Jamhuri Dictator
جمہوری ڈکٹیٹر
میرے 25 سالہ مکہ مکرمہ سعودی عرب قیام کے دوران جہاں مجھے دنیا کی تقریباً سب اقوام اور دنیا کے تمام کلچرز کو بہت بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ چونکہ مکہ مکرمہ ایسی جگہ ھے جہاں پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں۔ میری کمپنی میں 20 مختلف ممالک کے لوگ کام کرتے تھے اور کمپنی میں تقریباً دنیا کے سبھی ممالک کے مسلمان آتے تھے تو یہ وجہ ھے کہ تقریباً دنیا کے سبھی لوگوں سے ملاقات رہی۔
ہماری کمپنی میں چونکہ کافی تعداد میں بنگلہ دیش کے ورکرز بھی تھے اور کچھ اچھی پوسٹوں پر بھی تھے۔ اس لئیے بنگلہ دیش کے کلچر رہن سہن، بود و باش کو کافی قریب سے دیکھا ہوا ھے اور کسی حد تک بنگلہ زبان بھی آتی ھے اور بنگلہ دیشی دوستوں کی دعوت کے مچھلی چاول اور پتلی دال آج بھی منہ میں پانی لے آتی ھے۔
بہرحال آتے ہیں آج کے موضوع کی طرف۔ بنگلہ دیش میں دو جماعتوں کا راج رہا بی این پی مطلب بنگلہ دیش نیشنل پارٹی جس کو خالدہ ضیاء ہیڈ کرتی ہیں اور دوسری عوامی لیگ جس کو 1975 میں بانی عوامی لیگ شیخ مجیب الرحمٰن کے اپنی ہی آرمی کے ہاتھوں پورے خاندان سمیت قتل کے بعد خاندان میں زندہ بچ جانے والی دو بہنوں شیخ حسینہ واجد اور ریحانہ شیخ میں سے بڑی بہن شیخ حسینہ واجد ہیڈ کرتی ہیں۔ واضح رہے یہ دو بہنیں بیرون ملک ہونے کی وجہ زندہ رہ گئیں تھیں۔
جس طرح پاکستان میں ن لیگ اور پی پی باریاں لگاتیں رہیں ہیں اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی بی این پی اور عوامی لیگ باریاں لگاتیں رہیں۔ واضح رہے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اور خالدہ ضیاء کی بی این پی کو پاکستان کے قریب سمجھا جاتا ھے اور عوامی لیگ کو انڈیا کے قریب۔
حسینہ واجد کم و بیش 16 سال مسلسل حکومت میں رہیں ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اس دوران کچھ معاشی اصلاحات سے بنگلہ دیش کی معاشی نمو میں اضافہ ہوا۔ مگر دوسری طرف شیخ حسینہ واجد نے ڈکٹیٹر شپ میں ملٹری رولرز کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اپوزیشن کو دبا کر رکھنا۔ بلکہ اپوزیشن کا نام و نشان تک نہیں چھوڑا۔ جو حکومت کے خلاف یا حکومت پر تنقید کرتا اٹھا لیا جاتا اور مروا دیا جاتا۔ بی این پی کی خالدہ ضیاء کو عمر رسیدگی اور بیماری کی حالت میں بھی پابند سلاسل رکھا۔
1971 میں بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہوا۔ اسکے 40 سال بعد اس وقت پاکستان کی حمایت کرنے پر حسینہ واجد نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے باریش معزز بزرگوں کو پھانسی دی۔ اپنی مرضی کی عدالتیں۔ مرضی کے جج۔ مرضی کا آرمی چیف۔ مرضی کا انٹیلیجنس چیف۔ مرضی کے آئی جی پولیس اور مرضی کے بیوروکریٹس۔ انڈیا جیسے بڑے ملک کی پشت پناہی اور امریکہ کی آشیر باد الغرض حسینہ واجد نے جمہوری لبادے میں ایسی ڈکٹیٹر شپ قائم کہ دنیا کے ملٹری ڈکٹیٹرز کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
جس طرح تھرڈ ورلڈ یا تیسری دنیا میں ہوتا ھے کہ گلیاں ہون گیاں سنسان۔۔ وچ مرزا یا پھرے۔۔ تیسری دنیا کی یہ پرابلم ھے کہ جمہوریت کے لبادے میں ڈکٹیٹر شپ کی ساری حدیں پار کی جاتیں ہیں اور انسانی حقوق اور ساری جمہوری روایات اپوزیشن کے دنوں میں یاد آتی ہیں۔ شیخ حسینہ واجد نے پورے اخبارات، سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر مکمل کنٹرول کر لیا تھا۔ ہر طرح سے مطمئن شیخ حسینہ واجد بھول گئی تھی کہ اوپر بھی ایک ذات ھے۔۔ قرآن مجید کی ایک آیت کا مفہوم ھے کہ (ایک پلان انسان بنتا ھے اور ایک پلان اللہ اور اللہ پاک کا پلان بہترین پلان ہوتا ھے)۔
جو کچھ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد نے کیا، تیسری دنیا کے اکثر ممالک خاص کر ایشیا اور افریقہ وغیرہ میں ہر جمہوری ڈکٹیٹر کی خواہش ہوتی ھے کہ اپوزیشن نا ہو یا برائے نام ہو۔ میڈیا فلی کنٹرولڈ ہو، الیکشن کمیشن، آرمی چیف، انٹیلیجنس چیف اور پولیس چیف آپنی مرضی کے ہوں، سوشل میڈیا اور اخبارات، ٹی وی صرف حکومتی اشاروں پر ناچیں۔۔
میری ایسی سوچ رکھنے والے تمام سول یا جمہوری ڈکٹیٹرز سے عرض ھے کہ بنگلہ دیش اور شیخ حسینہ واجد کے انجام سے سبق حاصل کریں اور ڈریں اس وقت سے کہ عوام کا غصہ۔ عوام کا غیظ و غضب آپ کے محلات کے اندر آ کر آپ کی گردنوں تک پہنچ جائے۔
اگر اس دن بنگلہ دیش آرمی شیخ حسینہ واجد کو بر وقت استعفیٰ دے لا کر بحفاظت انڈیا نا بھیجتی تو عوام اگلے چند گھنٹوں میں وزیراعظم ہاؤس میں گھس گئی تھی اور پھر جو انجام ہونا تھا۔ آپ سب لوگ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہو۔۔
سری لنکا، کینا اور اب بنگلہ دیش۔۔ یہ تین ممالک میں اشرافیہ اور عام آدمی کے درمیان بڑتی خلیج اور جمہوری لبادے میں سول ڈکٹیٹر شپ، تیسری دنیا کے لیئے بہت بڑاسبق ھے۔
مگر جس طرح شیخ حسینہ واجد مرضی کا آرمی چیف، مرضی کے جج اور فلی کنٹرولڈ میڈیا اور نا ہونے کے برابر اپوزیشن سے مطمئن تھی۔ مگر ایک رات میں جی ہاں 16 سالہ اقتدار صرف ایک رات یا چند گھنٹوں میں دھڑام سے گرا ا ور اگر تلہ انڈیا میں جا گرا۔۔
شیخ حسینہ واجد کے لئیے بنا کھانا مظاہرین نے کھایا۔
اللہ پاک سے دعا ھے کہ تیسری دنیا کے حکمرانوں کو صحیح معنوں میں جمہوریت نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اشرافیہ اور عام آدمی کے درمیان خلیج کو کم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وسائل کو اشرافیہ تک محدود کرنے کے بجائے عام آدمی تک وسائل کی منصفانہ تقسیم کی توفیق عطا فرمائے۔