Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shafaqat Abbasi
  4. Pakistan Default Ke Qareeb, Chand Tajaveez

Pakistan Default Ke Qareeb, Chand Tajaveez

پاکستان ڈیفالٹ کے قریب، چند تجاویز

پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال نہ پی ٹی آئی کی، پیدا کردا ہے نہ موجودہ پی ڈی ایم کی آٹھ ماہ کی گورنمنٹ کی، 1970 سے لے کر آج 2023 جنوری تک تمام حکومتیں اس تباہی کی ذمہ دار ہیں۔ چونکہ دیرپا، مظبوط اور مثبت معاشی پالیسیوں کو کبھی بنایا ہی نہیں گیا اور اگر کبھی بنایا بھی گیا تو پروان نہیں چڑھایا گیا، 1970 کے بعد کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں۔ چونکہ 1947 پاکستان بننے کے بعد آٹھ دس سال پاکستان کو سنبھلنے میں لگے، 1960 سے 1970 کی دہائی پاکستان کی معاشی اعتبار سے سب سے کامیاب دہائی تھی۔

اور پھر دو فوجی مارشل لاؤں اور دس بارہ "جمہوری" مارشل لاؤں نے ملک کی معیشت تباہ کر دی۔ ملک روز بروز کمزور ہوتا گیا اور یہ سیاستدان، ان کے خاندان، ان کے کاروبار اور ساری اشرافیہ دن دو ہزار گنا اور رات چار ہزار گنا ترقی کرتا رہا۔ اور ملک ڈیفالٹ کے قریب۔ اب بہت سارا پانی بلکہ دریا سر سے گزر گئے۔ پھر بھی معیشت کی بہتری کیلئے اگر سنجیدگی، خلوص نیت، ہمدردی سے کچھ اقدامات کئے جائیں تو ممکن ہے پاکستان دوبارہ معاشی اعتبار سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے۔

جب تک پاکستان معاشی اعتبار سے بہتر نہیں ہوتا قومی اور صوبائی وزراء، مشیروں کی تعدد 10 تک محدود کی جائے۔ واضع رہے اس وقت ڈیفالٹ کے قریب پاکستان کی صرف وفاقی کابینہ 76 وزیروں، مشیروں پر مشتمل ہے اور یہی حال صوبائی حکومتوں کا بھی ہے۔ ان ارب پتی وزراء پر غریب عوام کے ٹیکس کے پیسے سے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس لیے دس سال تک حکومت کوئی بھی ہو، وزیروں، مشیروں کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہو۔

پاکستان کے 95 فیصد ایم این اے اور ایم پی اے اور سینٹرز ارب پتی یا کم از کم کروڑ پتی ہیں۔ یہ اگر دس سالوں تک تنخواہ، ٹی اے ڈی اے، گھر، گاڑی، فلیٹ، سیکورٹی، پٹرول غریب عوام کے ٹیکس سے نہ لیں تو ان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مگر ملکی خزانے پر مثبت اثر ضرور پڑے گا۔ چونکہ یہ سب لوگ الیکشن پر کروڑوں روپے لگا کر آتے ہیں اور سنا ہے سینٹرز کے ریٹ اربوں میں چلے گئے ہیں۔ اس لیے یہ سب خرچہ اپنی جیب سے کرتے دکھتے ہیں۔

مہنگی بجلی بنا کر ووٹ کے لیے عوام کو سستی دے کر ملک کی معیشت کو دیمک لگانے کے بجائے بجلی چوری، لائن لاسز اور بجلی کے بجائے زیادہ سے زیادہ دن کی روشنی کا استعمال کیا جائے، دکانیں اور بازار سختی سے 8 بجے رات لازمی بند ہونے چاہیے۔ اور 300 یونٹ اس کو فری، 500 یونٹ اس کو فری، یہ اللے تللے، یہ ڈرامے بند کئیے جائیں، اور آئی پی پیز سے کیئے ماضی کے غیر منصفانہ معاہدے ختم کیے جائیں یا دوبارہ منصفانہ معاہدے کیے جائیں۔ سولر پاور، ہوا، پانی اور کوئلے سے زیادہ سے زیادہ بجلی بنائی جائے نہ کہ مہنگے ترین امپورٹڈ فرنس آئل سے۔

پٹرول پر موٹر سائیکل اور 1000 سی سی گاڑی پر اور پبلک ٹرانسپورٹ کو سبسیڈی دی جائے، اور 1000 سی سی سے زیادہ گاڑی والوں سے حکومت پٹرول پر 100 روپے فی لیٹر پرافٹ لے۔ ٹیکس کا نظام اتنا آسان بنایا جائے اور ٹیکس کی رقم مناسب رکھی جائے تاکہ ہر آدمی ٹیکس دے، امپورٹ کم سے کم کی جائے بلکہ غیر ضروری اشیاء کی امپورٹ پر پابندی لگائی جائے۔ اور ایکسپورٹ بڑھانے کے لئے اقدامات کئے جائیں اور ایکسپورٹرز کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دی جائیں۔

موجودہ ٹیکس کولیکشن کے علاوہ بھی حکومت ہر بڑے بازار، گلی، محلے کی ہر قسم کی دکان سے ہر ماہ 500 روپے ٹیکس لے، واضع رہے چھوٹے اور بہت چھوٹے دکاندار سے ہر ماہ 500 تو آسانی سے لیا جا سکتا ہے مگر اسی دکاندار سے سال بعد 6000 لینا مشکل ہوگا۔ اپنے دیرینہ دوست ممالک، چائنا سعودی عرب، ملائشیاء، ترکی، یو اے ای سے تعلقات مضبوط کر کے معاشی مدد لی جائے۔

پاکستان کی ہر سیاسی جماعت سے ایک ایک ماہر معاشیات پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے۔ یہ کمیٹی ممبرز کوئی سرکاری عہدہ لیں اور نہ ہی الیکشن لڑ سکیں، ان کا کام صرف معیشت بہتر کرنا اور معیشت پر نظر رکھنا ہو۔ مزید اس کمیٹی میں سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ، گورنر سٹیٹ بینک اور تمام سٹیک ہولڈر کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ چونکہ پاکستان کی 95 فیصد آبادی غریب ہے۔ غریب کے استعمال کی چیزیں خاص کر کھانے پینے کی چیزیں سستی اور سبسیڈی ہونی چاہیے اور اشرافیہ کے استعمال کے تمام لگثری آئٹمز پر ڈیوٹی اور ٹیکس ہونا چاہیے۔

بڑے شہروں کے کروڑوں روپے مالیت کے گھروں میں گیس کا بل ہزار دو ہزار آتا ہے اور گاؤں دیہات میں 10 لاکھ روپے مالیت والا گھر اس سے کہیں زیادہ کی لکڑی یا ایل پی جی سیلنڈر گیس استعمال کرتا ہے۔ اس فرق کو دیکھا جائے۔

گیس پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے پھر بھی ووٹ لینے کی خاطر قدرتی گیس کے افتتاح ہر جگہ ہو رہے ہیں۔

پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم جی ڈی پی کی مقررہ کردہ حد سے کبھی زیادہ نہ ہو۔

بیرونی مالی اداروں اور ممالک سے سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے قرضے ری شیڈول ہونے چاہیے۔

اگر ان تجاویز پر عمل ہو تو ممکن ہے پاکستان ڈیفالٹ سے بچ جائے گا۔

Check Also

Itna Na Apne Jaame Se Bahir Nikal Ke Chal

By Prof. Riffat Mazhar