Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Baghchi

Baghchi

بغچی‎

اب جبکہ خیمے جاں کی طنابیں ڈھیلی پڑنے لگیں ہیں تو مجھے بغچی کی فکرنے آدھ موا کر دیا ہے۔ اب جانے میرے ہی ساتھ ہی ایسا انوکھا ہے یا سب کے ساتھ ہی یہی ہوتا ہے؟ قاعدے سے انسان کو فکر تو اگلے پڑاؤ کی ہونی چاہیے یا پھر پیچھے رہ جانے والوں کا دکھ۔ میرے پیچھے تو میرا کوئی ہوتا سوتا باقی بچا نہیں کہ میں ہی کلّم کلّی کہ میرے کچھ اپنوں کو قضا نے دبوچا اور باقیوں کو قدر نے بکھیر دیا۔ سارے جانے وقت کی گردباد میں کہاں رپوش ہوئے۔

وقت اس تیزی سے گزرا کہ میں اپنے فلیٹ سے اولڈ ہوم اور اب یہاں سے اپنی آخری منزل یعنی ہوسپس روانہ کی جانے والی ہوں۔ ستر بہتر سال کا تنہا سفر اب مکت ہونے کو ہے۔ تیزی سے گزرتا ظالم وقت، روپ کا شدید بیری۔

ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ۔۔

ہم موضوع داستاں تھے
ہم رشک آسماں تھے

اب کیا کیا جائے کہ بچھڑا "کل" پل ہوا اور آج ہے کہ "ج" کی طرح پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ کل لگتا تھا کہ جوانی، شادمانی، تازگی و نغمگی سدا ساتھ رہے گی اور آج یہ صورت حال کہ ہر صبح چہرے پر ایک نئی لکیر ہویدا۔ اب لکیروں کا بھی اپنا ہی کردار و اطوار۔ ماتھے پر پڑ جائیں تو تند اور دل پر لگ جائیں تو خراشیں اور رشتوں میں دراڑیں البتہ کسی محبوب نے قرطاس پر کھینچ کر بھیجی ہو تو دل نواز۔ میری متاع جان میری بغچی میں ایسے ہی کئی سگند میں بسے پتر ہیں جو میرے تنہائی کے ساتھی اور روح کی بالیدگی کا سبب بھی۔

کسی عجیب بات کہ اپنے من بسئیے کو دیکھنا تو درکنار میں تو اسے جانتی تک نہیں۔ وہ کون ہے، کہاں رہتا ہے، دیکھنے میں کیسا ہے، کیا کرتا ہے؟ یہ اور ایسے ان گنت سوالات جن کا جواب میرے پاس نہیں۔ ہاں اتنا یقین ضرور کہ اس کا من سچّا اور شیتل ہے۔ اس کے دل کو میرے دل نے اپنا لیا، مان لیا حالانکہ میں وہ ہوں جس نے بھری جوانی میں اپنی طرف بڑھے کئی مہربان ہاتھوں کو بے اعتنائی سے جھٹک دیا تھا۔ اپنوں کے پے در پے وچھوڑ نے مجھے محبت ہی سے خوفزدہ کر دیا تھا، کسی کو اپنانے جوگے چھوڑا ہی نہیں۔ میں ہمیشہ اسی خوف کہ زیر اثر رہی کہ میں جیسے بھی اپناؤں گی وہ فنا کے گھاٹ جا اترے گا۔

میں کیسے بھول جاؤں کہ وہ میری چھپنویں سالگرہ کی تنہا دوپہر تھی جب ڈاکیہ نے لیٹر باکس میں کچھ لفافے ڈالے اور میں نہ چاہتے ہوئے ہوئے بھی انہیں نکال لائی۔ وہی معمول کے بلز اور بینک اسٹیٹمنٹ۔ ارے یہ کیا؟

ان سفید لفافوں میں ایک خوبصورت کھلتے کاسنی رنگ کا لفافہ بھی تھا، جس کے کونے پر نازک سی بلو بل (bluebell) کی شبیہہ بہار دے رہی تھی۔ میں ورطہ حیرت سے دیر تک لفافے کو الٹ پلٹ کر دیکھتی رہی کہ تحریر قطعی انجانی۔ لفافہ چاک کیا تو جھاگ جیسے سفید کاغذ پر خوش خطی سے تحریر کیا گیا ایک جہانِ حیرت میرے سامنے تھا۔

جانے وہ کون تھا؟

وہ عجیب دلربائی بھرے دن تھے۔ میرے سلگتے من پر گویا برکھا بہار کی پھوار۔ ہفتے میں پابندی سے مجھے اس کے دو اور کبھی کبھی تو تین خطوط بھی ملتے۔ وہ میرے متعلق چھوٹی سی چھوٹی بات بھی جانتا تھا۔ چاہے وہ میری پسند، میرے شوق ہوں یا میری الرجیز۔ میرے پریتم کی ایک بات اچھی نہ تھی کہ وہ اپنے متعلق بہت ہی کم لکھتا۔ اس کا تعلق اسراروں کی سر زمین مصر سے تھا۔ اس نے اپنے سراپے کی تفصیل اور کام کی نوعیت بھی لکھی تھی۔ ایک دل خراش خبر اس کی معذوری کی بھی تھی پر اس نے اپنی معذوری کی نوعیت کبھی نہیں بتائی۔ اس کے خطوط میں عموماً پڑھی گئی کتابوں اور دیکھی ہوئی فلموں پر مزےدار تبصرے ہوتے۔ حیران کن بات کہ یہ تفصیل بھی کہ اس نے مجھے کب کب اور کہاں کہاں دیکھا۔ وہ میرا سر پیچھے پھینک کر ہنسے کی ادا ہو یا میرا قدرے ترچھا پڑتا بائیاں پاؤں، سب پر اس کی نظر و گرفت تھی۔ وہ اکثر مجھے میرے لباس کی تراش خراش اور بالوں کے انداز بدلنے پر مفید مشوروں سے بھی نوازتا۔ میں انجانے میں خوشی خوشی اس کی پسند سانچے میں ڈھلتی چلی گئی۔

نو سال، مسلسل نو سال یک طرفہ خطوط کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ نہ اس نے کبھی ملنے پہ اصرار کیا اور نہ ہی اپنا کوئی پتہ نشان دیا۔ مسلسل ایک سو آٹھ ماہ تک موصول ہونے والے اس کی تین سو چھیاسٹھ خطوط ہی اب میری متاع حیات ہیں، میری دیوانی اندھی محبت۔ یہ کاسنی لفافے میرے بجھتے سرمئی دنوں کو رنگین و پر بہار کر گئے۔ ان خطوط کو میں نے اتنی بار پڑھا کہ وہ تمام کے تمام میرے دل پر کندہ۔ ان بوسیدہ ہوتے خطوط کو میں نے سنبھال کر اپنی ریشمی بغچی میں رکھا ہوا ہے۔

پچھلے چھ سالوں سے ان جانفزا خطوط کی ترسیل موقف ہوئی اور ساتھ ہی میری بیماریاں بھی روز افزوں۔ اولڈ ھوم کی مینیجر، ہیلن بتا رہی تھی کہ رواں ماہ کے اختام پر مجھے ہوسپس منتقل کر دیا جائے گا۔ میرے سامان کی پیکنگ میں ہیلڈا میری مدد گار ہوگی۔

ہیلن نے جتاتی نظروں سے خاص تاکید کی "جینی بس اپنی ضروری ترین اشیاء ہی پیک کروانا"۔

لو بھلا یہ بھی کوئی بتانے والی بات تھی!

جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں۔۔

میرا سامان ہی کتنا تھا؟

بس کچھ جوڑے، دو کتابیں، دوائیں، ٹوائلٹریز اور میری متاع جان میری بغچی۔ میری حیات کی بچی کچھی سانسوں کے سہارے فقط ایک سوٹ کیس میں مقفل۔

میں ہوسپس روانگی کے لیے EMS کی منتظر تھی کہ ہیلڈا نے میرے کمرے پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے میری اسٹڈی ٹیبل کو چیک کرتے ہوئے اس کی نچلی دراز کو کھولا اور کھولتے ہی حیرت سے چیخ پڑی

"جینی یہ اتنے سارے کاسنی لفافے

"ارے ان سب پر تو تمہارا نام و پتہ بھی لکھا ہوا ہے!"

مس جینیفر لارنس

رچمنڈ ہائیٹس اے /9

گلاسگو

اسکاٹلینڈ

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan