر ہر صبح کوئی نادیدہ قوت مجھے کشاں کشاں اسٹاپ پر اس کے روبرو کر دیتی۔

میں اس کے حسن کی تابناکی سے سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ بس اسٹاپ کے منظر نامے میں نیا کردار داخل ہوا۔ یہ سڑک کے آخری مکان، جس کے دروازے اور دیوار کے آس پاس ہم سب طلبہ کا جتھا اسٹاپ پر اپنی جامعہ کی پوائنٹ کا منتظر ہوتا، اسی گھر کا فرد تھا۔ اس گلفام نے اپنی موٹر سائیکل کی صفائی دھلائی کے لیے اُسی گھڑی کو شبھ جانا اور ظالم کی یہ حکمتِ عملی بڑی حد تک کامیاب رہی۔ کمبخت تھا بھی بلا کا جاذبِ نظر بالکل یونانی دیومالائی کردار نارسی جیسا وجہہ پیکر۔ مجھے تو آٹھوں کی آٹھ لڑکیاں اس پر رجھتی مٹتی محسوس ہو رہی تھیں۔ گویا بھیا بھینس گئی پانی میں۔ ان آٹھوں لڑکیوں سے تو میرا کوئی لینا دینا نہ تھا پر جانے کیوں مجھے وہم سا تھا کہ میری ماہ لقا بھی اس چھبیلے کے آگے کچھ کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ خیر مرتا کیا نہ کرتا دل کو سمجھایا کہ بچّو لڑکیاں بھی خوبصورتی سے گھائل ہوتی ہیں کہ حسن کا وار کاری۔ میں نے متوقع شکست کے پیش نظر۔

شدید دل گیرفتگی کے عالم میں میدانِ عشق ہی خالی کر دیا۔ میں کہ پیدائشی زود رنج تو تھا ہی اب یہ بھی جان لیا کہ رچ کے تھُڑ دِلا بھی ہوں۔ میں نے جامعہ کا پوائنٹ ترک کیا سو کیا انتہا یہ کہ اس راستے سے گزرنا ہی چھوڑ دیا۔

***

بازار میں چاند رات کے سبب کھوئے سے کھوا چھیل رہا تھا۔ میری بیگم ہماری چار سالہ بیٹی نویرہ کے ہمراہ خواتین کے ہجوم میں پھنسی چوڑیاں پہن رہیں تھیں۔ میں رش سے بچتے ہوئے راستے سے ہٹ کر قدرے کنارے کھڑا تھا کہ اچانک ایک چار پانچ سال کا بچہ لڑھکتی گیند کے تعاقب میں بھاگتا ہوا میرے پیروں سے ٹکرا کر گر گیا۔ میں اسے اٹھا کر اس کے زخمی گھٹنے صاف کر ہی رہا تھا کہ ایک بدحواس سی عورت نے اسے میرے ہاتھوں سے جھپٹ لیا۔

تم میرا ہاتھ چھڑا کر کیوں بھاگے تھے رشی؟

اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو!

یہ کہتے ہوئے اس نے بے تابی سے اس بچے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔

میں اپنی جگہ پر منجمد ہو چکا تھا کہ میں اپنی ماہ لقا کو سات سال، چار ماہ اور اٹھائیس دنوں کے بعد دیکھ رہا تھا۔

میرے خدا! وہ آج بھی ویسی ہی اجلی، نکھری پر قدرے پژمردہ سی۔ جب ثانیہ بھر کو اس کی نظریں مجھ سے چار ہوئیں تو جانے کیوں اسے سنبھلنے میں زمانے لگے۔ مجھے اس کی آنکھیں بہت ہی اداس اور شکوہ کناں لگیں۔

آپ کا بچہ بہت ہی پیارا ہے!

میں نے سنبھلنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے، بچے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ میں بے خودی کے عالم میں اسے ٹک ٹک دیکھے جا رہا تھا۔

"آپ کی جلد فیصلہ لینے اور غلط اندازے لگانے کی عادتِ بد اب بھی ویسی ہی برقرار ہے! "

اس کی فسوں ساز آنکھیں دھواں دھواں اور اس کے لہجے میں ٹوٹے کانچ جیسی شکستگی چبھن تھی۔

یہ میرا بھتیجا ہے!

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari