Dhund Ke Musafir
دھند کے مسافر
(Bethany Harvest Hill) بطہنے ہاروسٹ ہل جو کہ ایک ریٹائرمنٹ ہوم ہے۔ مجھے یہاں رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہوئے اس خزاں میں مکمل چار سال ہو چلے ہیں۔ جانے چار سال پہلے میری کون سی رگ پھڑک اٹھی تھی کہ میں نے بے ساختہ یہاں رضاکار کے طور پر اپنے نام کا اندراج کروا دیا۔ ہلکی جانچ پڑتال اور پولیس چیک کے بعد تب سے اب تک میں ہر اتوار اپنے دو گھنٹے یہاں دان کرتی ہوں۔ یہ ایک خاص ریٹائرمنٹ ہوم ہے۔ یہاں وہ افراد بسرام کرتے ہیں جن کا رابطہ وقت کے تینوں ہی ادوار سے تقریباً منقطع۔ جانے وہ وقت کے کس پہر یا لمحے میں قید ہیں؟ بے وفا دنیا تو وقت کے بڑے بڑے سورماؤں کو بھی فراموش کر دیتی ہے پر یہ تو وہ بدنصیب لوگ ہیں جو اپنے آپ ہی کو بھولے بیٹھے ہیں۔
یہ سینٹر الزائمر اور ڈیمنشیا کے مریضوں کا خصوصی مرکز ہے۔ ان مریضوں کے شعور میں کبھی کبھی یاد کا کوئی جھپاکا آتا تو ہے۔ ویسے ہی جیسے کوئی بچھڑا غزال یا ڈار سی بچھڑی کونج کرلاتی ہوئی لا پتہ و لاچار۔ ایسے میں کبھی کبھی کسی یاد کا کوئی گزرا ہوا لمحہ، پل بھر کو جگنو کی طرح جھمکتا ضرور ہے مگر پھر جلد ہی شبِ دیجور جیسی گھور تاریکی مقدر۔ کوئی سرا ہاتھ آتا ہی نہیں، ایسا جسے کسی پھوہڑ نے الجھے ریشم کی ٹوکری پکڑا دی ہو۔ بندہ سارا سارا دن ماضی اور حال کھوجنے کے جوکھم میں نڈھال۔ بھلا ہو اسٹاف کا جو رات کو انہیں نیند کی گولی کھلا دیتا ہے مگر کئیوں پر اب وہ بھی بے اثر۔
یہاں زیادہ تر عمر رسیدہ لوگ ہی ہیں مگر ایک آدھ ادھیڑ عمر بھی۔ انہیں دیکھ کر میں عجیب سے احساسات میں گھر جاتی ہوں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کوہکن کی طرح اپنی زندگیوں کے لیے نئی راہیں تراشی ہوں گی۔ یہ زندگی کے تمام تجربوں سے گزرے ہوں گے۔ آپ کی اور میری طرح زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہر چیلنج کو قبول کیا ہوگا۔ زندگی سے نشاط و خط حاصل کرتے ہوئے خوشیوں کو لمحہ لمحہ کشید کیا ہوگا۔ چاہا اور چاہے گئے ہوں گے، اپنے وقتوں میں دلربا اور عاشق صادق۔ اپنے اپنے دور کہ جوڈی کارمر اور روبرٹ بینٹن جیسے حسین اور دل آرا۔
یہ اجڑے بے رنگ لوگ جن میں سے بیشتر کو اب اپنا نام بھی یاد نہیں۔ سب کے گلوں میں ان کی شناختی تختی جس پر ان کا نام، تاریخ پیدائش اور اس ہوم میں داخلے کی تاریخ کندہ ہے۔ کبھی ان میں سے کسی نے گمان بھی نہیں کیا ہوگا کہ ذات کی ایسی بے توقیری بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ اپنے آپ کو، اپنے پیاروں کو بھولنے سے بڑی اذیت بھلا اور کیا ہوگی؟
سچی بات ابتدائی دو تین ماہ جذباتی طور پر میرے لیے بہت بھاری رہے تھے۔ انسانی بے بسی کی یہ اذیت میرے اعصاب کے لیے حوصلہ شکن و صبر آزما تھی۔ ایک بار تو میں نے سینٹر چھوڑنے کا مصمم ارادہ بھی کر لیا تھا۔ سوچا کون خود کو اس ہفتہ وار اذیت سے گزارے۔ اس سے تو لاکھ درجہ بہتر ہے کہ آرام سے صوفے پہ دراز ہو کر پاپ کارن کھاتے ہوئے نیٹ فلکس پر کوئی مووی دیکھ لی جائے۔ میں نے بھی فضول ہی کا جوکھم اور پٹرول کا اضافی خرچ پال لیا ہے۔ مگر یہ کمبخت دل بھی تو بے دھڑک بول اٹھتا ہے ناں۔ بس اُسی پل اس نا مراد نے مجھے بری طرح لتاڑ کر رکھ دیا اور فٹ سے بزدل اور نا شکرے کا ٹیگ بھی میرے گلے میں ڈال دیا۔ یہ حقیقت کہ میں انسانی بے بسی کہ اس پہلو سے خوفزدہ ہوگئی تھی مگر اعترافِ شکست کی شرمندگی اس سے بھی سوا۔ سو خود ہی اپنے خوف کے آگے ڈٹ کر کھڑی ہوگئی۔
اس سینٹر میں میرا کام بظاہر آسان۔ چاروں سمتوں میں بنے یونٹ سے میں اور میرے جیسے دوسرے رضاکار ان مریضوں کو ان کے کمروں سے وسطِ ہال میں واقع میوزک روم میں لانے کی ڈیوٹی پر مامور۔ جہاں ڈیڑھ گھنٹے تک نامی گرامی پیانسٹ بلا معاوضہ پرانے گانوں کی دھنوں سے ان مریضوں کی تواضع کرتے ہیں۔ کبھی قسمت کی یاوری سے کسی مریض کی یادداشت کا گم شدہ ستارہ جگمگاتا تو وہ پیانو کے سر میں اپنی بے سری آواز ملا دیتا ورنہ بیشتر تو دیوار ہی کو تکتے تکتے وقت گزار دیتے۔ انہیں میوزک روم تک لانے کے لیے قائل کرنا بھی ایک مرحلہ ہی ہوتا۔ جانے ان کے روم روم میں کیسا خوف بسا تھا کہ بیشتر افراد اپنے ساتھ اپنی کچھ چیزیں لانے پر بضد رہتے۔ کوئی کمرے سے نکلنے سے مسلسل انکاری تو کسی کو یہ شوق کہ جلدی سے میرا میک آپ کر دو پلیز۔ کسی کو اس یقین دہانی کی شدید آرزو کہ اب بھی ان کا حسن الزبتھ ٹیلر کو زہر کھانے پر مجبور کر دے گا۔ غرض ہر ہفتے نیا چیلنج درپیش رہتا گویا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اکثر میرا دل دکھ جاتا اور کبھی کبھی ان کی بیجا ضد مزاج بھنا بھی دیتی۔ ان چار سالوں میں بہت سے پرانے مریض عدم آباد کے راہی ہوئے اور ان کی جگہ نئے آ گئے۔ ہوم کے شروع دن سے وہی معاملات اور اسٹاف کا نپا تلا انداز جو کسی کے بھی آنے جانے سے قطعاً بے نیاز۔
میں نے سنٹر سے ستمبر بھر کی چھٹی لے لی تھی کہ خزاں میرا دل پسند موسم اور میں رچ گچ کر اس موسم کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کی از حد شوقین کہ فوٹوگرافی میرا جنون۔
میں تازہ دم ہو کر اکتوبر کی پہلی اتوار سینٹر پہنچی تو نرس نے مجھے چھ مریضوں کی لسٹ تھما دی جنہیں مجھے میوزک روم تک پہنچانا تھا۔ اپنے پانچوے مریض کے دروازے پر دستک دی تو وہ کوئی نئی مریضہ تھی۔ میں نے چور نظروں سے اس کی تختی پڑھی اور خوش اخلاقی سے لیزا کو مخاطب کرتے ہوئے اس کی خیریت پوچھی اور اسے میوزک روم چلنے کی دعوت دی۔ لیزا پینسٹھ ستر کے پیٹے میں مضبوط کاٹھی کی خوش جمال عورت تھی۔ یقیناً اس کے طرحدار عہدِ جوانی میں بہت سے نوجوان آہیں بھرتے ہوئے دل کے نذرانے لیے اس کے آگے پیچھے پھرتے ہوں گے۔ عام عمر رسیدہ لوگوں کی بجھی بجھی آنکھوں کے بر عکس اس کی نیلی آنکھیں اب بھی تراشیدہ نیلم تھیں۔ وہ نک سک سے تیار تھی اور میوزک روم چلنے کے لیے فوراً آمادہ ہوگئی۔ میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے اچانک پوچھا وہاں ایلن ہوگا؟
میں لمحے بھر کو گڑبڑائی پھر اطمنان سے کہا، شاید! ہو سکتا ہے، چلو چل کر دیکھ لیتے ہیں۔
لگا میرے اس جملے نے اس میں نئی روح پھونک دی۔ کہنے لگی تم کس قدر خوب صورت ہو! تمہارے لبوں کو تو مسکرانے کی بھی حاجت نہیں کہ تمہاری تو آنکھیں مسکراتی ہیں۔ ایسی حسین لڑکی میں نے مدتوں بعد دیکھی ہے۔ پھر میرا ہاتھ قدرے دباتے ہوئے میرے مزید نزدیک آئی اور میرے کانوں میں سرگوشی کی کہ پلیز تم ایلن سے کہنا کہ مجھے اپنے ساتھ رکھے۔ جانے وہ کیوں مجھ سے روٹھ گیا ہے! لیزا کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہ نکلی اور وہ سسکتے ہوئے کہنے لگی تمہیں پتہ ہے، اس نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے اور نہ مجھ سے ملتا ہے اور نہ ہی میرا فون اٹھاتا ہے۔ دیکھو میرے ناخن بھی فون کے نمبر پریس کر کرکے ٹوٹ گئے ہیں۔ اس نے مجھے اپنی گٹھے دار انگلی کا ثابت و سالم ناخن دکھایا۔ اچھی لڑکی! پلیز تم ایلن کو میرے لیے منا لو گی ناں۔ اس نے محبت سے میری تھوڑی چھوئی۔
میں اب اندر سے قدرے گھبرا گئی تھی۔
میں نے کہا تم میوزک روم تو چلو ابھی مجھے ایڈورڈ کو بھی اس کے کمرے سے لینا ہے اور پروگرام شروع ہی ہونے والا ہے۔
چلو چلو اس نے سختی سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنے نفیس رومال سے اپنی آنکھیں اور ناک پونچھتی ہوئی کمرے کے باہر آ گئی۔ ساتھ والے کمرے سے مجھے بیاسی سالہ ایڈورڈ کو لینا تھا جو وہیل چیئر کا پابند اور باوجود ہئیرنگ ایڈ کہ نپٹ بہرا بھی۔ اب صورتحال یہ تھی کہ لیزا کسی طور میرا ہاتھ چھوڑنے کو آمادہ نہیں اور ایک ہاتھ سے وہیل چیئر کو دھکیلنا میرے لیے کارِ دشوار۔ خیر کسی طرح یہ مرحلہ سر ہوا اور میں اپنے چھ کے چھ مریضوں کو میوزک روم تک لانے میں کامیاب رہی۔
کمال کی بات کہ آج جو پیانسٹ آیا تھا وہ نا بینا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا مددگار کتا "سکوبا" بھی تھا۔ لیزا کتے کو دیکھتے ہی کچھ خوفزدہ ہوگئی۔ مجھ سے سرگوشی میں کہنے لگی دیکھو ایلن کا کتا یہاں بھی آ گیا ہے، یہ مجھے بالکل پسند نہیں۔ اب ایلن مجھے کبھی بھی اپنے ساتھ گھر نہیں لے جائے گا۔ میں نے سمجھانا چاہا کہ یہ ایلن کا نہیں بلکہ پیانسٹ کا کتا ہے مگر وہ بضد تھی کہ نہیں! یہ ایلن ہی کا کتا ہے۔
تمام وقت وہ میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑے یہی دہراتی رہی، دیکھو پیاری لڑکی! تم مجھے چھوڑ کر ہر گز ہر گز مت جانا۔ مجھے سب چھوڑ جاتے ہیں۔ پلیز تم مت جانا۔ جہاں مجھے اس کے ہاتھوں کی مضبوط گرفت حیران کر رہی تھی وہیں اس کی بے کسی میرا دل کو سیپارہ۔ میوزک ہال میں کم سیپٹمبر (come September) کی دل کش دھن گونج رہی تھی اور کافی سارے مریض اس سے محظوظ ہو رہے تھے کہ اچانک لیزا نے مجھے تقریباً جھنجھوڑ ہی دیا۔ دیکھو دیکھو ایلن، ایلن آ گیا!
پلیز۔۔ پلیز اُس سے کہو مجھے اپنے ساتھ گھر لے جائے میں اب اس کے کتے کو کچھ نہیں کہوں گی۔ اس کے میرلن سے ملنے پر بھی معترض نہیں ہوں گی، بس مجھے گھر لے جائے۔
کہاں؟ کہاں ہے ایلن؟
میں نے بے تابی سے پوچھا
وہ۔۔ وہ۔۔ اس نے اپنی کپکپاتی انگلی سے میوزک ہال کے داخلی دروازے کی طرف اشارہ کیا جہاں سینٹر کا خوبرو اور اسمارٹ سیکیورٹی افسر جیڈن مارکر کھڑا موسیقی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔