Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shafaqat Abbasi
  4. Ghareeb Pakistani Aur Mehngai

Ghareeb Pakistani Aur Mehngai

غریب پاکستانی اور مہنگائی

غریب کو ہر دور میں مہنگائی، ٹیکسوں کی بھرمار اور بجلی، گیس، پانی کے بلوں میں اضافے اور پٹرول مہنگا کر کے ہر دور میں کچلا گیا۔ نواز، زرداری، عمران کی جمہوریت ہو، صدارتی نظام ہو یا مارشل لاء ہر دور میں امیر اور امیر، جبکہ غریب اور غریب ہوا ہے۔

اب اس شہباز گورنمنٹ نے پٹرول 30 روپے لیٹر مہنگا کر کے ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی کر دی، گورنمنٹ کا یہ مؤقف ہے کہ کچھ گھروں کو 2 ہزار روپے ماہوار دے کر اس مشکل کو آسان کر دیا۔ صرف ایک ڈرامہ ہے۔ گورنمنٹ اور اس کے وزیروں، مشیروں اور خود وزیراعظم کو پتہ ہے کہ یہ صرف ڈرامے بازی ہے اور ان سب کو علم ہے کہ پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے سے ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے۔

بظاہر تو آلو، ٹماٹر، کپڑے، جوتے، سیمنٹ، سریا اور اس طرح کی ہر چیز کا پٹرول سے کوئی تعلق نہیں لگتا، لیکن پٹرول مہنگا ہونے سے ضروریات زندگی کی ہر چیز، جی ہاں ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے۔ چونکہ بذریعہ ٹرانسپورٹ ہی ہر چیز کیھتوں اور فیکٹریوں سے منڈیوں اور منڈیوں سے پاکستان کے دور دراز علاقوں تک شفت ہوتیں ہیں، اب گورنمنٹ کا ایک دوسرا ڈرامہ ملاحظہ فرمائیں کہ یوٹیلیٹی سٹورز پر چند چیزوں پر سبسیڈی، غریب پاکستانیوں کی شدید قسم کی دل آزاری اور عزت نفس مجروح کرنے کی حکومتی ڈرامے بازی ہے۔

قارئین پاکستان کی 22 کروڑ کی آبادی میں سے 1 کروڑ اشرافیہ کو نکال دیں تو 21 کروڑ غریب پاکستانیوں کے لیئے کتنے یوٹیلیٹی سٹورز ہیں؟ 21 کروڑ آبادی کو پاکستان میں موجود کل یوٹیلیٹی سٹورز کی تعداد سے تقسیم کر کے دیکھ لیں تو آپ کو یہ صرف حکومتی ڈرامے بازی لگے گی۔ یہ تو خیر یوٹیلیٹی سٹورز کی تعداد کی بات ہوئی۔ اب آتے ہیں جو یوٹیلیٹی سٹورز موجود ہیں وہاں کیا ہو رہا ہے؟

جن چیزوں پر سبسیڈی ہے وہ چیزیں ملتیں ہی نہیں ہیں، اکثر یہی جواب ملتا ہے کہ چیزیں گورنمنٹ کی طرف سے نہیں آ رہی تو ہم کیا کریں، اور اگر کبھی یہ چیزیں اتفاق سے کسی سٹور پر موجود بھی ہوں تو ان کی خریداری کے لیئے بہت سی شرائط۔ مثلاً شناختی کارڈ دکھاؤ اور انٹر کراؤ، ساتھ اتنے کی خریداری کرو گے تو 2 کلو چینی اور 10 کلو آٹا ملے گا وغیرہ وغیرہ۔

اب چاہے عمران خان ہو، نواز شریف، شہباز شریف ہوں یا زرداری یہ سب لوگ اس اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کو ان معاملات اور مشکلات کا کبھی احساس ہوا ہے اور نا کبھی ہو سکتا ہے۔ وہ اس کلاس سے نہیں ہیں، جنہوں نے ہمیشہ پاکستان اور انگلینڈ کے بڑے بڑے سپر سٹورز سے خریداری کی ہو جن کے کتے، بلیوں کے ایک وقت کا امپورٹڈ کھانا غریب پاکستانی کے ایک ماہ کے بجٹ سے زیادہ ہو۔ ایسے لوگوں کو غریب اور غریب کا یوٹیلیٹی سٹورز پر ذلیل و خوار ہونے کا احساس ہو ہی نہیں سکتا۔

قارئین میں نے یہ کالم لکھنے کے لیئے جن یوٹیلیٹی سٹورز پر جا کر جائزہ لیا وہ سٹورز نا تو چیچو کی ملیاں میں ہیں، نا بلوچستان کے دور دراز کسی گاؤں میں اور نا ہی اندرون سندھ اور نا ہی کرک اور شمالی یا جنوبی وزیرستان میں، آپ حیران ہوں گے کہ میری تحقیق اسلام آباد، جی ہاں اسلام آباد وفاقی دارالحکومت کے یوٹیلیٹی سٹورز پر ہے جو وزیراعظم ہاؤس سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ تو آپ سوچیں دور دراز علاقوں میں کیا حال ہو گا؟

میں نے رمضان میں سو سو آدمیوں کی لائن بھی اسلام آباد کے یوٹیلیٹی سٹورز کے باہر دیکھی ہے اور روزہ رکھ کر دو، تین گھنٹے شدید دھوپ میں کھڑی کسی 60 سال کی بوڑھی عورت کو جب یہ کہا جاتا تھا کہ آپ کل آئیں، آج چینی ختم ہو گئی تو قارئین دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں ان ارب اور کھرب پتی سیاستدانوں کو اس بوڑھی عورت کے کرب کا اندازہ ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ ہاں ان کرب کے لمحات سے کبھی ان سیاست دانوں کی ماں، بہن، بیوی یا بیٹی گزری ہو تو شاید احساس ہو، مگر یہ سب سیاست دان سونے کے چمچے لے کر پیدا ہوئے۔

غریب کے احساس سے عاری، صرف ٹی وی اور اخبارات کے بڑے بڑے اور مہنگے اشتہارات کی حد تک ڈرامے بازی کرتے یہ ارب اور کھرب پتی سیاست دان، ان مسائل کا حل یہ ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کا ڈرامہ بند کر کے آٹا، چاول، چینی، گھی، دالوں، مصالحہ جات، اور چار، پانچ دوسری ضروری اشیاء جو ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہے کو پورے پاکستان میں سستے داموں مہیا کر دیا جائے اور یوٹیلیٹی سٹورز، جو خزانے پر بوجھ اور پاکستانیوں بلکہ غریب پاکستانیوں کی ہتک اور توہین کا باعث بنے ہوئے ہیں فوراً بند کئیے جائیں۔

میری شہباز شریف، عمران خان اور سب گورنمنٹ میں آنے والے سیاست دانوں سے گزارش ہے کہ آپ میں سے کسی نے بھی عوام کے دل پر اور دس، پندرہ سال حکومت کرنی ہے تو غریب کی روزمرہ کے استعمال کی ساری چیزیں سستی کر دیں، اس کے لیے چاہے آپ کو ارب، کھرب پتی ایم این اے، ایم پی اے، وزیروں، مشیروں اور گریڈ 21 اور 22 کے تمام ارب پتیوں کی مراعات اور تنخواہ دو سال کے لئے بند کرنی پڑے۔ چونکہ دلوں پر راج اور طویل اقتدار کا یہ واحد راستہ ہے کہ غریب کے کھانے پینے چکی اشیاء کو کسی بھی طرح سستا رکھا جائے۔

قارئین میرے 25 سال پاکستان سے باہر گزرے۔ میرے آفس میں میرے ساتھ مصر کے لوگ بھی یوتھیےتھے تو میں ان سے سوال کرتا کہ حسنی مبارک 35 سال تک کیسے حکمران رہا اور 35 سال حکمرانی کے بعد بھی آپ لوگ اس کی حکومت سے خوش ہو؟ تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ کھانے پینے کی بنیادی چیزیں جو ہر غریب کی ہر روز کی ضرورت ہوتی ہے 35 سال سے اس نے مہنگی نہیں ہونے دیں۔

اللہ پاک ہمارے ان ارب، کھرب پتی سیاست دانوں کو غریب پاکستانیوں کا احساس دلا دے، تاکہ یہ لوگ غریب پاکستانیوں کے لیے دل سے کچھ کر سکیں۔ 2000 روپے اور یوٹیلیٹی سٹورز والے ڈرامے نہیں۔

Check Also

Netherlands

By Zaigham Qadeer