Selab, Qudrati Afat Ya Bad Intezami?
سیلاب، قدرتی آفت یا بد انتظامی؟
2010 کے بعد یہ 2022 کا سیلاب بہت تباہی و بربادی لے کر آیا۔ پاکستان کا بہت بڑا حصہ اس سیلاب کی لپیٹ میں ہے، قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع، ایک بہت بڑا اور نا قابلِ تلافی نقصان ہے۔ اللہ پاک سب مرحومین کی مغفرت فرمائے۔ جن کے پیارے اس دنیا سے چلے گئے اللہ پاک ان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرتی آفات، کبھی بھی کسی بھی علاقے یا ملک میں آ سکتی ہیں۔ لیکن اس سارے عمل میں ہم کو اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں، بد انتظامیوں، کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ ایک اندازے کے مطابق 4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ یہ اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ 2010 کے سیلاب کے بعد اگر ہماری ارب، کھرب پتی اشرافیہ جو بدقسمتی سے ہماری حکمران کلاس بھی ہے نے کیا انتظامات کئے؟
جواب ہے صفر۔ یہ ہر جماعت کے حکمران ارب، کھرب پتی لوگ ایلیٹ کلاس سے ہیں، نہ یہ خود کبھی سیلاب میں مرے، نہ ان کی اولاد، نہ کوئی قریبی رشتے دار، اگر مرا ہے تو غریب ووٹر۔ اس لئیے اس کلاس نے کبھی غریب عوام، غریب ووٹر کے لیے کچھ نہیں کیا۔ چونکہ اس کلاس کے بچے دنیا کے امیر ترین ممالک میں محفوظ بھی ہیں اور مزے بھی کر رہے ہیں۔
ان سب کی اولادیں، جائیدادیں، فیملیز سب یا بیرون ملک یا اندرون ملک پوش اور محفوظ شہریوں میں انجوائے کر رہے ہیں۔ اس لئیے ان کو کوئی پرواہ نہیں کہ ان کا غریب ووٹر سیلاب میں مرے، بھوک سے مرے، غربت سے مرے، بس ان کی اولادیں محفوظ اور خوشحال ہوں۔ ان کے کاروبار اور جائدادوں میں ہزاروں گنا اضافہ ہو۔
قارئین آپ کو حیرت ہو گی کہ پاکستان صرف 30 دن کا پانی محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جبکہ انڈیا 120 دن۔ مصر 700 دن اور امریکہ 800 دن تک کا پانی محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر سالانہ اوسط بارش کا تناسب دیکھا جائے تو دنیا کے بہت سے ممالک میں ایک ماہ میں جتنی بارش ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایک سال میں بھی اتنی بارش نہیں ہوتی۔
اب آتے ہیں ڈیمز کی طرف۔ 1960 کی دہائی کے بعد پاکستان کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا سکا۔ ایوب دور کے منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا سکے، کالا باغ ڈیم پر سیاست کرنے والوں کو یہ نظر نہیں آتا کہ ایوب خان نے اپنے علاقے میں تربیلا ڈیم بنایا۔ کتنے لوگ تربیلا اور گرد و نوا سے بے گھر ہو کر پنجاب کے دور دراز علاقوں میں ہجرت کر کے ملک کو ایک بڑا ڈیم دے گئے۔
قارئین محترم اگر یہ دو بڑے ڈیم بھی نا ہوتے تو اس سیلاب کی تباہی اس تباہی سے بہت زیادہ ہو سکتی تھی۔ ہماری اشرافیہ کلاس جو بد قسمتی سے ہمارے حکمران بھی ہیں کو انڈیا، چائنہ، امریکہ، مصر اور دوسرے بہت سے ممالک کو دیکھنا اور سیکھنا چاہیے کہ پچھلے چالیس، پچاس برسوں میں ان ممالک میں چھوٹے بڑے کتنے ڈیمز بنائے۔ کتنا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا۔ اور ہم نے مطلب ہماری ارب، کھرب پتی سیاستدانوں کی کلاس نے اس سلسلے میں کیا کیا؟
تو آپ کو نا صرف شرمندگی نظر آئے گی بلکہ اپ کو پچھلے چالیس، پچاس سالوں میں ان کی کوتاہیوں، نالائقیوں، نا اہلیوں، چوریوں، کک بیکس کی وجہ سے یہ سب ارب، کھرب پتی سیاستدان سیلاب میں ڈوب کر مرنے والوں کے قاتل محسوس ہوں گے۔ جو وقت گزر گیا وہ تو واپس نہیں آ سکتا، لیکن کیا ہم اس سیلاب کی تباہ کاریوں سے، ان اموات سے، ان ڈوبتے، سسکتے، بلکتے غریب عوام اور معصوم بچوں کی بے بسی کی موت سے کچھ سیکھیں گے یا سات، آٹھ سال بعد اسی طرح کے ایک اور سیلاب کی تباہ کاریوں پر ماتم کریں گے؟
اگر پاکستان پانچ چھ بڑے بڑے ڈیمز بنا لے۔ سو دو سو چھوٹے ڈیم بنا لے۔ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو 30 دن بڑھا کر 200 دن تک لے کر جائے۔ اور موسم کی پیشگی اطلاع کی جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرے اور اس جدید ترین ٹیکنالوجی کی وجہ سے ملنے والی موسمی اطلاعات پر ایکشن لینے والے ادارے بنا کر اس طرح کی آفات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور قیمتی جانی اور مالی نقصان کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
اللہ پاک پاکستان اور غریب پاکستانی عوام پر رحم فرما۔ اور غریب عوام کا درد رکھنے اور درد محسوس کرنے والے ہمدرد اور سچے حکمران عطا فرما۔