1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shaheen Kamal/
  4. Koyla Bhai Na Rakh (3)

Koyla Bhai Na Rakh (3)

کوئلہ بھئی نہ راکھ (3)

تقی کی شادی کی رونق رہی، نرگس نے بھی تقی کی شادی میں شرکت کی۔ میری بھولی بھالی نرگس اب ایک با اعتماد خاتون میں ڈھل گئی تھی۔ بڑی آپا کی مصروفیت میں اب بلال کے ساتھ ساتھ ہانیہ نے بھی اضافہ کر دیا تھا۔ ابا کی طبیعت اب بہت اچھی نہیں رہتی تھی۔ تفصیلی چیک آپ کرایا تھا سمیع نے، مگر ڈاکٹروں نے عمر کا تقاضہہی کہا۔ ایک دن میں ذرا دیر سے گھر پہنچا تو دیکھا کہ سب بیٹھک میں جمع ہیں۔ ماحول خاصہ گھمبیر ہے۔ امی اپنی آنکھیں پونچھ رہیں ہیں۔ یا الہی! سب خیریت ہے نا؟

ہاں ہاں سب خیریت ہے۔ تمہاری امی کو یونہی چھوٹی چھوٹی باتوں میں پریشان ہونے کی عادت ہے۔

یہ چھوٹی بات ہے؟

امی نے ساڑی کے پلو سے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے کہا۔

دراصل ابا جان نے آپنا وصیت نامہ مرتب کر دیا تھا، اس بات کو امی بد شگونی مان رہی تھیں۔ گھر، فیکٹری سب میں سب بہن بھائیوں اور امی کا شرعی حصہ تھا۔ سچی بات ہے ابا جان کو قریب سے جان کر احساس ہوا تھا کہ ان کی سختی میں کتنی آسائیش اور فہمائیش تھی ہم لوگوں کے لئے۔ ہم لوگوں کو راہ حق پر رکھنے کے لیے کتنی جان ماری تھی انہوں نے۔ ان کے کار خیر کا ہی اثر تھا کہ ہم چھ کے چھ صحیح راستے کے راہی تھے۔

اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے۔ پھر ایک صبح ابا جان فجر کے لیے نہیں اٹھے، وہ اپنی ذمہ کی آخری نماز ادا کر کے چین سے سو گئے تھے۔ جنازے پر ایک خلقت جمع تھی۔ ابا کی تعزیت ایسے ایسے لوگ کر رہے تھے جن سے میں زندگی میں کبھی ملا بھی نہیں تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ ابا جان دنیا سے آسودہ گئے۔ دنیا میں بھرپور رہے مگر کبھی دنیا کو دل میں نہیں بسایا۔ اللہ تعالی ان کی بہترین میزبانی فرمائے آمین۔

مجھے امی کی فکر تھی۔ مجھے خوف تھا کہ اب ان کا ساتھ زیادہ عرصے نہیں ہے۔ امی نے کہا ذکی سب اپنی اپنی زندگیوں میں خوش ہیں، اب تم بھی شادی کر لو ورنہ مجھے فکر رہے گی۔ میں نے کہا ضرور امی جس میں اپکی خوشی۔ زندگی ہے تو اس کی سو ضرورتیں بھی ہیں کہ حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتی۔ ہاں یہ عجیب بات تھی کہ بڑی سے بڑی خوشی بھی دل تک نہیں پہنچتی تھی۔ ایک مستقل قنوطیت سی تھی طبیعت میں۔

میری پھوپھی زاد بہن سے میری شادی ہو گئی۔ زندگی اپنی روٹین پر چلتی رہی۔ شکر ہے کہ عروبہ ڈیمانڈنگ نہیں تھی۔ سلجھی ہوئی تحمل مزاج کی لڑکی تھی۔ عرصے دراز بعد میرے دل نے تب خوشی محسوس کی جب اہسپتال میں میں نے پہلی بار مجتبی کو گود لیا۔ ایک ٹھنڈک سی رگ و پے میں سرایت کر گئی۔ امی بھی لگتا ہے کہ بس اسی خوشی کے انتظار میں تھیں۔ مجتبی بمشکل تین مہینے کا تھا کہ امی بھی ابا جان کی دوسراہت کو عازم سفر ہوئیں۔ ان دونوں کے جانے سے میں بہت متاثر ہوا مگر وہی بات، کس کی بچی ہے، کس کی رہی ہے۔

وہ اگلہ موڑ جدائی کا

اسے آنا ہے وہ تو آئے گا۔

میں دنیا داری پوری نبھاتا تھا، مگر دل کچھ قلندر ہو گیا تھا۔ مجھے تنہائی بہت سکون دیتی تھی۔ میں سال میں دس دن پابندی سے تھر کے صحرا میں گزارتا تھا۔ مکلی کا قبرستان مجھے بہت زیادہ اپنی جانب کھینچتا۔ صحرا میں عشاء کی نماز کی الگ ہی کفیت ہوتی ہے، وہ سرور اور وہ جزب مجھے کہیں اور نہیں ملا۔ بے کنار صحرا کا سناٹا اور سر پر تاروں سے مزین چھت۔ وہاں کھڑے ہو کہ احساس ہوا کہ انسان تو ریت کے ایک ذرے سے بھی حقیر ہے۔

اللہ تعالی کی کبریائی اور عظمت کا ادراک ہوا۔ یہ دس دن میری زندگی کے پورے سال کا حاصل ہوتے تھے۔ دیکھتے دیکھتے زندگی برق رفتاری سے ہوا ہوتی گئ۔ کل کے بچے ہمارے کاندھوں سے اونچے ہوتے گئے۔ مجتبی گو کہ IBA کا پوسٹ گریجویٹ تھا مگر اس کی دلچسپی بزنس میں تھی لہذا اپنے دادا کی فیکٹری اب وہی سنبھالتا تھا۔ میں ہفتے میں تین دن تھوڑے وقت کے لیے جاتا تھا۔ اب میرا بیشتر وقت سوشل ورک میں گزرتا۔

میں بہت زیادہ فلاحی کاموں میں شامل ہو چلا تھا۔ مجھے باوجود شدید تھکن کے ایک خوشی اور سکون میسر تھا۔ خدا تک پہنچنے کے بہترے راستے ہیں اور میں نے سہل ترین اور کامیاب ترین راستہ چنا، یعنی مخلوق خدا کی خدمت، اسکی مخلوق کی داد رسی۔ جب سے اس راہ کا راہی بنا تھا، سکون کے سارے دروازے کھل گئے تھے اور کوئی خلش اور تپش باقی نہیں تھی۔

میرے محلے میں ایک پرانے گھر کو توڑ کر دوبارہ بنایا گیا تھا اور وہ گھر پچھلے دو مہینوں سے برائے فروخت تھا۔ کل رات کھانے کے دوران مجتبی نے بتایا کہ اس گھر کا سودا ہو گیا ہے اور اس کے دوست کی کزن نے خریدا ہے۔ کہنے لگا امی جس دن وہ لوگ شفٹ ہوں، آپ کھانے اور چائے کا انتظام دیکھ لیجیے گا۔ کل میں عصر کی نماز پڑھ کر واپس آ رہا تھا تو دو پیارے پیارے بچے اس گھر کے فرنٹ لان میں کھیلتے نظر آئے۔ اچھے پیارے بچے تھے۔

ایک دن ان بچوں کو قریب سے دیکھا اور بچی کو دیکھ کر حیران رہ گیا، ایسا لگا کہ اس کو بہت اچھے سے جانتا ہوں۔ یہ خیال ذہن میں چپک کر رہ گیا مگر ذہن ریکال نہیں کر پا رہا تھا کہ کہاں دیکھا ہے؟ پھر عروبہ نے ان لوگوں کو کھانے پر بلایا۔ مجتبی کے دوست کے بہنوئی مزمل سے مل کر خوشی ہوئی کہ صاحب فہم تو تھے ہی ساتھ ساتھ قدرت کلام بھی رکھتے تھے۔ عشاء کی اذان ہو گئی تھی میں مزمل سے اجازت لیکر نماز پڑھنے روانہ ہو گیا۔

مسجد سے وآپسی پر گیٹ پر مزمل کی بیگم اور خوش دامن سے ملاقات ہوئی اور ایک سیکنڈ میں یہ معمہ حل ہو گیا کہ وہ بچی مجھے کیوں اتنی دیکھی دیکھی لگ رہی تھی۔ جی آپ نے ٹھیک سمجھا مزمل کی خوش دامن رابعہ تھیں۔ چالیس سال بعد ایک بار پھر میرے سامنے۔ رابعہ نے بھی مجھے دیکھا مگر اس کی آنکھوں میں مجھے کوئی شناسائی نظر نہیں آئی۔

سونے سے پہلے میں عروبہ سے مزمل کے خاندان کی تعریف سنتا رہا۔ مگر مجھے صرف ایک بات پریشان کر رہی تھی کہ آخر اب کیوں سامنا ہوا۔ کافی عرصے بعد ایک مضطرب رات میرا مقدر تھی۔ اگلی صبح بغیر کسی منصوبہ بندی کے میں تھر کی جانب روانہ تھا۔

تو یہ تم تھے ذکی، مگر اب کیوں؟

چالیس سال تو ایک عرصہ ہوتا ہے۔ زمانے کے کتنے گرم سرد دیکھ لیے میں نے۔ دیکھ لو دل کے جس گوشے میں تم تھے وہاں کوئی تغیر نہیں آیا۔ وقت وہیں کا وہیں حنوط ہے۔ تمہاری یاد تو گنبد بے در ہے۔ تمہاری یادیں گرم کپڑوں کی طرح دل کے صندوق میں مقفل ہیں، جنکو میں وقت بے وقت دھوپ لگاتی رہتی ہوں۔ وہ ویسے ہی کرسپ اور تازہ ہیں۔ میں نے وقت کو ان پر دھول ڈالنے نہیں دیا۔

زندگی کے کڑے وقت تو گزار لیے۔ ہاں ایک حسرت ضرور تھی، جانے کیوں تھی؟ شدید خواہش تھی کہ ایک بار صرف ایک بار میں تم کو ضرور دیکھوں۔ کیوں یہ میں خود نہیں جانتی؟ مگر میں بہت خوش تھی کہ میری دیرینہ خواہش پوری ہوئی۔ اب میں اس دنیا کو پوری خوش دلی اور رضامندی سے چھوڑ نے کے لیے تیار تھی۔ میں دس دن بعد تھر سے لوٹا تو گلی میں ٹینٹ نظر آیا اور موقع کچھ غم ہی کا لگ رہا تھا۔

اوہ میرے خدا! یہ ٹینٹ تو مزمل کے گھر کے آگے ہے۔ مجھے یقین تھا رابعہ کہ یہ تمہیں ہو۔ تم ہمشہ میری غیر موجودگی میں سفر کیوں کرتی ہو؟ اس بار بھی تم بغیر کچھ کہے سنے۔ بنا خدا حافظ کہے چلی گئی۔ مجھے زندگی نے یہ موقع نہیں دیا تھا کہ میں تم کو یہ بتا سکتا کہ میں تمہارا کس قدر احسان مند ہوں۔ ہم لوگوں کا برائے نام ساتھ بہت ہی مختصر تھا، مگر اس مختصر سے تعلق نے میری زندگی کو صحیح سمت دے دی اور میرے دل کو گداز سے آشنا کیا۔

بہت ہی کم محبتیں ایسی بخت آور ہوتی ہیں جو مجازی کو حقیقی کی طرف موڑ دیں۔ میں ابھی بھی حقیقی کے راستے کا مجاہد تو نہیں پر گرتا پڑتا، گھسیٹتا ہوا چلنے کی کوشش ضرور کر رہا ہوں۔ وہ ہی مالک حقیقی مطلوب و مقصود ہے مگر ابھی اذان باریابی بہت بہت دور ہے۔ میں ابھی بہت خام ہوں گو دل میں لگن کی بھٹی جل چکی ہے۔ آگے میرا نصیب، ابھی تو نہ میں کوئلہ ہوں اور نہ ہی راکھ۔

بس اذان باریابی کا منتظر۔

Check Also

Danda Peer Aye Shuf Shuf

By Zafar Iqbal Wattoo