Do Neem Mulk e Khudadad
دو نیم ملکِ خداداد

مارچ کا مہینہ نمو اور انبساط کا مہینہ کہ ہوائیں گاتی، گدگداتی محسوس ہوتی ہیں۔ نئی نولی نوخیر کلیاں، رنگ رنگ کے پات اور پھولوں سے مہکتا چہکتا چمن۔
اُس سال بھی موسم بہار اپنے جوبن پر تھا۔ کرشنا چوڑا کے دہکتے سرخ پھولوں نے تو اپنا رنگ بکھرایا تھا مگر حقیقتاً وہ موسمِ بہار خون سے تر بتر تھا اور فضا میں خون کی بساند دم گھونٹے دیتی تھی۔ بنگال میں 1971 کے مارچ میں بھی بہار آئی تھی مگر انسانوں کی بربریت اور سفاکی دیکھ کر دم بخود رہ گئی۔ حیاتِ نو کا مہینہ لاکھوں زندگیوں کو گل کر گیا۔ جانے پھر بنگال میں دوبارا بہار آئی یا نہیں مگر میرے لیے پھر بہار گم گشتہ ہی رہی۔
مشرقی پاکستان میں سیاسی حالات کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہے تھے مگر 1969 سے حالات نا گفتہ بہ مگر ٹھہریے ابھی ڈھاکہ نہیں چلتے ہیں بلکہ کیوں نہ پہلے تھوڑا سا بنگال کو کھوج لیں، اس کا مزاج جانچ لیں۔
گنگا اور برہمن پترا کے کناروں پر آباد بنگال کی چار ہزار سالہ پرانی ثقافتی تہذیب ہے۔ بارہویں صدی میں مسلمان بنگال میں قدم رنجہ ہوئے اور زرعی اصلاحات، نیا کیلنڈر اور صوفی ازم اور نئے شہروں، سنار گاؤں، ست گاؤں اور لکھنؤتی کا قیام عمل میں آیا۔ چودھویں اور پندرھویں صدی میں سفارتی، معاشی اور فوجی طاقت میں بنگال کی اپنی شناخت تھی اور اس کے تعلقات چین، مصر اور مشرقی افریقہ سے تھے۔
مغلوں نے سولہویں صدی میں بنگال پر قبضہ کیا۔ مغلوں کی سلطنت میں بنگال صوبہ امیر ترین صوبہ تھا۔ بنگال کی دولت اور تجارت سے مغل اس قدر متاثر ہوئے کہ اسے "اقوام کی جنت" کے خطاب سے نوازا۔ بنگال کے اشرافیہ خاصی حد تک خود مختار تھے۔
مغلوں کے دور میں بنگال کا مسلن اور سلک دنیا بھر میں جاتا تھا بلکہ مسلن (muslin) تو مرکزی ایشیا میں ڈاکا (Daka) ہی کہلاتا تھا۔ اس زمانے میں بنگال، مسلن (muslin)، سلک، کپاس، چاول، افیون، شورہ اور کشتی سازی میں چار دانگ شہرت رکھتا تھا۔
برٹش راج کے زمانے میں بنگال معاشی، تعلیمی اور ثقافتی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔
جنگ آزادی 1857کی شروعات بھی کلکتہ کے اطراف سے ہو کر ڈھاکہ، چٹاگانگ، سلہٹ، جلپائی گوری اور اگرتلہ تک کا علاقہ شمالی ہندوستان میں بغاوتوں کے ساتھ اظہار یکجہتی میں پیش پیش رہا۔
بنگال اتنا بڑا تھا کہ اس کا انتظام و انصرام سنبھالنا برٹش راج کے لیے کار دشوار سو 1905 میں وائسرائے جارج کرزن کی ایما پر بنگال کے دو نئے صوبے بنائے گئے۔ مغربی بنگال جس میں بہار اور اڑیسہ شامل تھے اور اس کا صدرِ مقام کلکتہ تھا اور مشرقی بنگال اور آسام جس کا دارالخلافہ ڈھاکہ تھا۔ مغربی بنگال نے اس تقسیم پر بہت احتجاج کیا جب کہ مشرقی بنگال میں اس مد میں قدرے خاموشی رہی۔ مغربی بنگال کے احتجاج پر بالآخر برٹش راج کو تقسیم کا یہ فیصلہ 1911 میں واپس لینا پڑا۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت برٹش راج کے ذہن میں متحدہ بنگال تھا اور قائد اعظم بھی اس خیال کے حامی تھے مگر گاندھی اور کانگریس نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔
20 جون 1947 بنگال کی قانون ساز اسمبلی میں تقسیم کے مدے پر ووٹنگ کی گئی اور 120 ووٹ اس حق میں تھے کہ متحدہ بنگال آزادی کے وقت پاکستان میں شامل ہوگا۔ پھر جب مغربی بنگال کی قانون ساز اسمبلی کی علیحدہ ووٹنگ ہوئی تو انہوں نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ اسی طرح جب مشرقی بنگال کی قانون ساز اسمبلی کی علیحدہ ووٹنگ ہوئی تو وہ متحدہ بنگال کے حق میں تھے مگر علیحدگی کی صورت میں پاکستان کے ساتھ ضم ہونے پر اتفاق کیا۔ سو برصغیر کی تقسیم پر مغربی بنگال ہندوستان کے ساتھ اور مشرقی بنگال پاکستان میں شامل کیا گیا۔
1947 میں تقسیم ہند کے بعد قیام پاکستان عمل میں آیا جو کثیر نسلی، لسانی دو جغرافیائی خطوں پر مشتمل تھا۔
اکیس مارچ 1948 میں قائد اعظم نے ڈھاکہ میں اردو کو بطور قومی زبان کے نافذ کیا۔ لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ زبان کے اس پہلو کے بارے میں جس سے عام آدمی کی زندگی متاثر ہو سکتی تھی، قائد اعظم نے خاص طور پر وضاحت کرتے ہوئے یہ فیصلہ مشرقی پاکستان کی حکومت پر چھوڑ دیا دیا تھا کہ وہ انتظامی معاملات چلانے، تعلیم اور عدالتوں کے لیے جس زبان کا چاہے انتخاب کرے۔ مغربی پاکستان میں حکومت پاکستان نے جب اردو کو بطور قومی زبان کے نافذ کیا تو کسی صوبے کو یہ اختیار نہیں دیا گیا تھا، جس سے سندھ کے عوام بری طرح متاثر ہوئے کیونکہ قیام پاکستان کے وقت ان کے انتظامی معاملات چلانے، تعلیم اور عدالتوں کی زبان سندھی تھی۔
اُردو کے نفاذ کے سبب مشرقی پاکستان میں شدید بد دلی و بے چینی پھیل گئی اور وہاں سیاست دانوں اور عوام نے اس کے خلاف سخت رد عمل ظاہر کیا۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء اور چند سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اس فیصلے کے خلاف اکیس فروری 1952 کو ایک احتجاج کیا۔ جب لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے بھی مشتعل ہجوم قابو میں نہ آیا تو پولیس نے مظاہرین طلبہ پر گولیاں چلائی جس میں کئی اموات ہوئی۔ ان ہلاکتوں نے گویا جلتی پر تیل کا کام کیا اور پورے مشرقی بازو کو ہڑتال اور جلاؤ گھیراؤ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بالآخر آئندہ چار سالوں کے دوران یہ معاملہ باہمی گفت و شنید کے ذریعے طے کر لیا گیا اور 26 فروری 1956 کو جب آئین ساز اسمبلی نے پاکستان کے پہلے آئین کا اعلان کیا تو اس میں بنگالی زبان کو قومی زبان کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا۔ اس لسانی تحریک نے مشرقی پاکستان میں لوگوں میں بنگالی قومی تشخص کو مزید بیدار کر دیا جس نے آگے چل کر بنگالی قوم پرستی کی شکل اختیار کرلی۔
ایوب خان، محمد علی بوگرہ کے دور میں وزیر دفاع تھے۔ اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958 کو مارشل لاء لگایا تو ایوب خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنائے گئے۔ پھر اسکندر مرزا اور ایوب خان کے اختلافات بڑھتے گئے یہاں تک کہ ایوب خان نے اسکندر مرزا کو معزول کرکے پہلے کوئٹہ پھر ملک بدر کر دیا اور چین سے کرسی صدارت سنبھال لی۔
جنرل ایوب خان نے 1956ء کا آئین معطل کر دیا اور جب انہوں نے 1962ء میں صدارتی آئین نافذ کرنے کا منصوبہ بنایا تو ان کے بنگالی وزیر قانون جسٹس ریٹائرڈ محمد ابراہیم نے جنرل ایوب خان کو روکنے کی کوشش کی۔ ان کی کتاب "ڈائریز آف جسٹس محمد ابراہیم" میں جنرل ایوب خان کے ساتھ ان کی سرکاری خط و کتابت شامل ہے، جس میں وزیر قانون نے صدر پاکستان کو متنبہ کیا تھا کہ صدارتی آئین پاکستان توڑ دے گا۔ پاکستان کے فوجی صدر نے اپنے بنگالی وزیر قانون کی وارننگ نظر انداز کر دی۔ اس صدارتی آئین کے خلاف مشرقی پاکستان کے گورنر جنرل اعظم خان نے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔
ایوب خان اپنی ضد پر قائم رہے اور انہوں نے ایک پنجابی جج، جسٹس ریٹائرڈ محمد منیر کو اپنا وزیر قانون بنا لیا۔ نئے وزیر قانون کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ کسی طرح بنگالیوں سے جان چھڑائیں۔ جسٹس محمد منیر نے اپنی کتاب "فرام جناح تو ضیاء" میں لکھا ہے کہ 1962ء میں وزیر قانون بنانے کے بعد جنرل ایوب خان نے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک بنگالی وزیر رمیض الدین کے پاس مجھے بھیجا اور میں نے انہیں کہا کہ آپ ہم سے علیحدگی اختیار کرلیں یا کنفڈریشن بنا لیں۔
رمیض الدین نے جواب میں کہا کہ ہم اکثریت میں ہیں، آپ اقلیت ہیں، اگر آپ علیحدہ ہونا چاہتے ہیں تو ہو جائیں لیکن اصل پاکستان تو ہم ہیں۔
یہ سوال و جواب اس بات کے شاہد کہ جنرل ایوب خان بنگالیوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے کیونکہ وہ صدارتی نظام کے خلاف تھے۔ یہی وہ سال تھا، جب تحریک پاکستان کے رہنما حسین شہید سہروردی کو غداری کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو ڈھاکا میں پاکستان کے خلاف نعرے لگ گئے۔
حسین شہید سہروردی کی نواسی بیرسٹر شاہدہ جمیل کہتی ہیں کہ ان کے نانا علاج کے لیے بیروت گئے، وہاں ان کی پراسرار حالات میں موت ہوگئی۔ ہم انہیں مغربی پاکستان میں دفن کرنا چاہتے تھے لیکن جنرل ایوب خان نے اجازت نہ دی لہٰذا ان کی تدفین ڈھاکا میں ہوئی۔
ایوب خان نے 1961 کا آئین جو کہ صدارتی طرز کا تھا پہلی دفعہ تحریری حالت میں انجام پایا۔ اس آئین کے نتیجے میں 1962 میں عام انتخابات ہوئے اور مارشل لاء اٹھا لیا گیا۔ انتخاب میں ایوب خان کی حریف تھیں محترمہ فاطمہ جناح۔
پاکستان کی تاریخ کے دوسرے صدارتی انتخابات 2 جنوری 1965 کو منعقد ہوئے۔ ایوب خان اس دور میں "کنونشن مسلم لیگ"کے حمایت یافتہ تھے جبکہ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت "متحدہ حزب اختلاف" نامی پانچ جماعتی اتحاد کر رہا تھا۔
محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف 1965ء کے صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن جو ان کے پولنگ ایجنٹ تھے سمیت مغربی پاکستان سے ولی خان، غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل اور سردار خیر بخش مری سے لے کر مولانا مودودی تک سب نے فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ ایوب خان نے فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دے کر دھونس اور دھاندلی سے انہیں ہرا دیا۔ مولانا بھاشانی عین وقت پر ایوب خان سے چالیس لاکھ روپے لے کر محترمہ فاطمہ جناح کو دغا دے گئے۔ فاطمہ جناح ڈھاکا اور چٹاگانگ سے تو جیت گئیں لیکن مغربی پاکستان میں کراچی سے اکثریت حاصل کرنے کے باوجود بھی ہار گئیں بلکہ ہرا دیں گئیں۔
بقول حبیب جالب
دھاندلی، دھونس، دھن سے جیت گیا
ظالم پھر مکر و فن سے جیت گیا
فاطمہ جناح کی شکست نے بنگالیوں کو پاکستان سے مایوس کر دیا۔ ایوب خان کی انتخابی دھاندلی اور پینسٹھ کی جنگ کی ناکامی نے ایوب خان کے زوال کو پہیے لگا دیے۔ مشرقی بازو میں ان کی غیر مقبولیت عروج پر تھی کہ پینسٹھ کی جنگ نے بنگالیوں کے احساسِ محرومی اور عدم تحفظ کو ابھار دیا تھا۔ ادھر مغربی بازو میں بھٹو کی شاطرانہ چال ایوب خان کے گرد گھیرا تنگ کرتی گئ۔ تاشقند معاہدے سے واپسی پر اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو جو کبھی صدر ایوب کے apple of the eye تھے اور وہی بھٹو جن کی زبان ایوب خان کو ڈیڈی ڈیڈی کہتے نہ تھکتی تھی، ایوب خان پر سخت نکتہ چیں تھے۔ بقول بھٹو
" ایوب خان نے ملک کی عزت اور قربانی بیچ دی" (ہائے کاش کوئی اکہتر کی سلامتی کونسل میں بھٹو کو آئینہ دیکھا دیتا) یہ کہہ کر موصوف نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔
1967 میں بھٹو نے پیپلز پارٹی قائم کی اور ایوب خان کی مذہبی، معاشی اور عوامی پالیسیوں پر شدید ترین تنقید کی۔ مغربی پاکستان میں بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی ایوب مخالفت تحریک سرگرم ہو چکی تھی۔ ایوب خان نے 1969 میں پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ کے علاوہ باقی اپوزیشن پارٹیز سے مزاکرات کے لیے گول میز کانفرنس کی لیکن ان کی ہوا اکھڑ چکی تھی۔