Hayat e Be Sabat (2)
حیات بے ثبات (2)

پچیس دسمبر 1984 میری زندگی کا محبوب ترین دن۔ شادی کا پہلا سال کب گزرا پتہ ہی نہیں چلا۔ جب تبریز نے ہیپی اینورسری (happy anniversary) کہا تو بڑی ناقابلِ یقین سی بات لگی۔ گویا 365 دن گزر گئے، نہ کوئی شکوہ نہ شکایت، نہ ہی لڑائی جھگڑا اور سسرال سے بھی کوئی چپقلش نہیں۔ تبریز کی چھوٹی بہن یاسمین کا رویہ تھوڑا نارواں ضرور رہتا تھا پر جب تبریز نے وجہ بتائی تو اس غریب پر بھی ترس آیا۔ یاسمین کی شادی اپنے سکینڈ کزن سے ہوئی ہے۔ اس کی شادی کے بعد یاسمین کے سسرال والوں نے یاسمین کی نند کی شادی تبریز سے کرنی چاہی مگر تبریز اور ان کے گھر والے ادلے بدلے کی شادی پر راضی نہیں تھے لہذا اس بات کو لے کر اکثر و بیشتر یاسمین غریب کو طنز کے تیر سہنے پڑتے تھے سو وہ بیچاری اپنی تھوڑی سی بھڑاس مجھ پر نکال لیتی تھی۔ کوئی بات نہیں گلاب کے ساتھ کانٹے ہوتے ہی ہیں، تبریز کے لئے تو سب کچھ گوارہ تھا۔ وہ اتنا بھلا مانس ہے کہ جانے یاسمین کو کیسے ہینڈل کرتا کہ یاسمین واپس جانے سے پہلے گلے لگ کر مجھ سے معافی بھی مانگ لیتی تھی۔ میں خود حیران تھی کہ سارے رشتوں کو یہ شخص کس قدر نرم روی سے ساتھ لیکر چلتا ہے۔ ہر شخص اسی گمان میں مبتلا کہ تبریز تو بس اسی کا عاشق ہے۔ میں اکثر کہتی کہ مجھے بھی یہ جادو گری سکھا دو۔ ہنس کر کہتا، "دریا بن جاؤ اور سب کچھ اپنے اندر سمو لو۔ لوگوں کی باتیں، ان کے راز، ان کے دکھ اور بدلے میں انہیں امرت دھارا دے دو"۔
مگر تبریز دریا کا انت تو سمندر ہے؟
ہاں ہر فنا کا انجام بقا ہی تو ہے۔ یہ زندگی ختم ہوگی تو ابدی زندگی ملے گی ناں!
اللہ! پلیز موت کی باتیں مت کرو۔
میں موت کی کہاں حیاتِ جاویدانی کی بات کر رہا ہوں پگلی! تبریز کی سب سے بڑی خوبی یہ کہ وہ انسان کی بحثیت انسان تعظیم کرتا۔ میں نے یونیورسیٹی میں بھی نوٹ کیا تھا کہ کنٹین کا لڑکا جو برگر اور چاٹ وغیرہ لایا کرتا تھا تبریز اس کی جیب میں ضرور کچھ نہ کچھ ڈالتا یا پھر ایکسٹرا برگر منگواتا اور اس لڑکے کو کھانے کہتا۔ تبریز کی زبان کی مٹھاس، اس کی ذہانت اور انسان دوست رویہ ہی تو تھا جس نے مجھے اس کا اسیر کیا تھا۔ خلوص اور محبت کی گرمی و نرمی دل کو تحفظ کا کتنا بھرپور احساس دیتی ہے۔ اس کی تاثیر ہی الگ۔
ان دنوں شہر کے حالات بہت خراب تھے۔ بشریٰ زیدی کے ایکسیڈنٹ کے بعد سے گویا شہر میں آگ لگ گئی تھی۔ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے تھے۔ لگتا تھا کسی سامری نے عذابوں کا دہن کھول دیا ہے۔ میرا روشنیوں کا شہر، میرا غریب پرور شہر دلبراں کراچی، آنسوؤں کے سمندر میں غرق ہو رہا تھا۔ لوگ کرکٹ میچ کے اسکور کی طرح مرنے والوں کا اسکور پوچھا کرتے تھے۔ کراچی کی خوبصورت شام نے دکھوں کی ردا اوڑھ لی تھی۔ زندگی گھر کی چاردیواری کے باہر سہم گئی تھی، کسی کی واپسی میں پانچ منٹ کی بھی تاخیر ہو جاتی تو دل دہل جاتا تھا۔ زندگی کے معاملات بدستور چل رہے تھے مگر لوگوں کے تعلقات میں فرق آ گیا تھا۔ مہاجر اور لوکل کی دراڑ گہری ہوگئی تھی اور محلے بٹ گئے تھے۔ یہ میرے بچپن کا کراچی نہیں تھا، یہ تو کوئی انجان اور آسیب زدہ شہر تھا جو پہچان ہی میں نہ آتا تھا۔
تبریز کی ترقی کے بعد ان پر کام کا دباؤ بہت بڑھ گیا تھا۔ ڈیڈی اور ممی کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی اور ان دونوں کی طبیعت کی خرابی کا سبب تو خاصی حد تک یاسمین کے گھریلو حالات تھے۔ اللہ اپنی مصلحت بہتر جانتا ہے مگر یاسمین ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم تھی۔ یہی بات اب وجہ تنازعہ بنی ہوئی تھی۔ ظاہر ہے ان باتوں کا اثر ڈیڈی اور ممی کی صحت پر براہ راست پڑتا تھا۔ جب میری بیٹی منیرہ ہماری حیات میں شامل ہوئی تو زندگی بڑی بھر پور اور مکمل سی لگی مگر اطراف میں بہت انتشار تھا۔ اسی سال کے آخر میں ذکی بھیا امی اور پاپا کو اپنے ساتھ امریکہ لے گئے۔ پاپا کو دو سال ہوئے تھے ریٹائرڈ ہوئے اور بھیا نے ان کی امیگریشن اپلائی کی ہوئی تھی۔ بھیا آئے اور ان دونوں کو لیکر چلے گئے۔ پاپا نے گھر نہیں بیچا تھا بلکہ اس کی چابی میرے حوالے کر گئے تھے۔ پاپا کا کہنا تھا کہ جب تک ان دونوں میں سے کوئی بھی حیات ہے گھر نہیں بکے گا۔ بھیا اپنے حصے سے دست بردار ہو گئے تھے اور اپنا حصہ ہم دونوں بہنوں کے حوالے کر دیا تھا۔
ان دونوں کے جانے سے میری زندگی میں ایک خلا سا آ گیا۔ شمس اور منیرہ مجھے اپنے میں الجھائے رکھتے پھر سب سے بڑا کام ممی اور ڈیڈی کا ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ، جو اب بہت جلدی جلدی ہونے لگا تھا کہ ان دونوں کی صحت بہت تیزی سے گر رہی تھی۔
آج بہت مصروفیت بھرا دن تھا۔ شمس کے اسکول میں پیرنٹ ٹیچر میٹنگ تھی اور ممی کا آغا خان میں اپائنٹمنٹ بھی۔ میں ابھی شمس اور منیرہ کو لیکر کار میں بیٹھ ہی رہی تھی کہ گیٹ کے باہر ٹائر چرچرانے نے آواز آئی اور کسی نے گھنٹی پہ جو ہاتھ رکھا تو گویا ہاتھ ہٹانا ہی بھول گیا۔ میں تو وہیں منجمد ہوگئی۔ اندر سے سلیم بھاگتا ہوا آیا اور چیخ کر بولا بھابھی بچوں کو لیکر اندر جائیں۔ اتنے میں مجھے یاسمین کی آواز سنائی دی، بھابھی بھابھی دروازہ کھولیں۔ میں نے لپک کر دروازہ کھولا اور یاسمین برے حالوں میں میرے بازوں میں جھول گئی۔ اسلم نے لپک کر دروازہ بند کیا اور بچوں کو لیکر اندر آیا۔ میں نے اسلم کو بچوں کا خیال رکھنے کہا اور تاکید کی کہ بڑے صاحب اور بڑی بی بی کو کچھ خبر نہ ہو۔ رانی سے کہنا کہ ادھے گھنٹے بعد چائے اور کھانے کو کچھ دے جائے۔
میں کمرے میں آئی تو یاسمین باتھ روم سے نکلی پھر اس نے اپنے پرس سے مجھے لفافہ نکال کر دیا۔ یہ آغا خان لیب کی ٹسٹ رپورٹ تھی۔ یہ اس کی فرٹیلیٹی رپورٹ تھی جس میں لکھا تھا کہ اس میں ماں بنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ مجھے اس کی اذیت کا اندازہ تھا۔ وہ بلکل ویران ہو رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں خوف اور وحشت تھی۔ میرے بالکل سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں اسے کن الفاظ میں تسلی دوں۔ وہ حرفِ تسلی کہاں سے لاؤں جو اس کے ٹپکتے دل کو تسلی دے سکے۔ میرے پاس دست عیسٰی بھی تو نہیں تھا۔ بس میں نے اسے گلے لگا لیا اور وہ تڑپ ٹرپ کر روتی رہی۔ وہ آنسو نہیں تھے وہ اس کی خوشیاں، ارمان اور خواب تھے۔ میرے سر پر ممی اور ڈیڈی کی وحشت بھی سوار تھی کہ ان پر تو اس گمانِ بد سے ہی سراسیمگی سوار تھی اور اب اس حقیقت سے آشنا ہو کر ان کا کیا حال ہوگا؟
ان دونوں کا کمزور دل اس جھٹکے کو سہار بھی سکے گا بھی کہ نہیں؟ یہ کیسی آزمائش کی گھڑی آ گئی ہے میرے مالک؟ یاسمین کے سسرال والوں کا رویہ اس کے ساتھ بہت خراب تھا اور آخر انہونی ہو کر رہی۔ مجیب بھائی اولاد کے لئے دوسری شادی کرنا چاہتے تھے اور یاسمین اس کے لئے تیار نہیں تھی۔ ایک دن زبردست لڑائی کے بعد یاسمین واپس میکے آ گئی مگر اس واپسی کی ہم سب کو بہت مہنگی قمیت چکانی پڑی۔ پہلے ممی پھر دو مہینے کے بعد ڈیڈی۔ دونوں آگے پیچھے چلے گئے۔ وہ دنیا میں بھی ساتھ ساتھ تھے اور آخرت بھی ایک دوسرے کے ساتھ بسانے چلے گئے۔ میرا تو گھر ہی ویران ہوگیا۔ ان دونوں میں مثالی پیار تھا۔ آپس میں شدید محبت اور ایک دوسرے کا مان اور لحاظ۔
ان تمام حادثات سے متاثر ہو کر تبریز گہرے ڈپریشن میں چلے گئے اور میں تو پریشان ہوگئی۔ تبریز کو دیکھوں، بچوں کا خیال رکھوں، یاسمین کی دل داری کروں یا ممی ڈیڈی کا غم مناؤں۔
مجیب بھائی دو بار یاسمین کو لینے آئے مگر وہ نہیں مانی۔ میں نے بہت سمجھایا کہ اپنا گھر برباد مت کرو، تنہا زندگی بہت لمبی اور کٹھن ہوتی ہے۔ مجیب بھائی کی دوسری شادی کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لو مگر اس کی نہ ہاں میں نہ بدلی۔ تبریز نے ایک لفظ نہیں کہا بلکہ اب تو وہ کچھ بولتے ہی نہیں تھے۔ گھر میں اگر منیرہ اور شمس نہ ہوتے تو گھر قبرستان لگتا۔ تبریز بلکل بدل گئے ہیں، بس بینک تھا اور پھر انکا بیڈ روم۔ نہ کہیں آنا نہ جانا میں اگر ضد بھی کروں تو جھڑک دیتے ہیں۔
موسم بدل رہا تھا سو آج میرا ارادہ تھا کہ کھانے کے بعد بازار کا ایک چکر لگا لوں۔ رانی ابھی ٹبل سیٹ ہی کر رہی تھی کہ تبریز کی گاڑی پورچ میں رکی۔ الہی خیر! میں انکے پیچھے کمرے آئی تو دیکھا کہ بستر پر اوندھے پڑے ہیں۔ کیا ہوا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟ یہ کہتے ہوئے میں نے جو پیشانی پر ہاتھ رکھا تو گھبرا کر اپنا ہاتھ ہی جھٹک دیا، وہ تو تپ رہے تھے۔ میں نے تبریز کو آوازیں دیں مگر تبریز پر غشی طاری تھی۔
اسلم اسلم! ایمبولنس کال کرو۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں نے تبریز کو فوراََ ایڈمٹ کر لیا۔ ان کو ICU میں شفٹ کیا تو میں تو وہی کوریڈور میں دل پکڑ کر بیٹھ گئی۔ یاسمین بھی اہسپتال پہنچ چکی تھی۔ میرے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ڈاکٹر کہ کیا رہا ہے؟
یاسمین نے مجھے بتایا کہ بھابھی، بھیا کا بی پی خطرناک حد تک بڑھا ہوا ہے اور ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ ان کے گردے صحیح طور پر کام نہیں کر رہے ہیں۔
کیا بکواس ہے! ڈاکٹروں کا دماغ خراب ہوگیا ہے کیا؟
ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔ انہیں کبھی گردے میں درد نہیں ہوا۔
He was perfectly fine, this is totally impossible
ہاں بھابھی بلکل، آپ پریشان نہ ہوں ہم لوگ مزید ڈاکٹروں سے بھی مشورہ کریں گے۔ آپ فکر مند نہ ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ۔
میں نے پاپا کو فون کیا اور صرف اتنا کہا
پاپا! مجھے آپ کی ضرورت ہے۔
تیسرے ہی دن امی، پاپا اور بھیا میرے پاس تھے۔ امی کے آ جانے سے مجھے بچوں کی طرف سے بےفکری ہوگئی۔ میں مستقل تبریز کے پاس رہتی۔ بھیا نے پتہ نہیں کتنے ڈاکٹر بدلے مگر سب کا یہی کہنا تھا کہ دونوں گردے بےکار ہو چکے ہیں اور ٹرانس پلانٹ ہی آخری چارہ ہے۔ اب ڈاکٹروں نے تبریز کو ڈائیلیسس پر ڈال دیا۔ پورا ایک سال اسی پریشانی میں گزرا۔ میرا گردہ میچ نہیں کیا اور تبریز باہر سے گردے خریدنے پر تیار نہ تھے۔ ہسپتال میں موجود کڈنی تبریز کے گردے سے میچ نہیں ہوتی تھی۔ پریشانی سی پریشانی تھی۔
اس تمام عرصے میں صرف ایک بات بہت اچھی ہوئی اور وہ یہ کی مجیب بھائی کے گھر ان کی دوسری بیوی سے بیٹی کی ولادت ہوئی اور مجیب بھائی اور ان کی بیگم نے وہ بچی یاسمین کی گود میں ڈال دی۔ اللہ تعالی نے بھی یاسمین کا دل نرم کر دیا اور وہ واپس اپنے گھر چلی گئی۔ اس بات کا تبریز کی صحت پر بہت مثبت اثر ہوا۔ اس کی طبیعت بہت سنبھل گئی۔
امی پاپا واپس امریکہ پندرہ دن کے لیے گئے اور پھر واپس آ گئے۔ اس عمر میں ان کی میرے لئے یہ خواری میرا بڑا دل دکھاتی تھی۔ میں کیا کرتی میری طاقت، میرا سرمایہ حیات تو خود موت اور زندگی کی کشمکش میں تھا۔ ایک تو میں تبریز کی اس ضد سے پریشان تھی کہ ڈونر سے کڈنی نہیں خریدنا یہ حرام ہے۔ میں بھی جانتی ہوں کہ یہ حرام ہے مگر کیا کروں پاکستان میں کوئی تصور ہی نہیں ہے اعضا کے ہدیے کا؟ مرنے والا اپنی خوشی سے اپنے مرنے کے بعد اپنے اعضا فی سبیل اللہ دے دے تو وہ جائز بلکہ بہت ہی مستحسن مگر بدقسمتی سے یہاں کوئی ایسا کرتا نہیں۔ اس طرف کوئی توجہ بھی نہیں دلاتا حالانکہ اسلام میں اس کی اجازت ہے۔ ہاں آپ جیتے جی اپنا اعضا نہیں دے سکتے، پر آپ جگر کا کچھ حصہ ضرور دے سکتے ہیں کہ جگر دوبارہ بڑھ جاتا ہے۔ آپ اپنی حیات میں کوئی ایسا اعضا نہیں دے سکتے جس کے دینے سے دینے والے کی جان کو خطرہ ہو۔ موت کے بعد بےشک اپنی آنکھیں اور دیگر تمام اعضا ہدیہ کر سکتے ہیں مگر ان کے بدلے کسی بھی قسم کا مالی فائدہ نہیں اٹھا سکتے کہ یہ عمل مکمل طور پر فی سبیل اللہ ہونا چاہیے۔
گزرتا وقت تیزی سے حیات اور موت کا فاصلہ کم کر رہا تھا۔
ایک دن میں بہت روئی، بہت گڑگڑائی اور اللہ کا واسطہ دیا کہ پلیز ڈونر کا انتظام کرنے دو۔ بہت دیر تک اداسی سے مجھے دیکھتے رہے پھر کہنے لگے تمہاری مرضی مگر میری روح یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکے گی۔ تبریز نے کہا کہ ڈونر ڈھونڈ نے سے پہلے میری وصیت بھی سن لو کہ میرے بعد تم میرے تمام اعضا اور آنکھیں ہدیہ کر دو گی۔
تبریز تبریز پلیز!
سارا انتظام ہوگیا، تبریز، میں اور پاپا اسلام آباد چلے گئے۔ مقررہ وقت پر آپریشن بھی ہوگیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ چھ ہفتے سخت ہیں۔ ابھی تک بظاہر سب ٹھیک ہے لیکن یہ دو سے چار ہفتوں کے درمیان پتہ چلے گا کہ جسم نے کڈنی کو قبول کیا ہے یا ان گردوں کو فارن پارٹیکل سمجھ کر مسترد کر دیا ہے۔
میں نے تبریز کو جوس دیا تو کہنے لگے کہ ابھی تو میں زندہ ہوں پھر تم اتنی اجڑی اور ویران کیوں ہو رہی ہو۔ میں نے کہا کہ تم جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ پھر میں چوتھی کی دلہن بن جاؤ گی۔ تبریز نے کہا کہ تمہیں یاد ہے عطی! منیرہ کی پیدائش کے بعد تمہاری مصروفیت بہت بڑھ گئی تھی تو میں نے تمہاری عدم توجہی کی شکایت کی تھی جس پر تم نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ بےفکر رہو تبریز جوانی تو بچوں کو پالنے پوسنے میں چٹکی میں گزر جائے گی۔ مجھے تمہارے ساتھ لمبا اور بہت رومنٹک بڑھاپا گذارنا ہے۔ میں کتنا ہنسا تھا کہ خبطی کوئی بڑھاپا بھی پلین (plan) کرتا ہے اور وہ بھی رومنٹک بڑھاپا!
پھر تبریز نے بڑے جذب سے پڑھا۔
وقت کے راستے سے ہم تم کو ایک ہی ساتھ تو گزرنا تھا
ہم تو جی بھی نہیں سکے ایک ساتھ، ہم کو تو ایک ساتھ مرنا تھا
میرا دل لرز گیا۔
میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ میں اچھے حالوں میں رہوں اور میں تمہی بلکل فریش نظر آؤں۔ تم کس قدر کمزور ہو گئے ہو، تمہی دیکھ کر دل کانپ جاتا ہے۔ رات میں تمہارے بستر کے ساتھ کرسی لگا کر بیٹھی تھی۔ تمہارا ہاتھ ہاتھوں میں لیکر مستقبل کی باتیں کرتی رہی اور پتہ ہی نہیں چلا کہ کب آنکھ لگ گئی۔
میری آنکھیں نرس کی آواز پر کھلی، تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا مگر ڈاکٹر تمہاری آنکھیں کیوں بند کر ریا ہے؟ تمہارا ہاتھ تو گرم ہے
نہیں ایسا نہیں ہو سکتا!
تبریز ابھی تو بہت سارے خوابوں کو حقیقت ہونا ہے۔
پلیز اللہ میاں، پلیز!
میرے بچے بہت چھوٹے ہیں، وہ اپنے بابا کے کے بغیر جینا نہیں جانتے۔ وہ تو گھر پر اپنے بابا کے منتظر ہیں۔ میں نے تو ان سے ان کے بابا کی جلد واپسی کا وعدہ کیا ہے۔ میں انہیں کیا جواب دوں گی؟
انہیں کیسے سمجھاؤں گی؟
میری تو دنیا ہی اندھیری ہوگئی تھی۔
مسز تبریز اس فارم پر دست خط کر دیجیے۔
تبریز صاحب نے اپنی آنکھیں اور وائٹل اورگن ڈونیٹ کرنے کی وصیت کی تھی۔ یہ کام جلدی ہونا ہے۔
سب کچھ ختم ہوگیا۔ مجھے اپنا غم نہیں تھا۔ اس مختصر حیات میں تبریز نے مجھے جتنا پیار دیا تھا وہ پیار میری بقیہ زندگی کے لیے زاد راہ ہے۔ میری روح سرشار ہے، بس بچوں کو دیکھ کر دل دکھتا ہے کہ ان کی زندگیوں میں نارسائی کا لمبا سفر ہے۔ اس دنیا میں اللہ کے بعد میرا سب سے بڑا سہارا میرے بچے اور امی پاپا ہیں۔ اس دکھ نے انہیں بھی توڑ کر رکھ دیا ہے۔
عدت کے بعد میں نے جو پہلا کام کیا تھا وہ اپنے مردہ تن کو ہدیہ کرنے کا کیا۔ سوائے ہڈی اور کھال، میں نے اپنا پورا جسم ضرورت مندوں کے لئے عطیہ کر دیا۔
اتنی قمیتی چیزیں جن سے کسی کی زندگی بچ سکتی ہو۔ کسی کی زندگی بہتر ہو سکتی ہو اسے کیڑوں کا رزق کیا بنانا؟
اللہ تعالی تو دینا پسند کرتا۔ بھلا اِس سے افضل صدقہ اور کیا ہوگا!
اللہ ہم سب کو دینے والا بنائے۔
آمین ثم آمین
دن تو بچوں کے لئے بہادر بن کر گزر جاتا ہے کہ اب مجھے ہی تبریز کے سارے خواب پورے کرنے ہیں مگر رات تاروں کو دیکھتے ہی کٹتی ہے۔ یہی سوچتے ہوئے کہ یہ ستارے زیادہ روشن ہیں یا تبریز کی آنکھیں زیادہ خیرہ تھیں۔ زندگی تو گزر ہی جاتی ہے بس وچھوڑے کی ٹوٹی انی کلیجے میں پیوست رہتی ہے اور سانس سانس آزار ہوتا ہے۔ اب تو یادوں کے نگر ہی میں ہستی بسانی ہے۔ یادوں کی نگری کی کتنی آباد پر شاد نہیں!