Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shafaqat Abbasi
  4. Maeeshat Ki Tabahi Zimmadar Kon

Maeeshat Ki Tabahi Zimmadar Kon

معشیت کی تباہی ذمہ دار کون

قارئین 1984 میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی ویلیو 16 روپے تھی جبکہ انڈین روپے کی قیمت 12 روپے تھی۔۔ آج 2024 میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ 282 جبکہ انڈین روپیہ صرف 82 روپے کا ہے۔ اس 200 روپے کے فرق کا ذمہ دار کون کون ہے۔۔ اس 200 روپے کے فرق سے پاکستانی اشرافیہ (جس میں اسٹیبلشمنٹ، سیاستدان، ججز اور بیوروکریٹ آتے ہیں) نے اربوں سے کھربوں کا مال بنایا۔۔ کیونکہ اندرون و بیرون ملک ڈالرز اکاؤنٹ، دبئی، امریکہ، انگلینڈ، آسٹریلیا اور دنیا کے نا جانے کن کن ممالک میں جائیدادیں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی سے ان کو اربوں پتی سے کھربوں پتی بنا رہا ہے۔۔

دوسری طرف روپے کی قدر میں کمی سے پاکستان میں عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی گئی اور عام آدمی کل آبادی کا 90 فیصد ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں روڈوں، گھروں۔ پلازوں، چوک چوراہوں میں بھیک مانگنے والوں کی تعداد دو سے تین کروڑ ہے۔۔ دو کروڑ اسی لاکھ بچہ سکولوں سے باہر ہے۔۔ 80 فیصد عام پاکستانی ایسا پانی پی رہا ہے۔ جو انسانوں کے پینے کا قابل نہیں ہے۔۔ اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عورتیں اپنا زیور بیچ کر بجلی اور گیس کے بل جمع کروا رہی ہیں اور جن کے پاس زیور نہیں وہ اپنی عزتیں بیچ کر بل ادا کر رہی ہیں۔۔

خطے میں مہنگائی 6 فیصد ہے۔۔ انڈیا میں 4 فیصد اور پاکستان میں 35 فیصد ہے۔۔ انڈیا میں جو سبزیاں دس۔۔ بیس اور تیس روپے کلو ہیں وہ سبزیاں پاکستان میں سو۔۔ دیڑھ سو اور دو سو روپے کلو ہیں۔۔ اسی طرح ضروریات زندگی کی ہر چیز عام پاکستانی کی خرید سے باہر ہے۔۔ پچھے پچیس تیس سالوں میں جہاں چین اور بھارت میں کروڑوں انسان خط غربت سے مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس میں پہنچیں ہیں وہی پاکستان میں خطہ غربت پر رینگنے والے پاکستانیوں کی تعداد بارہ کروڑ کو چھو رہی ہے۔۔ خطہ غربت کا مطلب کہ ان لوگوں کی یومیہ آمدن ایک ڈالر مطلب 280 روپے یا اس سے کم ہے۔۔ قارئین ان چند حقائق سے اس ملک کی تباہی کا اندازاہ لگایا جا سکتا ہے۔۔

اس تباہی کا ذمہ دار کون کون ہے؟

اگر 1984 سے 2024 تک کس کس نے کتنی کتنی حکومتیں کیں تو پاکستان کی اس تباہی کی 30 فیصد ذمہ دار شریف فیملی اور ن لیگ ہے۔۔ 30 فیصد ذمہ دار پی پی پی اور بھٹو، زرداری فیملی ہے۔۔ 30 فیصد ذمہ دار مشرف کا مارشل لاء اور ق لیگ ہے۔۔ اور 10 فیصد ذمہ دار پی ٹی آئی، عمران خان بزدار اور گوگی ہیں۔۔ مشکل یہ ہے کہ ابھی بھی کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔۔ معشیت کو بہتر کرکے عام آدمی جو کل آبادی کا 90 فیصد ہے کا معیار زندگی بہتر کرنے کی بجائے عوام کی عزت نفس مجروح کرکے لنگر خانوں، بینظیر انکم پروگرام اور اب مریم نواز شریف کی طرف سے نگھبان راشن پروگرام کے تحت بیکاری بنایا جا رہا ہے۔ اس سے وقتی واہ واہ۔۔ میڈیا کوریج۔۔ اور کسی حد تک ووٹ بنک تو بڑھ سکتا ہے۔۔ مگر معشیت نہیں۔۔ عوام کا معیار زندگی نہیں بڑھ سکتا۔۔

عوام، عام آدمی بہت قربانیاں دے چکے۔۔ اب قربانی اسٹیبلشمنٹ، ججز، بیوروکریٹس اور ارب کھرب پتی سیاستدانوں کو دینا ہوگی۔۔ گریڈ 18 سے 22 تک کے تمام لوگوں کی تنخواہوں کے علاوہ تمام مراعات بند کی جائیں۔ پاکستانی بیوروکریسی، سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی زاتی۔۔ اور بیوی بچوں کی بیرون ملک جاہز و ناجائز جائیداد اور بنک اکاؤنٹ فوری طور پر پاکستان منتقل کئیے جائیں۔۔

اندرون پاکستان کسی بھی سیاستدان، بیوروکریٹ اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی شخص کی آمدن سے زائد جائیداد، بنک بیلنس بحق سرکار ضبط کرکے رقم قومی خزانے میں جمع کروائی جائے۔۔

انڈسٹری لگائی جائے جس سے روزگار ملے اور ایکسپورٹ زیادہ ہو۔۔ بہت ضروری اشیاء کے علاوہ تمام قسم کی امپورٹ پر پابندی لگائی جائے۔۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ ملک میں فیکٹریاں اور چھوٹے کارخانے لگیں گے۔۔ مثلآ اگر ایک سال کے لئے بلی اور کتوں کی امپورٹڈ فوڈ پر پابندی لگتی ہے تو ضرور کوئی نا کوئی انویسٹر اندرون ملک سے یا بیرون ملک سے پاکستان میں اس کی فیکٹری لگائے گا۔۔ یہ سیک مثال ہے، آیسے ہزاروں کسرخانے لگ سکتے ہیں جن سے نا صرف جابز ملیں گی بلکہ امپورٹ کم سور ایکسپورٹ زیادہ ہوگی۔۔

بجلی، گیس اور کھانے پینے کی اشیاء فوری طور پر اتنی سستی کی جائیں کہ ہر آدمی آسانی سے خرید سکے۔۔ اور امیروں پر ٹیکس لگایا جائے۔۔ قومی صوبائی اور سینٹ کو ملا کر تقریباً 1200 منتخب نمائندے ہیں۔ جب اجلاس ہوں تو ان کی گاڑیوں۔۔ گھڑیوں اور امپورٹڈ سوٹوں سے ان کے لائف سٹائل ان کے گھروں۔۔ فارم ہاسوں اور دولت جائیداد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور پھر ان کے ٹیکس گوشوارے دیکھے جاسکتے ہیں۔۔

اگر نیت صیح ہو تو ڈالر کنٹرول کیا جا سکتا ہے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا جاسکتا ہے جیسے پچھلے ایک سال میں آرمی چیف سید عاصم منیر نے کرکے دکھایا۔۔

خدا راہ آپ سب لوگوں (اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں ججز بیوروکریٹس)نے اس مملکت خداد داد پاکستان سے اتنا کچھ بنا لیا ہے کہ آپ لوگوں کی دس نسلوں کے لیے بھی بہت ہے۔ اب عوام کا سوچیں۔۔

اگر یہ عوام کبھی اپنے حق۔۔ بجلی اور گیس کے بلوں اور مہنگائی کے خلاف نکل آئی تو کیا ہوگا؟

اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔۔

Check Also

Ye Breed Aur Hai

By Mubashir Ali Zaidi