Koyla Bhai Na Rakh (1)
کوئلہ بھئی نہ راکھ (1)
زندگی کی حیران کرنے کی عادت نہیں جاتی۔ زندگی نہ ہوئی عمرو عیار کی زنبیل ہو گئ، ہر موڑ پر نیا انکشاف، ہر چوراہے پر تحیر۔ بات الجھ گئ نا؟ بات ایسی خاص بھی نہیں، بس ذرا عمر رفتہ کو پلٹ کر دیکھا تھا۔ اس دھول سے کیا کیا پھول لمحے برآمد ہوئے تھے۔ ایک چہکتی لہکتی زندگی تھی، کچھ نارسائی کے قصے بھی تھے۔ اس کو جاننے کے لیے میرے ساتھ پیچھے جانا ہو گا، بہت پیچھے۔
یہ شہر دل افروز یعنی کراچی کی کہانی ہے۔ پاکستان کواٹر کے ایک متوسط گھرانے کی، جہاں اکبر صدیقی اپنے کثیر العیال خاندان کے ساتھ فروکش تھے۔ چار بیٹے اور دو بیٹیاں۔ اکبر صدیقی انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں تھے اور اپنے بزرگوں کی اعلیٰ تربیت کے باعث رزق حلال پر یقین کامل رکھتے تھے۔ اپنے بچوں کو کھلاتے تو خیر سادہ سودا ہی تھے پر دیکھتے شیر کی نگاہ ہی سے تھے، خاص کر بیٹوں کو۔ بیٹوں کی مجال نہیں تھی کہ ان کی مرضی کے بغیر سانس بھی لے لیں، بیٹیوں کو البتہ نسبتاً چھوٹ تھی۔
صدیقی صاحب مانو جیک آف اللہ ٹریڈ تھے، سیاسی پارٹی کے رکن، محلے کی مسجد کمیٹی کے با رسوخ ممبر اور ساتھ ہی ساتھ محلے کی بہبود کمیٹی کے صدر بھی۔ ستر کی دہائی تھی اور سقوط مشرقی پاکستان کا زخم تازہ تھا۔ لوگوں کی آنکھوں کی شرم سلامت تھی کہ محلے کی لڑکیاں سانجھی بیٹیاں سمجھی جاتی تھیں اور محلے دار کی خوشی، غمی کے سب شریک کار بھی تھے۔ وقت گزرتا گیا، بھٹو کی حکومت لبرٹی اور سوشلزم کا نعرہ لگا کر پرانی اقدار کو مسمار کرتی گئ۔ nationalization کے نام پر لوٹ کا بازار گرم تھا۔ کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے، اور ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے۔
صدیقی صاحب کی ریٹائرمنٹ میں بھی صرف دو سال رہ گئے تھے اور رشوت نہ لینے کی وجہ سے ڈپارٹمنٹ میں صدیقی صاحب نا پسندیدہ بھی تھے لہٰذا ایکسٹینشن کا تو کوئی سوال ہی نہیں بنتا تھا۔ تین سال پیشتر بڑا بیٹا میکینکل انجینئرنگ سے فارغ ہو کر برسرِ روز گار ہوا تھا، چونکہ آدمی ہر دل عزیز تھے سو کہ سن کر بیٹے کو دمام روانہ کیا اور دمام روانگی سے قبل سادگی سے اپنی بھانجی سے بیاہ بھی دیا۔ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی سنگت میں راضی خوشی تھے۔
بڑی بیٹی کی شادی خیر و عافیت سے دو سال پہلے اپنے بھتیجے سے کر چکے تھے اور پوری کوشش تھی کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے دوسری بیٹی کا بھی گھر بسا دیں۔ چونکہ سب کے دکھ درد میں کھڑے ہو جاتے تھے اس لیے ساکھ بہت اچھی تھی اور محلے والے اور ملنے جلنے والے دل سے ان کے قدر دان تھے۔ بڑا بیٹا یعنی شفیع دمام میں اچھی طرح سے سیٹ تھا، امریکن کمپنی تھی اس لیے تنخواہ اور دیگر مراعات سب کی سب نہایت معقول بھی۔
سمیع نے جناح میں نوکری شروع کی تھی، تقی ایم کام فائنل سے تازہ تازہ فارغ ہوا تھا اور رہا میں یعنی ذکی نے ایم ایس سی پریویس میں قدم رکھا تھا اور آنکھیں یونیورسٹی کی چمک دمک سے چندھیا گئی تھیں، مانو جذبات کی رنگین عینک لگ گئی تھی۔ ایک شام ابا عصر کی نماز پڑھ کر فوراََ گھر آ گئے۔ ابا عموماََ مغرب پڑھ کر لوٹا کرتے تھے۔ عصر کی نماز کے بعد ابا کا سوشلائیزنگ کا وقت ہوتا تھا۔ اس دن سمیع ہسپتال سے آف تھا۔
ابا نے امی اور سمیع کو آواز دی اور بیٹھک میں ایمرجنسی میٹنگ ہونے لگی۔ ایک گھنٹے بعد تینوں کمرے سے برآمد ہوئے اور ابا جان نے مجھے روپئے تھماتے ہوئے کہا کہ جلدی سے چھوہارے اور نقل لے آؤں اور تقی کو بڑی آپا کی طرف ڈوڑایا کے ان کو اور بہنوئی کو لے کر آؤ، کہنا سمیع کا نکاح ہے فوراََ چلیں۔
یا اللہ!
کس سے اور کیوں؟
مگر ان سوالوں کے پوچھنے کی ہمت کس میں تھی۔ میں نے ایک نظر سمیع کو دیکھا، اس کے چہرے پر ایک چمک اور جھپی ہوئی مسکراہٹ تھی۔ دل کو اطمنان ہوا کہ معاملہ ذبردستی کا نہیں۔ گھر میں ایک دم سے ایمرجنسی نافذ ہو گئی تھی۔ امی چھوٹی بہن نرگس کے جہیز کے ٹرنک سے کچھ جوڑے نکال رہیں تھیں، اس سے پہلے کہ ابا کی نظریں مجھ پر پڑتیں میں ہول سیل کی دوکان کی طرف ایمپریس مارکیٹ بھاگا۔ آج سمیع کی شادی کی افراتفری کا سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے۔ اس زمانے میں بھلا موبائل ہوتا تو تورنت ساری رام کہانی پتہ چل چکی ہوتی۔
اب تو جب نقل اور چھوہارے لے کر گھر پہنچوں گا تبھی بلی تھیلے سے باہر آئے گی۔ مغرب کے بعد گھر پہنچا، بڑی آپا اسی وقت حق دق پہنچی تھی اور چونکہ ابا گھر پر نہیں تھے، اس لیے ابا کے سرپرائز دینے کی عادت پر زور و شور سے تبصرہ جاری تھا۔ ویسے ماشاء اللہ بڑی آپا اس شارٹ نوٹس پر بھی نک سک سے تیار تھیں بلکہ دولھا سمیت سارا گھر ہی تیار تھا صرف میں اور تقی بد حال تھے۔ اللہ بھلا کرے نرگس کا اس نے ہم دونوں کے کپڑے استری کر کے تیار کر دیے تھے اور عشاء کی نماز کے بعد سمیع کا نکاح تھا۔
کس سے؟
اچھا سوال ہے؟
تو جناب جواب یہ ہے کہ ہمارے محلے دار قیوم چچا کی بیٹی ناجیہ سے۔ قیوم چچا سقوط مشرقی پاکستان کے بعد سنہ تہتر میں وہاں سے لٹ پٹ کر آئے تھے۔ وہاں ان کا شاندار بزنس تھا۔ وہاں سے عزت اور جان بچا کر براستہ ہندوستان اور نیپال سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچے اور ہماری ہی گلی کے چوتھے مکان میں جو کہ مبارک چچا کا تھا، ان کے اوپر کے ادھورے حصے میں قیوم چچا اپنی بیگم اور تین بیٹیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ابا اور قیوم چچا کی بہت اچھی دوستی تھی۔
قیوم چچا خاصے علیل تھے، سو یہ ایمرجنسی نکاح غالباََ ان کی تالیف قلب کے لیے تھا۔ خیر ناجیہ لاکھوں میں ایک تھی۔ پچھلے سال ہی بی ایس سی کیا تھا۔ اس میں صرف ایک عیب تھا اور وہ تھی غربت اور فی زمانہ یہ بہت بڑا عیب تھا۔ خاص کر جب سے متوسط طبقے کو ریال و درہم کی ہوا لگی تھی لڑکوں کی ماؤں کا دماغ عرش معلیٰ پر تھا۔ اپنے ٹیڑھے بیٹے کے لیے بھی ان کو حور و شمائل درکار تھی۔ اب مجھے سمیع کی مسکراہٹ کی وجہ بخوبی سمجھ آ رہی تھی۔
ابا نے مجھے پھر پیسا پکڑایا کہ پانچ کلو کی بکرے کی بریانی اور تین کلو فرنی کا انتظام کروں۔ پھر یہ بریانی اور میٹھا سیراتی، براتی اور گواہان اور وکیل نے مل کر دولہن کے گھر کھایا اور بارہ بجے سے قبل ہنسی خوشی دلہن کو رخصت کرا کر گھر آ گئے۔ سمیع اور شفیع کا کمرہ مشترکہ تھا اور اب شفیع کے دمام میں ہونے کی وجہ سے سمیع بلا شرکت غیرے قابض تھا۔ نرگس نے پڑوسن نصرت کو بلا کر کمرہ بھی ٹھیک ٹھاک کر دیا۔
ولیمہ کا اعلان ابا نے مسجد میں ہی کر دیا تھا۔ وہ آج سے ٹھیک پندرہ دن بعد تھا کیوں کہ انہیں دنوں شفیع اور ثمرہ بھابھی نے آنا تھا تو جناب یہ تھی سمیع میاں کی شادی خانہ آبادی کی تفصیل اور مزے کی بات۔ اگلے ہی دن سمیع غریب کی بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی تھی، اس کو بھگتے بغیر چھٹی ملنی ممکن ہی نہیں تھی۔ ہم لوگوں کے خاندان میں ناجیہ کا اضافہ نہایت خوشگوار تھا اور ناجیہ کی شادی کی خوشی میں قیوم چچا بھی صحت یاب ہو گئے تھے۔
ایک تو ابا کو ہر کام جھٹ پٹ کرنے کا بھی عارضہ تھا۔ شفیع کی شادی کی مبارکی کے سلسلے میں آئی چھوٹی خالہ نے نرگس کا ہاتھ مانگ لیا اور ساتھ ہی جلدی کا بھی تقاضا کر دیا کہ فیصل کا امریکہ کا ویزا لگ گیا تھا۔ ابا میاں بھی سمیع کا ولیمہ اور نرگس کی رخصتی پر تیار ہو گئے۔ امی نے شور بھی مچایا کہ دس بارہ دن میں شادی کیسے ہو سکتی ہے مگر چھوٹی خالہ نے امی کو منا ہی لیا۔ نرگس غریب دہائی ہی دیتی رہ گئی کہ فائنل کے پیپر تو دے لوں، دو سال کی محنت ہے۔
طے یہی پایا کہ رخصتی تو ہو گی مگر اس کے ویزے بننے کے مرحلے کے دوران وہ اپنے فائنل ائیر کے پیپروں سے بھی نپٹ لے گی۔ گھر میں ایک دم سے گہما گہمی بڑھ گئی تھی۔ بڑی آپا بلال سمیت میکے پدھاری اور میری اور تقی کی صحیح کی شامت آ گئ۔ ہم دونوں ڈرایور ہی بن کر رہ گئے معزز خواتین کے۔ اس شادی اور ولیمے کے چکر میں میری یونیورسٹی سے بھی ایک ہفتے کی چھٹی ہو گئی جو کہ دل کو نہایت شاق تھی، ابھی تو ڈپارٹمنٹ سے صحیح طریقے سے روشناس بھی نہیں ہوئے تھے، ساتھیوں سے تعارف بھی نہیں ہوا تھا۔