Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shafaqat Abbasi
  4. Do Number Jamhuriat

Do Number Jamhuriat

دو نمبر جمہوریت

قارئین جب سے پاکستان بنا ہے، ایک تو جمہوریت کا تسلسل نہیں رہا، اور جو جمہوریت رہی وہ بھی دو نمبر۔ دو نمبر اس لئے کہ بھٹو، بے نظیر، نواز شریف اور عمران خان جیسے لیڈر بھی پاکستان اور پاکستانیوں کی تقدیر نہیں بدل سکے، میری اس بات کی تصدیق پاکستان کے ساتھ اور پاکستان کے بعد آزاد ہونے والے ممالک کی ترقی ہے۔ سنگاپور، چائنا، کوریا، ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا بھارت اور دوسری جنگ عظیم میں تباہ حال برطانیہ اور دو ایٹم بم سہنے والا جاپان۔

یہ سب ممالک آج کدھر ہیں اور ہم 2023 میں صرف 4 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر رکھتے ہوئے کشکول لے کر کبھی دوست عرب ممالک اور کھبی چائنا اور کبھی آئی ایم ایف کے آگے ناک رگڑ رہے ہیں، قارئین 1960 کی دہائی میں ترقی کرتا پاکستان کیوں زوال پذیر ہوا، بہت ساری وجوہات میں سے چند ایک یہ ہیں۔

کرپشن، دو نمبر جمہوریت، پاکستانی اشرافیہ جو کہ آبادی کا صرف 10 فیصد بھی نہیں ہے کا 90 فیصد عام آدمی پر حکمرانی کرنا۔ مطلب سینٹ، قومی اسمبلی اور ساری صوبائی اسمبلیوں میں صرف دس فیصد اشرافیہ قابض ہے۔ عام آدمی کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ یہ اشرافیہ عام آدمی سے اتنی الگ تھلگ ہے کہ ان کی اربوں کی جائیدادیں اندرون اور بیرون ملک ہیں۔ پاکستان کے اندر زراعت اور صنعت پر ان کا، قبضہ ہے۔ یہ دس دس فیکٹریوں کے ارب پتی مالک ہو کر کسی ایک فیکٹری کو ناکام کرکے پاکستانی بنکوں کے اربوں اور کروڑوں روپے معاف کروا لیتے ہیں۔

ان کے بچوں کے سکول، ان کے ہسپتال عام آدمی سے الگ ہیں، اتنے اتنے الگ کہ عام آدمی پاکستان میں کسی خطرناک بیماری سے مر جاتا ہے وہاں یہ لوگ سر درد اور زکام بخار کے لئے لندن اور امریکہ جاتے ہیں۔ اور تو اور یہ ارب، کھرب پتی سیاستدان حج اور عمرہ تک عام، غریب آدمی کے ٹیکس کے پیسے سے کرتے ہیں، جی ہاں غریب کے اس ٹیکس کے پیسے سے جو غریب اور عام آدمی بجلی اور گیس کے بل میں، جو صابن کی ٹکیاں اور ماچس کی ڈبیہ پر الغرض ہر ہر چیز پر ٹیکس دیتا ہے۔

دو نمبر جمہوریت اس لیے کہ کسی سیاسی پارٹی میں پارٹی کے اندر الیکشن نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں تو دو نمبر۔ اور اگر کبھی صحیح ہونے بھی ہوں تو جسٹس وجہہ دین کی طرع صیح الیکشن کروانے پر یا دو نمبری کی نشاندہی کرنے پر نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔

دو نمبر جمہوریت اس لیے کہ بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے جاتے، اگر مالی اور انتظامی اختیارات میئر، چیئرمین، کونسلر کے پاس آ گئے تو ایم این اے اور ایم پی اے کے کرپشن کے راستے بند یا محدود ہوں گے بلکہ عام آدمی پر گرفت بھی کم ہوگی۔ چونکہ چھوٹے چھوٹے کام کے لیے دور دراز جا کر ایم این اے اور ایم پی اے کے بجائے عام آدمی اپنی دہلیز پر میئر، چیئرمین یا کونسلر سے رابطہ کرے گا۔

دو نمبر جمہوریت اس لئے کہ 90 فیصد غریب عوام، عام آدمی کی زندگی آج بھی مشکل میں ہے اور اس سیاسی اشرافیہ کی دس نسلوں تک کی عیاشیوں بھری زندگیوں کا بندوبست ہوگیا ہے۔

دو نمبر جمہوریت اس لیے کہ تمام سیاسی اشرافیہ کے اپنے ذاتی کاروبار اور جائیدادیں سو سو گنا ترقی کر گئیں اور ملکی خزانہ خالی۔

دو نمبر جمہوریت اس لیے کہ اپنی پارٹی سے اختلاف پر کسی بھی آدمی کو شاہد خاقان، مفتاح اسماعیل اور لطیف کھوسہ، اعتزاز حسن بنا دیا جاتا ہے۔

دو نمبر جمہوریت اس لیے کہ الیکشن سے کئی ماہ پہلے فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ کس نے حکومت بنانی ہے۔ کس نے وزیراعظم بننا ہے اور کس کس نے کون کون سا وزیر۔ غریب عوام کے ٹیکس کا 60 ارب روپیہ جو الیکشن پر لگایا جاتا ہے۔ اس الیکشن کا حکومت بنانے میں کردار 20 فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا 80 فیصد دوسرے عوامل ہوتے ہیں۔

تو قارئین ان ساری خامیوں پر جب تک کنٹرول نہیں کیا جاتا، یہ جمہوریت، دو نمبر جمہوریت ہی رہے گی، اور چاشر اور اشرافیہ دن دگنی رات چگنی ترقی کرے گی، اور چپاکاور پاکستان اور غریب پاکستانی عام پاکستانی ڈیفالٹ کرتا رہے گا۔ یا ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کی گہری کھائی میں گرتا رہے گا۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo