10 Feesad Ashrafia Ki Hukmarani?
10 فیصد اشرافیہ کی حکمرانی؟
ہم آج تک 90 فیصد عوام میں سے کسی کو منتخب کیوں نہیں کرتے اور ہمیشہ 10 فیصد اشرافیہ کے لوگ ہی کیوں 90 فیصد عوام پر حکومت کرتے ہیں؟ میرا ذاتی خیال ھے اس کی یہ وجہ ہو سکتی ھے۔ اصل میں ہم برصغیر پاک و ہند کے لوگ انگریزوں کے غلام رہے۔ انگریز نے ہم کو اتنا دبایا اپنےرعب اور رعونت سے کہ ہم آج75 سال بعد بھی انگریز کے اس رویے سے جو ہمارے خون میں رچ بس گیا ھے، ہم جان نہیں چھڑا سکے۔
انگریز کا رویہ برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کے ساتھ کیسا تھا۔۔ قدرت اللہ شہاب صاحب کی کتاب شہاب نامہ میں بہت اچھی طرح بتایا گیا ھے، جس کی مثال یہ ھے کہ ہم آج بھی الیکشن میں اس آدمی کو ایم این اے، ایم پی اے منتخب کرتے ہیں جو علاقے کا سب سے امیر یا سب سے بڑا اثر و رسوخ والا آدمی ہوتا ھے اور کچھ حلقوں میں ان دو خوبیوں کے ساتھ ساتھ امیدوار کا غنڈہ، قبضہ گروپ، قاتل اور بد معاش ہونا بھی ضروری ہوتا ھے۔ ہم آج بھی اپنے جیسوں کو منتخب نہیں کرتے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں 90 فیصد عوام کا، مطلب ان جیسا ایک بھی منتخب نمائندہ نہیں۔ سب 10 فیصد اشرافیہ کے لوگ ہیں۔
جب 10 فیصد ارب پتی اشرافیہ کے لوگ، 90 فیصد عوام، بلکہ غریب ترین عوام پر حکومت کریں گے تو عوام کے مسائل خاک سمجھیے جائیں گے اور جب مسائل سمجھے نہیں جائیں گے تو خاک حل ہوں گے۔ بس یہی وجہ ھے کہ 75 سالوں سے غریب پس رہا ھے۔ جہاں غریب صاف پانی اور دو وقت کی روٹی سے محروم ھے اسی غریب عوام کے منتخب نمائندے کے کتے اور بلیاں امپورٹڈ فوڈ اور امپورٹڈ منرل واٹر استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔
قارئین ٹی وی پر حالیہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں غریب عوام کے گھر بار اور حالت دیکھ کر غریب اور غربت کا احساس ہوا۔ ورنہ ہم اسلام آباد کے پوش ایریا کے لوگ کیسے اس درد کو محسوس کر سکتے تھے۔ جو سیلاب زدگان پر گزرا ھے۔ ایک طرف عوام کی اس قدر غربت اور دوسری طرف اسی عوام کے ارب، کھرب پتی منتخب نمائندوں کے اسلام آباد، دبئی، انگلینڈ میں گھر بار۔ اولاد کا باہر پڑھنا۔ حیران اور پریشان کرتا ھے کہ منتخب نمائندے اس عوام کا خیال کیوں نہیں کرتے جو ان کو منتخب کر کے ایوانوں میں بیجھتے ہیں۔ اوراس بات پر مزید حیرانگی ہوتی ھے کہ دو وقت کی روٹی سے محروم غریب ان ارب، کھرب پتی لوگوں کو ہی کیوں ایوانوں میں بیجھتے ہیں؟ جو 75 سال گزر گئے وہ تو واپس نہیں آ سکتے۔۔ مگر کیا آئندہ کے 75 سال بھی ہم لوگ اسی طرح گزاریں گے؟
کیا سیاستدانوں کے بیٹے اور پوتے ہی سیاست کریں گے۔ کیا وزیر کا بچہ ہی وزیر بنے گا؟ قارئین یہ صرف برصغیر پاک و ہند میں ہوتا ھے۔ ورنہ یورپ، امریکہ کوریا چاپان میں بہت عام آدمی بھی منتخب ہوتے ہیں۔ لندن دنیا کا بڑا دارالحکومت۔ لندن کا مئیر برٹش پاکستانی بس ڈرائیور کا بیٹا ھے جی ہاں برٹش پاکستانی بس ڈرائیور کا بیٹا صادق خان لندن کا مئیر ھے۔ پاکستان میں بس ڈرائیور کا بیٹا کسی یو سی کا چیئرمین نہیں بن سکتا۔ اسی طرح کی بہت مثالیں ہیں۔
قارئین رعب اور دبدبے اور عوام پر گرفت مضبوط رکھنے کے لئے انگریز دور میں جس انگریز اسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی ڈیوٹی برصغیر پاک و ہند کلکتہ، لاہور، ڈھاکہ، دھلی لگتی تھی اس کو 25 سے 35 ملازم ملتے تھے اور جب اسی افسر کی ٹرانسفر انگلینڈ ہوتی تھی تو ایک ادھ ملازم اور کبھی وہ بھی نہیں ملتا تھا۔ آل انڈیا ریلوے میں ایک پورا ڈبہ انگریز ڈپٹی کمشنر اور اسکی فیملی کے لئے مخصوص ہوتا تھا جبکہ وہی ڈی سی جب انگلینڈ جاتا تو عام عوام کی طرع سفر کرتا۔
اگر پاکستانی، بلکہ غریب پاکستانی اپنے مسائل حل کرنا چاہتا ھے تو اپنے جیسے اپنے میں سے لوگ منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجو۔ نہیں تو تمھاری داستاں تک نا ہو گی داستانوں میں۔ تمھاری دو، تین نسلوں نے گورے انگریز کے بعد ان اپنے گندمی رنگ کے دیسی انگریزوں کی غلامی کرلی، تو کیا آپ غریب عوام اپنی انے والی ہر نسل کو اسی دس فیصد اشرافیہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کی غلامی قبول کر چکے ہو؟